Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Ana Ka Rishta Ya Taleem Ki Toheen?

Ana Ka Rishta Ya Taleem Ki Toheen?

انا کا رشتہ یا تعلیم کی توہین؟

ہر ماں باپ کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا یہ ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھا لکھا ہو، تعلیم یافتہ بنے، عزت و وقار کے ساتھ جئے اور اس کا مستقبل روشن ہو۔ وہ اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں، زندگی کی آسائشیں قربان کرتے ہیں، صرف اس خواب کی تعبیر کے لیے کہ ان کی بیٹی یا بیٹا معاشرے میں ایک مقام حاصل کرے، اپنی شناخت خود بنائے اور اپنے دم پر عزت کی زندگی گزارے۔ تعلیم کو ہم ہمیشہ ترقی، شعور اور کردار کی پہچان سمجھتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب یہی تعلیم یافتہ بچے زندگی کے سب سے اہم موڑ "رشتہ" پر پہنچتے ہیں، تو ہم ماں باپ اپنی ہی بنائی ہوئی اقدار کو توڑ کر انا، ذات، برادری اور جھوٹی سماجی حیثیت کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ جب کوئی بیٹی یا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتا ہے، تو اُن کے لیے ہم وہ ہمسفر تلاش کرتے ہیں جو نہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے، نہ ہم مزاج، مگر چونکہ اُس کا تعلق ہماری برادری، ذات یا "خاندانی سٹیٹس" سے ہوتا ہے، اس لیے ہم اس پر خوش ہو جاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ تعلیم صرف ڈگری نہیں، بلکہ سوچ، رویہ اور زندگی کا انداز بدلنے والی چیز ہے۔ جب تعلیم یافتہ انسان کو ایک غیر تعلیم یافتہ اور ناسمجھ شریکِ حیات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، تو صرف دو افراد نہیں، بلکہ دو متضاد دنیائیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور اس ٹکراؤ کا نتیجہ اکثر جذباتی اذیت، ذہنی دباؤ اور زندگی بھر کے پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ تعلیم ترقی کی کنجی ہے، پھر ہم کیوں تعلیم کو رشتوں کے معاملے میں غیر ضروری سمجھ لیتے ہیں؟ ہم اپنی بیٹیوں کو ڈاکٹری، انجینئرنگ، ایم فل، پی ایچ ڈی تک پڑھاتے ہیں، مگر جب رشتے کی بات آتی ہے تو یہ کہہ کر سمجھا دیا جاتا ہے:

"بس لڑکے کا کاروبار ہے، خاندان اچھا ہے، ہمیں برادری میں ہی رکھنا ہے"۔

یہ جملہ گویا اُس بیٹی کی پوری محنت، قربانی اور خوابوں پر ایک طمانچہ بن جاتا ہے۔

اسلام نے ذات پات، برادری، حسب نسب اور جھوٹی برتری کو قطعی رد کیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے"۔

مگر ہم؟ ہم آج بھی رشتوں کے معاملے میں دل اور عمل کو نہیں دیکھتے، صرف ذات اور خاندانی نمود کو دیکھتے ہیں۔ ہم آج بھی اُس برادری کو "کم تر" سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر جیسی زبان نہیں بولتی، جن کے ہاں علم کم ہے یا جن کی مالی حیثیت کم ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوتا ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ لڑکی یا لڑکا اُس رشتے میں خوش نہیں رہ پائے گا۔

ماں باپ کی انا، عزت یا برادری کا بھرم رکھنے کی قیمت اکثر اولاد کو چکانی پڑتی ہے۔ تعلیم یافتہ بیٹیاں ایسے شوہروں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں جو اُن کے جذبات، خواب، یا رائے کو اہمیت نہیں دیتے۔ انہیں صرف "بیوی" سمجھا جاتا ہے، انسان نہیں۔ وہ بیٹیاں جو یونیورسٹیوں میں قائدانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاتی ہیں، وہ گھروں میں اپنی بات کہتے ہوئے ڈرتی ہیں اور اگر وہ بولیں تو اُن پر "اکڑ گئی ہے" یا "تعلیم نے بگاڑ دیا ہے" جیسے طعنے لگتے ہیں۔

