Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Agha Shoaib Abbas
  4. Wazir e Aala Sindh Ka Vocational Training Centre Ka Iftetah

Wazir e Aala Sindh Ka Vocational Training Centre Ka Iftetah

وزیر اعلیٰ سندھ کا ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کا افتتاح

اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے معذور افراد کے حقوق کے مطابق وہ افراد جنہیں طویل المعیاد جسمانی، ذہنی یا حسیاتی کمزوری کا سامنا ہو جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو انہیں معذور کہا جاتا ہے۔ جبکہ طبی ماہرین کی نظر میں معذور فرد وہ ہوتا ہے کہ "کوئی بھی فرد عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروبارِ زندگی میں حصہ لینا محدود بن جائے"۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو طے ہو گیا کہ ایک فرد معذور ہے اب یہاں سے ریاست اور فلاحی اداروں کا کام شروع ہوتا ہے کہ وہ کیا طریقہ اپنائیں کہ ان خصوصی افراد کا ٹیلنٹ ضائع نہ ہو کیونکہ ہر بندے میں کوئی نہ کوئی مخفی صلاحیت ضرور ہوتی ہے جس کو اگر اجاگر کیا جائے تو وہ معاشرے کا کارآمد فرد بن سکتا ہے۔ راقم الحروف نے پولیو کا شکار لوگوں کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی بنتے دیکھا ہے۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہوتی تھی جس میں ایک بصارت سے محروم شخص گاڑی ٹھیک کرتے دکھایا گیا ہے اور بھی اس طرح کے کئی لوگ ہونگے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہونگے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی کل آبادی کا تقریباً دس فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں کتنے لاکھ افراد معذور ہیں؟

دیکھا جائے تو "ڈس ایبلٹی" کئی قسم کی ہوتی ہیں مثلاً ایک "انٹلیکچول ڈس ایبلٹی" ہوتی ہے جس کو کافی سال پہلے "مینٹل ریٹارڈیشن" کہا جاتا ہے لیکن اس ماڈرن دور میں"ریٹارڈیشن" کا لفظ استعمال کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لہٰذا اس کو نکال کر ایک اچھا نام دے دیا گیا۔ اس قسم کا فرد کافی حد تک نارمل ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا معاشرتی رویہ بھی اس کی تعلیمی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ایسے فرد بہت حد تک خودمختار نہیں ہوتے انہیں مدد کی ضرورت رہتی ہے۔

ایک اور ڈس ایبلٹی جو اکثر دیکھی جاتی ہے وہ "ہیرنگ امپیرمنٹ" کہلاتی ہے کچھ لوگ مکمل طور پر سماعت سے محروم نہیں ہوتے کہ ان کے سننے کی قوت عام لوگوں سے قدرے کم ہو سکتی ہے ایسے لوگ بھی تعلیمی میدان میں خاصی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور "ڈس ایبلٹی" جو عام طور پر نظر نہیں آتی لیکن یہ بچے میں پائی جا سکتی ہے وہ "ایموشنل ڈسٹربینس" ہے۔

یہ ایسی حالت ہے جس میں بچے کو کام کرنے کی صلاحیت پر برا اثر پڑتا ہے ایسا بچہ سیکھنے کی صلاحیت استعمال نہیں کر پاتا باوجود اس کے کہ اس میں کوئی ذہنی یا جسمانی نقص نہیں پایا جاتا ایسا بچہ "ایموشنل ڈسٹرب" ہو وہ اپنے ساتھی دوستوں اور استاد کے ساتھ تعلق بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا یا بنانے پر انہیں نبھا نہیں سکتا۔ ایسے بچہ کا رویہ عام طور پر غیر مناسب اور غیر فطری ہوتا ہے مثلاً بالکل خاموش ہو جانا اور سوال کرنے پر بھی جواب نہ دینا۔

ایسے بچے میں عمومی طور پر اداسی کی کیفیت طاری رہتی ہے اور مضطرب معلوم ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ایسے بچے میں اپنے مسائل اور اسکول کے مسائل کے حوالے سے خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کچھ "ملٹیپل ڈس ایبلٹی" بھی ہوتی ہیں مثلاً "انٹلیکچول ڈس ایبلٹی" اور بلائنڈنس ایک ساتھ ہو یا "آرتھوپیڈک امپیرمنٹ" اور "انٹلیکچول ڈس ایبلٹی" ایک ساتھ ہوں۔ ان طرح کی بھی بچہ کی تعلیمی کارکردگی کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

یعنی دو میجر ڈس ایبلٹی بیک وقت کسی بچہ میں پائی جاتی ہیں اس سے اس کی زندگی میں کافی اثر پڑتا ہے۔ "آرتھوپیڈک امیئرمنٹ" یعنی ایسے جسمانی نقائص جن کی وجہ سے بچہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتا ہے ان میں ایسے نقائص بھی شامل ہیں جو کسی بیماری کی وجہ سے پیدا ہو جائیں مثلاً پولیو کی وجہ سے اعضاء کا کسی وجہ سے کاٹ دیا جانا، فریکچر وغیرہ بھی شامل ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ خصوصی افراد کی کسی ایک چیز سے محروم ہوتا ہے تو اس کے دوسری صلاحیت بڑھ جاتی ہے مثلاً اگر کوئی شخص بصارت سے محروم ہے تو اس کی دوسری صلاحیت یقیناََ بڑھ جائے گی، یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں جو بصارت سے محروم ہیں لیکن ان کے سننے کی صلاحیت بہت تیز ہے۔ اس لحاظ سے خصوصی افرد جو کام کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا، پاکستان کے خصوصی افراد دنیا کے کسی بھی ملک کے خصوصی افراد سے کم نہیں ہیں۔

خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ویسے تو کئی ادارے کام کر رہے ہیں جو حکومت سندھ کے ماتحت بھی ہیں اور کچھ کو حکومت سپورٹ بھی کر رہی ہے ان میں سے ایک "کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر" بھی ہے جس نے کامیابیوں کی ایک داستان رقم کی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ سندھ کے ساتھ پاکستان کے تمام معذور افراد کے لئے سنگ میل ہے۔ یہ ادارہ ہمارے معاشرے کے خصوصی افراد کی تربیت اور ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ واحد ادارہ ہے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔

جو بھی کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر آئے گا وہ اس ادارے کو مکمل سپورٹ کریگا۔ یہاں کا اسٹاف عبادت سمجھ کر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے بچوں کے ساتھ ہر ٹیچر انفرادی توجہ دیتا ہے، دوسری طرف اسپیشل بچوں کو والدین کا بھی قبول نہ کرنا تکلیف دہ عمل ہے اس قسم کے والدین کے لیے فیملی کانسلنگ کا شعبہ بھی قائم کیا ہے۔ جہاں ان والدین کو اس بات پر راضی کیا جاتا ہے کہ یہ آزمائش کی ایک گھڑی ہے اس کو آپ نے مل کر نبھانا ہے۔

یہ ان کی تربیت کا اعلیٰ معیار ہی ہے کہ کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کے خصوصی بچوں نے جاپان اور دیگر عالمی اولمپکس میں بہترین کارکردگی اور میڈل جیتے۔ یہ واحد ادارہ ہے جہاں خصوصی افراد کو پائیدار اور مہذب زندگی گزارنے کے لئے تربیت دی جاتی ہے۔ پہلے بچوں کو بوجھ سمجھا جاتا تھا مگر اب "کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر" انہیں اس قابل بنا رہی ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکیں، یہ ایک بہت بڑا کام ہے جس کے لئے ادارہ اور اس کی ٹیم تعریف اور ہمارے تعاون کے حق دار ہیں۔

سندھ حکومت کا عزم ہے کہ وہ "کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر" جیسے ادارے کے ساتھ کھڑی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اقوام متحدہ کے پروگرام 2030ء کے ویژن کے تحت پورے سندھ میں کم از کم 5000 معذور یا خصوصی افراد کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ معاشرہ کے کارآمد افراد میں شامل ہوں۔ ہمارا معاشرہ ایسے ہی اداروں پر انحصار کرتا ہے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ دے تاکہ معاشرہ ایسے لوگوں کو چیلنجوں کے ساتھ قبول کرے اور ان کو زندگی میں کمانے کے مساوی مواقع فراہم کرے۔

ویسے بھی سندھ حکومت جناح اسپتال سمیت دیگر اداروں کو ہمیشہ سپورٹ کرتی رہی ہے۔ جناح اسپتال میں سائبر نائیف جیسی سہولتیں ہوں یا ایس آئی یو ٹی ہو یا انڈس اسپتال ہو سب کو سندھ حکومت اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے مکمل سپورٹ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں آٹیزم جیسا ادارہ بھی بنایا۔ جہاں ادارہ کی خاص نگرانی میں آٹیزم بچوں کو تمام خدمات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

دوسری طرف معذور افراد کی معاشی مشکلات حل کرنے کے لئے سندھ حکومت نے پہلے ہی "ڈفرنٹلی ایبل پرسن" (Differently abled) (معذور) افراد کی نوکریوں کا 5 فیصد کوٹہ مقرر کیا ہے۔ جس پر حکومتِ سندھ سختی سے عمل درآمد کر رہی ہے۔ دیکھا جائے تو کسی بھی پراڈکٹ کو روشناس کروانے کے لئے نمائش کا سہارا لینا پڑتا ہے ایسے ہی ایک نمائش کا بنیادی مقصد "ڈفرینٹلی ایبلڈ" بچوں کی صلاحیتوں اور ہنر مندی سے معاشرے کو روشناس کرانا ہے۔ ایسی ہی ایک نمائش منعقد کی گئی۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ڈیفنس فیز فور میں کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر (کے وی ٹی سی) میں معذوروں کے ہاتھوں سے بنی اشیاء کے اسٹور "جدت آؤٹ لیٹ" کے افتتاح پر کیا۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ پاکستان کے معذور بچے کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایسے اداروں پر انحصار کرتا ہے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔

لہٰذا ہمارا معاشرہ معذوروں کو چیلنجوں کے ساتھ قبول کرے اور ان کو زندگی میں کمانے کے مساوی مواقع فراہم کرے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ عہد بھی کیا کہ وہ ہر سطح پر"کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر" کی حمایت کریں گے اور خصوصی افراد کی آواز بنیں گے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے آؤٹ لیٹ کی مختلف ورکشاپس کا دورہ کیا جہاں مختلف معذور افراد کپڑے ڈیزائن کر رہے تھے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سرکاری عمارات اور پبلک مقامات پر معذور افراد کے لئے خصوصی ریمپس نہیں بنائے گئے کچھ عمارتوں اور بنکوں میں یہ سہولت میسر ہے لیکن اکثر جگہوں پر ریمپس نہیں بنے۔ اس لحاظ سے حکومت سندھ تمام اداروں کو پابند بنائے کہ وہ جب بھی نئی تعمیرات کروائیں تو ان خصوصی افراد کے لئے ریمپ کا اہتمام ضرور کریں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو معذور ہونے سے بچائے۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal