Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Mada Parasti Aur Khud Gharzi Ka Barhta Hua Rujhan

Mada Parasti Aur Khud Gharzi Ka Barhta Hua Rujhan

مادیت پرستی اور خود غرضی کا بڑھتا ہوا رجحان

دنیا میں ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی رویے بھی مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔ جہاں جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات نے زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں انسان کی فطری محبت، خلوص اور ایثار پسندی کو بھی آہستہ آہستہ ماند کر دیا ہے۔ آج کا انسان زیادہ مادی چیزوں کا دیوانہ ہے اور اپنی ذاتی خواہشات کو دوسروں پر فوقیت دیتا ہے۔ یہی رجحان ہمیں معاشرے میں بےحسی، رشتوں میں کمزوری اور عدم برداشت کی صورت میں نظر آتا ہے۔

مادیت پرستی دراصل ایک ایسا جال ہے جس میں انسان جتنا پھنستا جاتا ہے، اتنا ہی اس کی روحانی تسکین کم ہوتی جاتی ہے۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کو ہی کامیابی سمجھنے والا انسان، درحقیقت ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں مصروف ہو جاتا ہے، جہاں منزل کبھی نہیں آتی۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ کمانا اور دنیاوی عیش حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ سب حاصل کرکے بھی اندر سے خالی اور بے چین محسوس کرتا ہے۔ یہی بے چینی اسے مزید دوڑنے پر مجبور کرتی ہے اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

یہی مادہ پرستی خود غرضی کو بھی جنم دیتی ہے۔ لوگ دوسروں کی مدد کرنے، مل بیٹھنے اور وقت بانٹنے کے بجائے اپنی ذات کے گرد ایک دیوار کھڑی کر لیتے ہیں۔ معاشرتی رشتے کمزور ہو رہے ہیں، والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے، دوست صرف ضرورت کے وقت یاد کیے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انسانی ہمدردی دم توڑ رہی ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ دوسروں کے لیے جیتے تھے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، لیکن آج ہر شخص صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے۔

یہ خود غرضی ہمیں ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ دفاتر میں ملازمین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہیں، تاکہ ترقی کا موقع کسی اور کے بجائے انہیں ملے۔ کاروبار میں لوگ دھوکہ دہی، ملاوٹ اور جھوٹ کو کامیابی کی کنجی سمجھنے لگے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں استاد کا مقصد علم پھیلانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا رہ گیا ہے اور شاگرد کا مقصد ڈگری لینا، چاہے وہ حقیقتاً کچھ سیکھے یا نہیں۔

سوشل میڈیا نے اس رجحان کو مزید بڑھا دیا ہے۔ لوگ حقیقت میں خوش ہونے کے بجائے خوش نظر آنا چاہتے ہیں۔ دکھاوا اور مصنوعی طرز زندگی نے نوجوان نسل کو ایک ایسی دوڑ میں ڈال دیا ہے جہاں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے، چاہے اس کے لیے اسے اپنے اصولوں، روایات اور اخلاقیات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی بہترین تصویریں اور کامیابیاں شیئر کرتے ہیں، جس سے دوسروں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر شخص اپنی اصل زندگی کو چھوڑ کر ایک مصنوعی زندگی گزارنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔

گھر میں بیٹھے افراد بھی مادیت پرستی کے اس اثر سے محفوظ نہیں رہے۔ پہلے کے زمانے میں گھروں میں سکون اور اپنائیت ہوتی تھی، لیکن آج ہر شخص اپنی اسکرین میں گم ہے۔ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں، بچے اپنے مسائل والدین سے شیئر نہیں کرتے، بہن بھائیوں کے درمیان محبت کی جگہ مقابلے نے لے لی ہے اور خاندان کے بزرگ بےیارو مددگار رہ گئے ہیں۔

یہ رجحان مذہب اور روحانیت سے دوری کا بھی سبب بن رہا ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ اس کی زندگی کا مقصد صرف پیسہ کمانا اور دنیاوی کامیابی حاصل کرنا ہے، تو وہ آخرت اور اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے آج ہمیں ہر جگہ بے ایمانی، دھوکہ دہی، رشوت اور ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانے کا رجحان نظر آتا ہے۔ عبادات کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے، زکوٰۃ اور خیرات محض دکھاوے کے لیے دی جاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خوفِ خدا کم ہوتا جا رہا ہے۔