اسی طرح تعلیم یافتہ لڑکے بھی ماں باپ کی خواہش کے تحت ایسے گھروں میں شادی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں بات کرنے کا انداز، رہن سہن، خواب اور مقاصد سب کچھ مختلف ہوتا ہے۔ ایک حساس، مہذب، علمی شعور رکھنے والا نوجوان، ایسے تعلق میں قید ہو جاتا ہے جو اُس کی روح کو گھٹاتا ہے۔ وہ ہنستا تو ہے، مگر اندر سے ٹوٹا ہوتا ہے۔

ہم نے تعلیم کو محض ڈگری کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ اگر واقعی تعلیم کو اہمیت دی جاتی تو رشتوں کے فیصلے تعلیم، کردار، فہم اور ہم آہنگی کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے، نہ کہ ذات برادری یا دنیا کے طعنوں کی بنیاد پر۔ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے:

"بے شک سب سے معزز تم میں اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے"۔

مگر ہم تقویٰ کو چھوڑ کر برادری کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور پھر جب شادی ناکام ہوتی ہے، یا شوہر بیوی کو عزت نہیں دیتا، یا بیوی سسرال میں ایڈجسٹ نہیں کر پاتی، تو ہم افسوس کرتے ہیں، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم اولاد سے اُن کی پسند پوچھنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ہم یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ تعلیم یافتہ اولاد اپنی زندگی کے اہم فیصلے بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رشتہ دینا ہمارا اختیار ہے، اولاد کا نہیں۔ حالانکہ اسلام میں بھی مشورہ، رضا مندی اور خوشی کو نکاح کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ہم دین کی روح کو نظرانداز کرکے محض معاشرتی روایات اور انا کو اہمیت دیتے ہیں۔

اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

نہ صرف دو افراد کی زندگی برباد ہوتی ہے، بلکہ اگلی نسلیں بھی اس اذیت کا شکار بنتی ہیں۔ ایک ناخوشگوار تعلق سے پروان چڑھنے والے بچے محبت، عزت اور ہم آہنگی سے محروم رہتے ہیں۔ وہ یا تو والدین کے جھگڑوں کا شکار بنتے ہیں یا نفسیاتی دباؤ کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک انا پرستی اور برادری پرستی کے فیصلے کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس ذہنی غلامی سے آزاد ہوں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم اپنی بیٹی کو تعلیم دلا سکتے ہیں، اُس کے خوابوں کو پر لگا سکتے ہیں، تو پھر اُسے اُس کا ہم مزاج، ہم خیال اور ہم سفر چننے کا بھی حق دینا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اصل خاندان وہ ہوتا ہے جو دلوں کو جوڑ سکے، ذہنوں کو قبول کر سکے اور محبت دے سکے، نہ کہ وہ جو صرف نام اور برادری میں بڑا ہو۔

اسلام نے ہمیں مساوات، عدل اور فہم و فراست کا درس دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیم کو محض CV کا حصہ نہ بنائیں، بلکہ رشتوں کے فیصلوں میں بھی اسے مرکزی حیثیت دیں۔ ہمیں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کی خوشیوں، خوابوں اور عزتِ نفس کو برادری کے نام پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔

آخر میں، ایک سوال ہم سب سے: اگر تعلیم ہمیں وہ شعور، وہ نظر، وہ فہم نہیں دیتی کہ ہم حق و باطل میں فرق کر سکیں، تو پھر ایسی تعلیم کا فائدہ کیا؟ اور اگر ہم اپنی اولاد کی تعلیم کو ہی رد کر دیں، تو پھر ہم خود اپنے خوابوں کے قاتل نہیں؟

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

Field Marshal Ko Americi Sadar Se Mulaqat Nahi Karni Chahiye Thi?

By Najam Wali Khan