Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Shohaz
  4. Gurk e Shab

Gurk e Shab

گرکِ شب ایک منفرد ناول

عصرِ حاضر میں ہمارے نوجوانوں میں یہ رجحان رواج پا چکا ہے کہ مقامی زبانوں اور اردو میں جو کچھ بھی لکھا جا رہا ہے اسے معیاری ادب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے اکثر انگریزی کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں یا دوسری زبانوں کے انگریزی تراجم پہ گزارہ کرتے ہیں۔ مقامی زبانوں میں لکھنے اور پڑھنے کا رجحان ویسے بھی دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے لیکن اب تو اردو پڑھنے والے بھی وہی رہ گئے ہیں جنہیں انگریزی نہیں آتی۔ مگر کبھی کبھی اردو میں ایسے ادبی شہ پارے نظر آتے ہیں جو عالمی ادب کے مقابلے میں کسی طور پر کم نہیں ہیں، اگر تعصب کی عینک اتار کہ پڑھا جائے۔

ایسی ایک ناول "گرکِ شب" ہے۔ اس ناول کے مصنّف اکرام اللہ ہے۔ اردو کے ایک قاری کی حیثیت سے پہلی بار میں نے اکرام اللہ کا نام بطورِ مصنّف دیکھا ہے۔ مگر جب اس ناول کو پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست میں ختم کرکے رکھ دی۔ ایک خوبصورت ناول کی سب سے بڑی خاصیت یہی ہے کہ وہ قاری کو اپنے ساتھ لے جائے۔ پڑھتے وقت قاری ایسا محسوس کرے کہ وہ خود کسی نہ کسی طرح اس کہانی کا حصّہ ہے۔ "گرکِ شب" میں یہ بنیادی خاصیت موجود ہے۔

پھر موضوع کے اعتبار سے بھی یہ ایک منفرد ناول ہے۔ ناول کا موضوع ایک "حرامی" ہے جو بظاہر تو ایک کامیاب بزنس مین ہے مگر اسی ایک ٹائٹل کی وجہ سے اس کے لئے زندگی کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ جب پہلی بار اُسے اسکی محبوبہ، حمیدہ کہتی ہے کہ میری امّی نے کہا ہے کہ شفیع اپنے بھائی غلام احمد کا بیٹا ہے۔ بس اسی بات کو سنتے ہی اسکی حالت دگرگوں ہوتی ہے اور پھر کبھی وہ کسی عورت کے ساتھ جنسی ملاپ کے قابل نہیں رہتا۔ بعد میں جب ایک بزنس میں دوست کی بیوی اسے پسند آتی ہے اور وہ اسے بستر تک لے جاتا ہے مگر کچھ کر نہیں پاتا، کیونکہ اس کے ذہن میں ابھی تک وہی بات گھوم رہی ہوتی ہے کہ تم حرامی ہو۔

شفیع اپنا گھر بار، اپنا نام، دوست و احباب سب چھوڑ چھاڑ کر کسی شہر میں جاکر اپنا کاروبار شروع کرتا ہے۔ اب شفیع سے ظفر بن جاتا ہے اور ایک مشہور بزنس مین کی حیثیت سے خود کو منواتا ہے۔ اب اس کا اٹھنا بیٹھنا بزنس فیملیز کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر جب بھی کبھی تہنا ہوتا ہے تو پھر سے خیالات کی ایک بُت حمیدہ کی صورت میں اس کے ذہن کے کونوں کھدروں سے نکل کر باہر آتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ تم اپنے بھائی غلام احمد کے بیٹے ہو!

اسی ڈر سے وہ کوشش کرتا ہے کہ کبھی تنہا نہ رہے۔ رات ہمیشہ کلب میں گزارتا ہے اور خود فراموشی کے لئے شراب کا سہارا لیتا ہے۔ مگر کثرتِ مے نوشی سے اسے طرح طرح کے بُرے سپنے آنے لگتے ہیں۔ اب نہ اسے جاگنے سے نیند آتی ہے نہ سونے سے۔ اس لئے آدھا سا پاگل ہوتا ہے۔ اس پوری پاگل پن کے پیچھے صرف ایک وجہ ہے کہ وہ حرامی ہے۔

یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ وہ اُس شخص کو کبھی قبول نہیں کرتا جس کا باپ مشکوک ہو۔ حالانکہ ہر انسان کو ایک وجود کی حیثیت سے تسلیم کرنا چاہیے، مگر ہمارے ہاں تسلیم کرنے کی یہی شرط ہے کہ آپ واضح ثبوت دیں کہ آپ اپنے ہی باپ کا خون ہیں۔ جبکہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن کی صرف ماں ہے اور باپ کا پتہ بھی نہیں ہے۔

معاشرہ جب ظفر کو قبول نہیں کرتا تو وہ خود سے بیزار ہوتا ہے۔ معاشرے سے کٹ کر خدا سے گلہ کرتا ہے۔

"ہمارا خدا کہاں ہے؟ وہ تو گم ہے۔ کہیں چلا گیا ہے۔ جیسے کوئی گڈریا اپنی بھیڑوں کے گلے کو جب وہ نہایت انہماک سے چرنے میں مصروف ہوں، چھوڑ کر چپکے سے کہیں کھسک جائے"۔

ایک اور جگہ اپنی بے بسی کو اس طرح بیان کرتے ہیں: "ہم بھی تو تاش کے پتّے ہیں۔ شاید آسمانوں پر چار خدا بیٹھے برج کھیل رہے ہیں۔ ہم ان کے پتّے ہیں۔ ان کے ذوقِ ہنگامہ جوئی کے لئے تاش کے پتّے مار رہے ہیں، مر رہے ہیں"۔

مطلب کچھ بھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اگر ہم بغاوت کرنا چاہیں تو معاشرہ ہمیں باغی اور سرکش کہہ کر ہمارا سر قلم کرے گی۔

یہی حال ہمارے پورے معاشرے کا ہے۔ یہاں ہرشخص شفیع ہے اور ظفر بن کر گھومتا ہے، کیونکہ یہ معاشرہ شفیع کو قبول ہی نہیں کرتا جب تک وہ شفیع ہے!

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal