Mausmi Tabdeeliyan Aur Hamare Rawaiye
موسمیاتی تبدیلیاں اور ہمارے رویے
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اِس لہر نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 21 جولائی 2024 دنیا میں سب سے گرم ترین دن رہا جس نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان اُن دس ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے جو موسمیاتی/ ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں کی طرح اِس سال بھی موسم گرما کا آغاز شدید گرمی کی لہر سے ہوا۔ میدانی علاقے گرمی کی لپیٹ میں زیادہ آتے ہیں لیکن شمالی علاقہ جات کے موسم میں بھی واضح تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جہاں سورج نکلتا ہے تو گرمی عروج پر ہوتی ہے لیکن جیسے ہی بادل آتے ہیں تو موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ جبکہ کچھ سال پہلے تک ان علاقوں میں موسم گرما میں شدید ٹھنڈ پائی جاتی تھی جس سے سیاح بہت زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے۔
پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی میں بھی ہیٹ ویو بَدَستُور دیکھنے میں آرہی ہے۔ جہاں صدیوں سے روایت تھی کہ دن چاہے کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو لیکن سمندری ہوائیں چلنے کی وجہ سے راتیں خوشگوار ہو جاتی تھیں لیکن اس سال کراچی میں سمندری ہوائیں اب تک نہیں چلیں اور جوبارشیں ہوئیں ان کی وجہ سے درجہ حرارت اور نمی کا تناسب مزید بڑھ گیا ہے جو کہ ناقابلِ برداشت بنتا جا رہا ہے۔
مون سون بارشوں کی روش میں بھی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اِس موسم میں گرمی کی شدت میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے اور ہوائیں بند ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں بجلی کی بندش اور کئی کئی گھنٹے کے لیے بجلی کا نہ آنا مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے اور زندگی ہر لحاظ سے عذاب ہو جاتی ہے "ایک تو کہر کی گرمی برداشت نہیں ہوتی پھر بجلی سے ہی تمام کام ہوتے ہیں" بجلی غائب تو پانی بھی ساتھ ہی چلا جاتا ہے جس سے سارے کام ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں اور خلقِ خدا تڑپ اٹھتی ہے۔
شدید موسم کی وجہ سے جہاں انسان اور ان کے معمولات متاثر ہورہے ہیں وہیں حیوان بھی بلبلا اٹھے ہیں حتٰی کہ درخت، پودے، پھول سب مرجھا گئے ہیں بلکہ کئی درخت تو ایسے لگتا ہے جیسے جل سڑ گئے ہوں۔ اندیشہ ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ سے غذائی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ سبزیوں، پھلوں، اجناس وغیرہ کے اگنے، پھلنے پھولنے کے لیے مناسب درجہ حرارت اور بتدریج پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ بارشوں کی وجہ سے بھی فصلیں اجڑ جاتی ہیں اور سیلاب سے تباہی الگ ہوتی ہے۔
دوسری طرف بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کا کوئی حل نہیں مل رہا۔ لوڈشیڈنگ، فرسودہ بجلی کا نظام پھر بجلی کے بلوں نے عوام بے چاری کو جیتے جی مار دیا ہے۔ روزگار کے مسائل اپنی جگہ ہیں، لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، پہننے کو کپڑا نہیں، سر کے اوپر چھت نہیں، جہاں لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں وہیں بجلی کے کے بلوں نے علیحدہ تباہی مچائی ہوئی ہے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر طبقہ مشکل میں ہے۔
موسمی تبدیلیاں قدرت کی جانب سے ہیں لیکن کئی معاملات میں ہم ہی قصور وار نکلتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے جنگلوں اور درختوں کو کاٹ چھانٹ کر کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز، پلازے اور مارکیٹیں بنا لی ہیں جس سے ہریالی ختم ہوگئی ہے اور جو درخت سایہ کرتے تھے وہ ناپید ہو گئے ہیں۔ دور دور تک بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں جو گرمی کی شدت میں اضافہ کرتی ہیں۔ چرند پرند گرمی میں ہلکان ہوئے سائے کی تلاش میں پریشان اڑتے نظر آتے ہیں نہ ہی ان کو اپنے گھونسلے بنانے کی کوئی جگہ مل پاتی ہے اور نہ ہی رنگ برنگے پھولوں کی مہک اور کیاریوں میں لگے خوبصورت لہراتے پھولوں کے دلفریب نظارے نظر آتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جبکہ 25 سے 35 فیصد جنگلات کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
