Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abdullah Shohaz/
  4. Reet Samadhi

Reet Samadhi

ریت سمادھی

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھتے وقت قاری خود کتاب میں ایک کردار بن جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر کتاب کوئی خوبصورت ناول ہو۔ جیسے ہی کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے قاری کے جذبات پر کہانی کے ڈور کی گرفت مزید مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ مگر یہ خاصیت میں نے بہت کم کتابوں میں پائی ہے۔ جن میں ایک کتاب گیتانجلی شری کی تصنیف "ریت سمادھی" ہے۔

فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس ناول کے بارے میں کافی مدّت سے بہت چرچا تھا۔ پھر محترمہ طاہرہ کاظمی نے جب ذکر چھیڑا اور ہمیں پتہ چلا کہ اس کتاب کا ترجمہ انورسِن رائے نے کیا ہے تو اس کتاب کو اب کہیں سے بھی ڈھونڈ کے پڑھنا تھا۔

کتاب مل گئی تو پڑھنا شروع کیا۔ ابتداء میں تو ایسا لگا کہ پاگل ہوں گے وہ جو ایسی کتاب کو بکر انٹرنیشنل پرائز سے نوازتے ہیں۔ مگر پھر وہی بات کہ جیسے میں آگے بڑھتا گیا میں خود اسی ناول کا ایک کردار بن گیا۔

یہ ناول ہر طرح سے دوسری ناولوں سے مختلف ہے جو میری نظر سےگزرے ہیں۔ جب میں روسی ادب کو پڑھ رہا تھا تو مجھے لگا کہ ناول بس انہی لوگوں کو لکھنا چاہیے، پھر اسی طرح کبھی فرانسیسی ناول میرے پسندیدہ ہوگئے تو کبھی فارسی ناولوں کی سحر میں مبتلا رہا۔ کچھ عرصہ اردو ناول نگاروں کے ساتھ بھی گزرا۔ مگر "ریت سمادھی" کو پڑھنے کے بعد میری یہی رائے ہے کہ گیتانجلی اب بس ناول ہی لکھتے رہیں۔

اس ناول کی خوبصورتی اس کا پلاٹ ہے۔ مختلف قصّے کہانیوں کو بکھرے موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر ایک خوبصورت کہانی تخلیق کی گئی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک بوڑھی ماں ہے جو بستر پر پڑی رہتی ہے۔ اس کے بچّوں میں ہر ایک کی پھر اپنی کہانی ہے۔ بڑا بیٹا ہمیشہ اسی کوشش میں ہے کہ ماں کی پنشن کا پیسہ ریئل سٹیٹ میں لگائے تاکہ مستقبل میں وہ اسکے اپنے بچّوں کے کام آئیں۔

بیٹی تو دنیا سے باغی ہے اور اس نے اپنی ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے۔ ماں اپنے ہی گھر میں ہوتی اور پھر اچانک سے غائب ہو جاتی ہے۔ تب پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی پولیس سٹیشن میں ہے، پھر بیٹی کے پاس رہنے لگتی ہے۔ یہیں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔

اب ماں بیٹی اور روزی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جو ایک خواجہ سرا ہیں۔ روزی کی صحبت میں وہ پھر سے جوانی کی طرف لوٹنے لگتی ہے۔ پھر سے چھوٹی بچّیوں جیسے نخرے دکھاتی ہے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا اور پہناوا سب جوان لڑکیوں جیسا ہونے لگتا ہے۔ بیٹی اس اچانک سی تبدیلی سے خوفزدہ ہوتی ہے مگر وہ کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ اسے اپنی ماں کو خوش رکھنا ہے اور اُسے زندہ رکنھا ہے۔

اچانک سے پھر کہانی بارڈر کراس کرتی ہے۔ اب کہانی ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوجاتی ہے۔ ماں اپنی بیٹی اور بدھا کی ایک مورتی کے ساتھ کبھی تھر کے ریگستانوں میں، کبھی لاہور کی انارکلی بازار میں تو کبھی کراچی کی تنگ گلیوں میں گھوم رہی ہوتی ہے۔ جب بیٹی کو ہوش آتی ہے تو وہ خود کو ماں کے ساتھ خیبر کے بلند و بالا پہاڑوں میں پاتی ہے۔

ماں ایک خیالی انسان کے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہے۔ اسے اپنی محبت کی تلاش ہے، جس مٹی کو اپنی یادوں کے ساتھ چھوڑ کر جب بٹوارے کے دوران وہ ہندوستان جا چکی تھی، انہی یادوں کے قبرستان میں ایک زندہ شخص دفن تھا جو کبھی اس کا شوہر رہ چکا تھا۔ وہ ہندو اور اسکا شوہر مسلمان! یہ بات تو کسی کی سمجھ میں نہ آئی، مگر ہوا یہی تھا۔ جب بارڈر نہیں تھے، جب دلوں کا بٹوارا نہیں ہوا تھا، جب مٹّی، پانی اور ہوا کی بندر بانٹ نہیں ہوئی تھی۔

کہانی کے کلائیمکس میں ایک عجیب تجسس ہے۔ بوڑھی عورت جس سرزمین کو اپنے شوہر سمیت جوانی میں چھوڑ کر چلی گئی تھی، اسی سرزمین اور فالج زدہ محبوب کا جب وصال ہوتا ہے تو اسے وہیں خیبر کی فلک بوس پہاڑوں میں گولی لگتی ہے اور اپنی محبوب کے دیار میں اسکی زندگی کا چراغ گل ہوتا ہے۔

کہانی میں بنیادی موضوع گھریلو ماحول ہے۔ اس کے ساتھ سرحدوں کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے باسیوں کو جو نقصان ہوا، یہ پرسوز کہانی بھی اسی کا حصّہ ہے۔ ایک کردار روزی کا ہے جو نہ مرد ہے نہ عورت۔ ایسے لوگوں کے ساتھ یہاں کیا سلوک ہوتا ہے اس کردار کو بھی خاص طور پر واضح جگہ دی گئی ہے۔ یہاں کے لوگ جو مغربی ممالک میں بستے ہیں تو ان کی طرزِ زندگی اور ان کے خیالات کو بھی کہانی میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس ناول میں جو چیز سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز رہا وہ مصنّف کا اندازِ بیان ہے۔ صرف یہ جملے دیکھ لیں:

"واقعہ ختم نہیں ہوا، واقعات ختم نہیں ہوتے، چلتے رہتے ہیں۔ وہ کسی ریت سمادھی میں دفن ہوجاتے ہیں، اور پھر ہوا کا کوئی قافلہ آتا ہے اور وہ پھر سے زندہ ہوجاتے ہیں"۔

یہی اس ناول کا موضوع ہے جس کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔

یہ اپنے عہد کا ایک بہترین ناول ہے اور گیتانجلی شری اس دور کے ایک بہترین ناول نگار ہیں۔

Check Also

Kya Ye Khula Tazad Nahi?

By Javed Chaudhry