Saqafti Azdaham
ثقافتی اِژدحام
ہر وہ شئے جو افراد کے جذبات اور احساسات سے وجود میں آئے ثقافت ہے۔ کسی بھی معاشرے میں رسم و رواج، طرز بودو باش، اظہار فن کے جو معیار رائج ہوتے ہیں، وہ معاشرے کے سماجی اقدار کہلاتے ہیں۔ جس طرح درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح ثقافت اور تمدن کی پہچان اس معاشرے کے سماجی اقدار ہیں۔
سر سید احمد خان تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ایک گروہ انسان کسی جگہ اکٹھا ہو کر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں، حاجتیں، غذائیں، پوشاکیں، معلومات اور خیالات، خوشی کی باتیں اور نفرت کی چیزیں سب یکساں ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ان کے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں۔ برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ سویلائیزیشن ہے۔
ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں اور زرا غور کریں تو تھوڑی دوڑ دھوپ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا شجرہ نسل ہندؤں اور سکھوں سے ملتا ہے۔ برصغیر میں محمد بن قاسم کی آمد کے بعد اسلام کی تبلیغ کے باعث اور اس سے متاثر ہو کر کئی مذاہب کے لوگ اسلام میں پے در پے داخل ہوئے۔ اس طرح مسلمان اس خطہ ارض پر آباد ہونے لگے اور اس معاشرے میں رہنے لگے۔ برصغیر میں مسلمان اور غیر مسلمان صدیوں پر مشتمل مشترکہ تاریخی ورثہ رکھتے ہیں۔
وراثت کی بنیاد پر اور ہمراہ رہنے سے دیگر کئی مذاہب کے ریت رواج مسلمانوں کے ہاں داخل ہیں۔ شادی ہو، فوتیدگی ہو، خوشی ہو، غمی ہو، ان سب میں رسومات ملتی جلتی ہیں۔ شادی کی بات ہو تو اس میں کئی رسومات دیگر مذاہب کی شریک متعلق ہیں۔ بَرَأت کا تصور، چھونی توڑنا، گھڑا پھوڑنا، والد کی گھر سے رخصتی کے وقت بیٹی کا باپ کی گھر گندم کے دانے پھینک کر جانا تا کہ ان کا رزق ختم نہ ہو۔ دلہے کے گھر پیسوں پر چلنا، مہندی لگانا اور کئی دیگر رسومات جن کا اسلام سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ فقط مشترکہ ثقافت اور رہن سہن کا نتیجہ ہیں۔
بہار آنے پر وسطی پنجاب میں خاص میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جن میں اکثر دیہاتی لوگ اپنی روز مرہ کی سختیوں اور مشکلات کو بھلا کر زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ بعض اوقات مسرتوں میں ڈوب کر اس قدر محو اور فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ کب وہ شریعت کے خلاف چلے گئے پتا ہی نہیں۔ مخصوص درباروں اور قبرستانوں میں یہ میلے منعقد ہوتے ہیں۔ ان میں کئی رسومات ہندوازم اور بدھمت سے مستعار لی گئی ہیں۔ یہاں پر دیئے چڑھائے جاتے ہیں۔ عام عوام کا یہ ماننا ہے کہ اگر اوپر چڑھتے وقت کسی طرح دیا بجھ گیا تو دربار کے گدی نشین یعنی پیر صاحب کا انتقال لازِم و مَلْزُوم ہے۔ حالانکہ اس بات کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں۔
کئی رسومات تو ایسی ہیں جن کو دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پتا پانی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ دربار کے احاطے میں اور قبرستان کے اندر رقص و سرور کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ ڈھول کو قبرستان میں ایسے تھاپا جاتا ہے جیسے مردوں کی بخشش اس دھاپ سے مقصود ہو۔ طرح طرح کی دکانیں لگائی جاتی ہیں۔ خرید و فروخت ضروری عمل ہے مگر قبرستان کے احاطے سے باہر ہو تو اچھا ہے۔ بہت سے مقامی اور لوک کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ جن میں کبڈی اور نیزہ بازی عام ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھوڑا ناچ، کتوں کی لڑائی، ریچھ اور کتے کی لڑائی، مرغوں کی لڑائی، سٹا بازی، موت کا کنواں، جھولے اور دیگر قسم کے کئی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آنکھیں اس وقت پھٹتی ہیں جب ان کو عجیب و غریب منظر دیکھنا پڑتا ہے۔ کلیجہ اس وقت منہ کو آتا ہے جب انتہائی تشویش ناک جرم سرزد ہوتے ہیں۔ قبرستان کے اندر اور دربار کے احاطے میں رقص و سرور کی محفلیں سجتی ہیں۔ خواجہ سراؤں کو مختلف علاقوں سے منگوا کر ان محفلوں کی رونق بنایا جاتا ہے۔ تماشائیوں کا جم غفیر ہوتا ہے۔ اپنے پیاروں کی قبروں کے پاس کھڑے ہو کر عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان محفلوں سے محظوظ ہونا قابل تشویش اور الم ناک ہے۔ مجھے یاد ہے چند سال پہلے جب ماموں کا انتقال ہوا تو خاندان پر جیسے قہر برپا ہوگیا۔ سب نوحہ کناں تھے۔ خوف و ہراس کا عالم تھا۔ ان کے بچھڑنے سے رت ہی بدل گئی۔ شہر جیسے ویران سا ہوگیا۔ ان کو لحد میں اتارتے وقت غم سے جسم نڈھال اور خوف سے کلیجہ پھٹ رہا تھا۔ اس وقت قبر کی بھی فکر ہو رہی تھی اور آخرت کی بھی۔ دنیا کی حقیقت سراپے کے سوا کچھ نہیں۔ سب کو لوٹ کر جانا ہے اور اپنے ہر قول و فعل کا حساب دینا ہے۔
وہاں صرف ایک قبر نہیں بلکہ بیسیوں قبریں ہیں۔ کسی کا باپ تو کسی کا بیٹا، کسی کی ماں تو کسی کی بہن، کسی کا بھائی اور کئی دیگر رشتے وہاں دفن ہیں۔ وہ عبرت کی جگہ ہے اور ہم نے تماشا لگا رکھا ہے۔ محض ثقافت کے نام پر۔ دراصل یہ ثقافت میں انتہائی نیچ خرابی اور بگاڑ ہے۔ جسے اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔
قبرستان جا کر مردوں کیلئے ایصالِ ثواب کیجیے اور خدا سے مغفرت کی دعا کیجیے۔ حضرت سفیانؓ فرماتے ہیں، جس طرح زندہ انسان کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں اسی طرح مردے دعا کے انتہائی محتاج ہوتے ہیں۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ خدا جنت میں ایک نیک بندے کا مرتبہ بلند فر ماتا ہے تو وہ بندہ پوچھتا ہے پرور دگار مجھے یہ مرتبہ کہاں سے ملا۔ خدا فرماتا ہے، "تیرے لڑکے کی وجہ سے کہ وہ تیرے لئے استغفار کرتا رہا"۔
علاوہ ازیں بعث بعد الموت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس سے انسان بدی سے نفرت کرتا ہے۔ اس کے اندر نیکی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ کیونکہ اسے خدا کے رو برو ہونا ہوتا ہے۔ جب انسان جنت و دوزخ کا قائل ہوگا تو لازمی طور پر جنت کی حصول کےلیے ہر ممکن کوشش کرے گا اور ایسی بد نیتی سے باز رہے گا۔