Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Badar Habib Sipra
  4. Ittefaq Se Ittefaq Tak

Ittefaq Se Ittefaq Tak

اتفاق سے اتفاق تک

زندگی کی پگڈنڈیاں اتفاق کے قمقموں سے جگمگاتی ہیں۔ جہاں کچھ اتفاق ہمیں مسکراتی یادوں کا خزانہ دیتے ہیں، وہیں کچھ ہمیں درد کی گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ یاد ماضی عذاب ہے یارب۔ اس تحریر کی وجہ خاص حضرت انسان اور دنیا کی ایک ایسی روداد ہے جو ایک سلسلہ وار اتفاق سے شروع ہوئی، محبت میں ڈھلی، اور ایک غیر متوقع موڑ پر آ کر ختم ہوگئی۔

ایک حسین اتفاق ہوا۔ لیکچر ہال سے باہر نکلتے ہی دنیا اپنی دو دوستوں تارا اور ستارا کے ہمراہ ہمارے پیش پیش آنے لگیں اور ایک مدھم سی آواز نے کانوں پر دستک دی۔ یوں کوئل کی سی کوکو لبوں پر کھلکھلاہٹ کا موجب بنی۔ اک دبی سی مسکراہٹ جانے نہ پائی۔

ایک روز، ہم ہاسٹل میں بیٹھے روز مرہ کی گفت و شنید میں مشغول تھے، حضرت انسان، میں، اور زوہان (ہمارا ایک مشترکہ دوست) باتوں باتوں میں یہ طے پایا کہ چونکہ حضرت انسان شرمیلے تھے چنانچہ زوہان صاحب دنیا سے چند سوالات پوچھیں گے اور انہیں پڑھانے کی درخواست کریں گے۔ اس ہمت کے بدلے زوہان کو کھانے کی پیشکش کی گئی۔ صرف توجہ حاصل کرنا مقصود تھا۔ ہم سب نے مل کر اس منصوبے پر عمل پیرا ہونا تھا، لیکن جب ہم کالج پہنچے، جو کچھ اتفاقاً ہوا وہ ہمارے منصوبے کے عین برعکس تھا۔ ہمت نہ بن پائی، غور و فکر کرنے لگے آغاز کیسے ہو؟ جب کہ اسی روز جب ہم روزمرہ کے معمول کے مطابق میوزیم پہنچے تو دنیا کی دوست ستارا نے ہمارے پاس آ کر ہم سے نا صرف گفتگو کا آغاز کیا بلکہ وہی سوالات پوچھے جو ہم نے رات کو تشکیل دیے تھے۔ یہ اتفاق ہمارے واسطے اس قدر حیران کن تھا کہ ہم ششدر رہ گئے۔ چاروں شانے چت اور حواس باختہ تھے۔

بہرحال ماڈل کو سمجھانے کی ذمہ داری اس بندہ ناچیز کو سونپی گئی۔ کانپتے ہاتھوں اور لرزتی آواز سے ہم نے بھی اپنی استادی کے خوب جوہر دکھائے۔ خدا جانے کیا گل کھلائے؟ مگر سب برداشت کیے جا رہے تھے۔ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو پھٹ پڑے۔ میاں! اتنے بھی بے لگام مت ہویئے۔ جو دل میں آیا بول دیا۔ فوراً نشاندہی کی گئی کہ فلاں مسل تو بلائی حصے کا ہے جبکہ آپ زیریں حصے میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ ہم بھی بے ساختہ سیخ پا ہو گئے۔ کس کی کیا مجال کہ استاد کو ٹوکے۔ بضد تھے کہ وہ تو زیریں حصہ ہی ہے اور ساتھ ہی انتباہ کیا ہم نہ پڑھا پائیں گے۔ یہاں پر تو ہمارا امتحان لیا جا رہا ہے اور ناراضگی کا لبادہ اوڑھے چپ سادھ لی۔ ہماری غلطی کے باوجود زندہ دلی دکھاتے ہوئے ہم سے معذرت کی گئی جسے ہم نے فراخ دلی سے قبول کیا۔

وقت گزرتا گیا، اور پھر اتفاق ہی اتفاق ہوئے۔ حضرت انسان جہاں بھی پڑھنے بیٹھتے، دنیا بھی وہیں آ کر بیٹھ جاتیں۔ جسم اور پرچھائیں کا سا تعلق استوار ہونے لگا۔

کبھی لائبریری تو کبھی میوزیم کے اندر، معلوم ہوتا، آیا ان کے دلوں کی رہنمائی کوئی غیبی طاقت کر رہی ہے۔ رابطہ بذریعہ نظر اس قدر گہرا اور مضبوط کہ الفاظ کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکنے اور حال دل جاننے کی خاطر شاید وہ الفاظ کے محتاج نہ تھے۔ عجیب مخمصہ تھا۔ ہر دم ان معصوم چہروں پر دلفریب مسکراہٹ نے ڈیرے جما رکھے تھے۔ بھولی بھالی اور من موہنی صورت ایسی کہ پریاں بھی گن گائیں۔

جب ایسے بیسیوں اتفاق روز کا معمول بننے لگے، مسلسل آنکھوں سے آنکھیں چار ہونے لگیں تو اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ اس تسلسل کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ محبت کی اگلی سیڑھی پر قدم رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی خوف کا طُوفان اُمَڈ آیا۔ بات کریں یا نا کریں؟ پھر یہ بات کھٹکنے لگی کہ وہ کیا سوچیں گی؟ اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس واسطے اس فریضے کا طوق اک مخلص یار کے گلے ڈالا گیا۔ جب فکر دامن گیر ہوئی، پیش رفت کے لیے ہم نے بھی بھرپور دماغی جنبش کی۔

دماغ خرچ کرنے پر اور تھوڑی جانچ پڑتال پر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ قرعہ ہی موزوں رہے گا۔ چار پرچیاں ہاں والی کہ رابطہ کیا جائے جبکہ چار پرچیاں ناں والی کہ اس عمل سے باز رہا جائے۔ اس قرعہ اندازی سے پہلے خدا تعالیٰ سے دعا کی گئی کہ جو حق میں بہتر ہو اس راہ کا اشارہ ملے۔ پھر جو ہوا اس کا دور دور تک کوئی وہم و گمان تک نا تھا۔ پہلی پرچی۔ ہاں، دوسری۔ ہاں، تیسری۔ ہاں، چوتھی۔ ہاں۔ لو جی اس طرح اگلا قدم طے پا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا حضرت انسان کو اعتماد میں لا کر پہلا میسج بھیج دیا گیا اور ساتھ ہی موبائل فون بند۔

علی الصبح جب جواب دیکھا تو میاں خوشی سے پھولے نا سمائے۔ ابتدائی مراحل میں جوابی میسج کا دورانیہ چار پہر سے دو پہر جبکہ وقت کے ساتھ یہ دورانیہ اس قدر قلیل ہوگیا کہ فوراً جواب آنے لگے۔

محبت انسان کا ایک فطری عمل ہے۔ محبت اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جس کا سامنا ہر شخص کو کسی نہ کسی مرحلے پر ہوتا ہے۔ حضرت انسان کے پاس بھی محبت میں مبتلا ہونے کا کوئی اختیار نا تھا۔ وہ اس فطری جذبے کے آگے بے بس تھے۔ دنیا کا ہنسنا، حضرت انسان کے دل کو خوشیوں سے بھر دیتا، اور حضرت انسان کی خاموشی، دنیا کو سکون کا احساس دلاتی۔ یہ محبت خالص تھی، جس میں نہ کوئی شرط تھی، نہ کوئی مطالبہ۔

محبت اگر اکتسابی عمل ہوتا، تو شاید ہم اس سے بچ سکتے تھے۔ ایک دن، حضرت انسان نے فیصلہ کیا کہ وہ دنیا سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے۔ یہ دن ان کے لئے بہت اہم تھا، انہوں نے تمام تیاری کر رکھی تھی۔ مگر قسمت کو جیسے کچھ اور ہی منظور تھا۔ جس دن حضرت انسان نے دنیا سے اپنے دل کی بات کہنی تھی، اس دن ایک بڑا حادثہ (اتفاق) ہوا۔ ہمارے ایک بہت ہی قریبی دوست سڑک پر حادثہ کا شکار ہوگیا۔

حضرت انسان اور میں فوراً اپنے دوست کو لئے ہسپتال پہنچے۔ وہاں ایک اور حیران کن اتفاق ہماری راہ دیکھ رہا تھا۔ تیز قدموں کی آہٹ پورے ہسپتال میں گونج رہی تھی۔ کوئی ایسے بھاگ رہا تھا جیسے پیاسا کنویں کی تلاش میں۔ دوپٹہ سر سے سرکا ہوا، بال بکھرے ہوئے، چہرے کی رنگت زرد پڑھ رہی تھی۔ وہ بار بار نبض دیکھ رہی تھی، دھڑکن سن رہی تھی۔ ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔ جلدی کرو جلدی۔ دنیا کو اس حالت میں دیکھ کر دل پر گراں گزرا۔ مدد کرنا چاہی مگر کر نہ پائے۔ شاید وہ احسان کا بوجھ اٹھانے سے گریزاں ہوں۔

رنگ حنا ابھی گیا نہ تھا کہ اس مصیبت نے آن پکڑا۔ معلوم ہوا کہ ابھی ایک سے دو ہوئے دو دن نہ بیتے تھے جب کالے بادل منڈلانے لگے۔ ان کے جیون ساتھی کو نا جانے کس کالی نظر نے شکار بنایا؟

کہاں اظہار محبت اور کہاں اختتام محبت۔ اس وقت اس حالت میں حضرت انسان پر جو گزری وہ نا قابل بیان ہے۔ بہرحال ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ دل ٹوٹ سا گیا۔ ایک لمحے میں، ان کی تمام امیدیں، خواب، اور محبت بکھر کر رہ گئے۔ اس اتفاق نے انہیں شدید دکھ پہنچایا، لیکن یہ بھی سکھایا کہ کبھی کبھی ہماری خواہشات اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔

کون کہتا ہے عشق وہ آگ ہے جو بجھائے نہ بجھے۔ ہم نے شعلہ عشق نہ صرف بجھتے دیکھا بلکہ اس کی راکھ تک ہوا کے دوش اڑتی دیکھی۔ "وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا"۔ زندگی کے اس سبق سے عیاں ہوا کہ محبت ایک خوبصورت تجربہ ہے، چاہے وہ کتنی بھی مختصر کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اپنے دل کو سنبھالا اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

Check Also

Zehni Ghulam, Dolay Shah Ke Choohe Aur Likhari

By Mubashir Aziz