بڑھتی آبادی کی ضروریات کے مطابق اگر درختوں کو کاٹنا بہت ضروری ہے تو ان کی جگہ اتنے ہی درخت لگانے بھی چاہئیے تاکہ نہ صرف قدرتی حسن کو محفوظ کیا جا سکے بلکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ حکومت اور دیگر اداروں کو چاہئیے کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائیں اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے دیگر طریقوں کو اپنایا جائے تاکہ بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر پانی کی قلت کے خطرے کو ٹالا جا سکے کیونکہ زیرِ زمین پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر جلد سے جلد اور ہنگامی طور پر کاروائی کرنا بے حد ضروری ہے۔
بہت سارے معاملات میں ہم انسان ہونے کے ناطے بے بس ہوتے ہیں لیکن وہیں کئی اقدامات ہم نے اپنی عقل، سوچ سمجھ کے مطابق، وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھانے ہوتے ہیں تاکہ اس وقت کے آنے سے پہلے ہم ان مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر تیار ہو سکیں اور پچھتانا نہ پڑے۔
مسائل کے آنے سے پہلے ان کے نمٹنے کے لیے تیار رہنا اور اقدامات کرنا عقلمندی کا ثبوت ہوتا ہے۔ ڈیم بنانا، پہاڑوں پر پڑی برف کے پگھلنے سے بننے والے پانی کو محفوظ کرنا، بجلی پیدا کرنے کے دیگر طریقوں پر عمل کرنا، بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا، درختوں کی کٹائی کے ساتھ ساتھ مزید درخت لگانا انتہائی اہم ہے۔ اس کے ساتھ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے کوڑے کو آگ لگانا، فیکٹریوں کے دھویں اور کیمیکل کی فضا اور پانی میں اخراج کی روک تھام، دھواں چھوڑتی گاڑیوں، بسوں، ویگنوں کا سدِباب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ ان اقدامات سے ہم سردیوں میں پیدا ہونے والی سموگ سے بھی بچ سکتے ہیں جس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
ہمیں مختلف پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں میں شعور پیدا کرنا چاہئیے اور انفرادی طور پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے، پانی کے بے جا استعمال سے روکنے اور پیدل چلنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہئیے، تاکہ مستقبل میں بہت سارے مسائل سے بچا جا سکے جن میں انسانی صحت اور ماحولیاتی پاکیزگی سرفہرست ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسز کا سدِ باب کیا جانا بہت ضروری ہے۔
سردیوں کے موسم میں بجلی کے تاروں کی دیکھ بھال (مینٹیننس) کا کام کیا جائے پرانی تاروں، ٹرانسفارمر وغیرہ کی بروقت تبدیلی کی جائے تاکہ گرمیوں میں جب بجلی کی کھپت زیادہ ہو تو بلاتعطل بجلی فراہم کی جا سکے اس کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے تاکہ عام انسان جو پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کی چکی میں پس رہا ہے اسے کچھ ریلیف مل سکے۔ وہ سکون کا سانس لے سکے اور زندہ رہ سکے۔
جب کسی بھی انسان کو بہت سارے مسائل کا ایک ساتھ سامنا کرنا پڑے جس میں اس کی اپنی کوئی غلطی بھی نہ ہو تب وہ انسان مجبور ہو کر یہی سوچتا ہے کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا اور اب وہ وقت آ گیا ہے جب ہر دوسرا بندہ اپنا ملک، اپنا گھر چھوڑ کر بہتر زندگی گزارنے کے خواب لے کر کسی دوسرے ملک جانے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ جہاں محنت کرے لیکن اس کا پھل تو ملے، سکون کی زندگی تو بسر ہو سکے، جہاں کم از کم بنیادی سہولیات تو میسر ہوں، جہاں جان و مال کی حفاظت ہو، زندگی ہر لمحہ مسائل میں گھِری نہ ہو۔
پاکستان جو ہم سب کا گھر ہے ہماری پیاری سرزمین ہے ، ہماری پہچان ہے اس کو بچانے کے لیے ہمیں کچھ اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے ان میں شجرکاری سب سے اہم ہے جو ہمارے ہاتھ میں بھی ہے تاکہ فضائی آلودگی سے بچا جا سکے، سیلاب کی روک تھام ہو سکے، درجہ حرارت میں کمی واقع ہو سکے، جنگلی حیات کو مسکن مل سکے اس کے ساتھ ساتھ ہمارا ماحول خوبصورت بن سکے۔ شجر کاری نہ صرف ہم انسانوں بلکہ ماحول کے لیے بھی بے حد ضروری ہے اور ان اقدامات کی بدولت ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ تھوڑا نہیں زیادہ سوچیں اور عمل کریں تاکہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی بدلاؤ لا سکیں۔