اس دوڑ میں سب سے زیادہ نقصان ہماری نئی نسل کو ہو رہا ہے۔ بچے اور نوجوان ایک ایسی فضا میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں انہیں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ کامیابی کا معیار پیسہ ہے اور جو زیادہ کماتا ہے وہی کامیاب ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی یہی سوچ غالب آ چکی ہے۔ طالبعلم علم حاصل کرنے کے بجائے اس ڈگری کے پیچھے بھاگ رہا ہے جو اسے زیادہ تنخواہ دلوا سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں حقیقی علم اور شعور ناپید ہو چکا ہے اور صرف مادی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا ہے۔

یہ رویہ انسان کو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ جب ایک شخص ہر وقت زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش میں مبتلا ہو، تو وہ کبھی مطمئن نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر وقت دوسروں سے اپنا موازنہ کرتا ہے اور اگر کوئی اس سے زیادہ کامیاب نظر آئے تو اس کی خوشیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں ذہنی دباؤ، بے چینی اور نفسیاتی مسائل عام ہو چکے ہیں۔

ہمیں اس دوڑ کو روکنے اور حقیقی خوشی کی طرف واپس آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندگی صرف پیسے اور شہرت کے لیے نہیں، بلکہ ایک اچھا انسان بننے کے لیے بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں سادگی کو اپنائیں، دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں اور اپنی اخلاقی و دینی اقدار کو دوبارہ زندہ کریں۔

ہمارے معاشرے میں خیرات اور خدمت خلق کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ عادت اب صرف چند افراد تک محدود رہ گئی ہے۔ اگر ہم سب مل کر دوسروں کے لیے کچھ کرنے کی نیت کر لیں تو یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسے کسی ضرورت مند کی مدد کرنا، کسی بیمار کی تیمارداری کرنا، کسی بچے کی تعلیم میں مدد دینا، یا کسی بزرگ کی عزت کرنا، ہماری زندگیوں میں حقیقی خوشی اور سکون لا سکتے ہیں۔

خاندانی رشتوں کو دوبارہ مضبوط کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صرف مادی چیزوں کی اہمیت نہ سکھائیں، بلکہ انہیں محبت، ایثار، قربانی اور دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا درس دیں۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ زندگی صرف دولت کمانے کا نام نہیں، بلکہ دوسروں کے ساتھ خوشی بانٹنے کا نام بھی ہے، تو ہمارا معاشرہ ایک بہتر سمت میں جا سکتا ہے۔

روحانی سکون کے لیے مذہب کی طرف رجوع کرنا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ جب انسان اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر چیز کا مالک وہی ہے، تو اس کی بےچینی کم ہو جاتی ہے۔ عبادات کو زندگی کا لازمی حصہ بنانا، دوسروں کی مدد کرنا اور اپنے دل کو حسد، لالچ اور خود غرضی سے پاک رکھنا، وہ عوامل ہیں جو ایک پرامن اور خوشحال زندگی کی ضمانت دیتے ہیں۔

ہمیں سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور حقیقی زندگی میں خوشیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ دکھاوے کی زندگی سے نکل کر اصل رشتوں کو اہمیت دینا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کو سادگی، محبت اور خدمت خلق کے اصولوں پر گزاریں، تو یقیناً ہم ایک زیادہ خوشحال اور مطمئن زندگی گزار سکیں گے۔

یہ وقت خود احتسابی کا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی مادہ پرستی اور خود غرضی کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ اگر ہاں، تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اگر ہم آج اپنی ترجیحات کو درست کر لیں، تو آنے والی نسلیں ایک زیادہ پُرامن اور خوشحال معاشرے میں جی سکیں گی۔ یاد رکھیں، خوشی کا تعلق دولت سے نہیں بلکہ سکونِ قلب سے ہے اور سکون صرف تب ملتا ہے جب ہم دوسروں کی زندگی آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

Ittefaq Itna Khoobsurat Nahi Hua Karte

By Tehsin Ullah Khan