Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Insaf Ki Talabgar Bewa

Insaf Ki Talabgar Bewa

انصاف کی طلب گار بیوہ

اکھیاں والو، اکھیاں بڑی نعمت ہیں۔

نابینا فقیروں کی یہ صدا ہم میں سے کون ہے جس نے نہیں سنی۔ وقت گزرا تو یہ خبریں آنے لگیں کی سری لنکا سے ان لوگوں کی آنکھوں کے قرنیے تحفے میں آ رہے ہیں جو جان سے گزرے۔ ان قرنیوں کی پیوند کاری ہمارے ان لوگوں کی آنکھوں میں ہوگی جو نابینا ہیں۔ وہ کم نصیب جن کی ساری زندگی ایک نہ ختم ہونے والی رات تھی، سری لنکا سے آنے والے ان قرنیوں نے ہمارے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں روشن کیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1967 سے ایسے لگ بھگ 35 ہزار پاکستانی ہیں جن کی زندگیوں میں سری لنکا سے آنے والے چراغوں نے اجالا کیا۔

1976 سے اب تک میں بار ہا سری لنکا گئی ہوں۔ ان دنوں جب یہ ایک پُر امن ملک تھا، اس وقت اس کی سیر کی اور جب وہاں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی، اس وقت بھی میں کولمبو اور دوسرے شہروں اور قصبوں میں گھومی پھری۔ ایسے میں ہمیشہ مجھے ان پاکستانیوں کا خیال آیا جو سری لنکا کے ان شہریوں کے قرنیے کے صدقے دیکھ سکتے ہیں اور ایک بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن چند دنوں پہلے جب سیالکوٹ سے ایک گارمنٹ فیکٹری کے منیجر جناب پریانتھا کمارا پر کارخانے کے ملازموں کا حملہ، ان کی ڈنڈوں اور اینٹوں سے ہلاکت اور پھر جب وہ اپنی جان سے گزر چکے تھے تو ان کی لاش پر تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی اور اس پر فاتحانہ نعرے لگائے گئے۔ نعرہ لگانے والوں کا کہنا تھا کہ منیجر نے گستاخی دین کی تھی۔ پریانتھا کمارا کی سوختہ تن لاش سری لنکا کے سفیر برائے پاکستان کے حوالے کر دی گئی۔ آج کے اخبارات میں ان کی بیوہ کی تصویریں شایع ہوئی ہیں جس میں وہ ان کی ڈگری اور ان کی تصویر اٹھائے کھڑی ہیں اور ریاست پاکستان سے انصاف کی طلب گار ہیں۔

ہم ان سے اور سری لنکا کے لوگوں سے کس قدر بھی شرمندہ کیوں نہ ہوں لیکن ان کے شوہر کی زندگی واپس نہیں لائی جاسکتی۔ ان کے نقصان کا کسی طور پر ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک موقر انگریزی اخبار میں حسنات ملک صاحب نے 1990 سے اب تک توہین رسالت کے نام پر تشدد سے ہلاک کیے جانے والے 62 افراد کا حساب لکھا ہے جو کسی ثبوت اور شواہد کے بغیر مشتعل ہجوم کی سفاکی کا نوالہ بنے۔ اس بارے میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ یہ افراد کی نہیں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ سیکشن295-C کے تحت متعلقہ مقدمے کی تحقیق و تفتیش کرے اور انصاف پر مبنی مقدمہ چلائے اور اس کا فیصلہ سنائے۔

اسی طرح مشعال خان کا قتل بھی ہماری پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ مبینہ طور پر اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض بدعنوان لوگوں کی طرف انگلی اٹھائی تھی، اس کے بعد اس پر شاتم رسول کا الزام لگا کر اسے ٹھڈوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ دین کے نام پر کیا گیا۔ ایوب مسیح کا مقدمہ بھی توہین کے الزام پر چلا، اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن اس کا مقدمہ پھر سپریم کورٹ میں چلا جہاں معلوم ہوا کہ اصل جھگڑا سات مرلے کے پلاٹ پر تھا۔

پاکستان میں دین کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ مذہبی لوگوں کو بھی غم زدہ کر رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دین کی اس سے بڑھ کر توہین کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ اس اندوہناک واقعے کے بارے میں ہمارے اخبار روزنامہ "ایکسپریس" نے اپنے ایڈیٹوریل میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ صبح گیارہ بج کر 26 منٹ پر پولیس کو رپورٹ ہوا۔ اس وقت فیکٹری کے ورکر سڑک پر آ چکے تھے جس کے باعث پولیس کو پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں کچھ ورکرز کو ڈسپلن توڑنے پر فارغ بھی کیا گیا تھا، منیجر ورکرز کو ڈسپلن کے مطابق کام کرنے کا حکم دیتے تھے، ان احکامات کی وجہ سے ورکرز غصے میں تھے۔

پولیس تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی مزید تفصیلات کے مطابق وقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن فیکٹری منیجر نے دیوار پر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا۔ فیکٹری منیجر زبان سے نا آشنا تھے جس وجہ سے انھیں کچھ مشکلات تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کے ساتھ تنازع حل کرا دیا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کر کے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کر دیا۔

فیکٹری کے اندر رونما ہونے والے واقعہ سے پتا نہیں چلتا کہ فیکٹری کے اندر انتظامیہ کے پاس اس قسم کی ہنگامی اور پرتشدد صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب تعداد میں تربیت یافتہ سیکیورٹی فورس موجود نہیں، جب صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ برہم مزدور منیجر کو جان سے مارنے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔

اس وقت ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو مقتول منیجر کی جان بچائی جا سکتی تھی، پولیس فورس بھی معاملے کی سنگینی کو سمجھتی اور راستہ بند کرنے والے ہجوم کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینک کر منتشر کرکے بروقت ان ملزمان تک پہنچ سکتی تھی جو منیجر پر تشدد کر رہے تھے، لگتا ہے کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی ان میں مشتعل اور برہم ہجوم کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ پاکستان میں رونما ہونے والے سانحات کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولیس فورس کا کردار ہمیشہ کمزور رہا ہے، بہرحال سری لنکن منیجر کی الم ناک موت کے وقت لاقانونیت اور ہنگامہ آرائی کو کنٹرول کرنے کا فیکٹری انتظامیہ کے پاس کوئی نظام موجود تھا اور نہ پولیس افسران اور اہلکار ہی اس ذہانت اور صلاحیت کے مالک تھے کہ ریسکیو کرتے۔ محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔

اس موقع پر انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس راؤ سردار علی خان نے کہا کہ پنجاب پولیس نے 24 گھنٹوں سے کم وقت میں 200 چھاپے مارے ہیں، 13مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں 160 سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل کردہ 12گھنٹے سے زائد کی فوٹیجز اور موقع پر موجود افراد کے موبائل ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پولیس کے پہنچنے تک سری لنکن شہری کی ہلاکت ہو چکی تھی۔

سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کے بہیمانہ تشدد سے سری لنکن منیجر کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے پروڈکشن منیجر کی وڈیو بھی سامنے آگئی ہے جس میں اسے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر ملکی کو بچانے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کو حاصل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب فیکٹری ملازمین نے غیر ملکی منیجر پر حملہ کیا تو پروڈکشن منیجر اسے ساتھ لے کر چھت پر چڑھ گیا اور دروازہ بند کر دیا۔ تاہم 20 سے 25 مشتعل افراد دروازہ توڑ کر حملہ آور ہوگئے۔

پروڈکشن منیجر ان سے درخواست کرتا رہا کہ غیر ملکی نے کچھ کیا ہے تو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مشتعل ہجوم نے پروڈکشن منیجر کو بھی زدو کوب کیا، ایک اور وڈیو میں فیکٹری کا ایک ملازم پریانتھا کمارا کے اوپر لیٹ گیا اور تشدد سہتا رہا لیکن مشتعل ورکرز نے اسے اٹھا کر اوپر سے ہٹا دیا، وڈیو میں کچھ افراد کو نعرے لگاتے اور یہ کہتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے کہ یہ (منیجر) آج نہیں بچے گا۔

ایک انسانی جان اس روز بچائی نہ جا سکی لیکن اس کے ساتھ ہی ہم عالمی برادری میں جس طرح رسوا ہوئے اس کا شاید ابھی اندازہ بھی نہ لگایا جاسکے لیکن بعض اہم معاہدوں سے ہمارے ملک کو جس طرح علیحدہ رکھا جائے گا، تو ہم واویلا کرتے پھریں گے اور اس بات پر اصرار کریں گے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔

ہم اپنے معاملات کے بارے میں بہت حساس ہیں لیکن اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں کو محسوس نہیں کرتے، اپنی انسانی ذمے داریوں کے بارے میں نہیں سوچتے، یہ خیال نہیں کرتے کہ کیا ہماری دینی تعلیمات ہمیں انسانوں کو یوں قتل کرنے کی اجازت دیتی ہیں؟

جناب پریانتھا کمارا کا تابوت ہم نے کولمبو روانہ کر دیا ہے لیکن ہم پریانتھا کی بیوہ اور اس کے خاندان کے دیگر افراد کو کیا منہ دکھائیں گے، ہم میں سے کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔

آج شور اور واویلا کے بعد یہ اذیت ناک سانحہ اگر بھلا دیا جاتا ہے تو یقین رکھیے کہ اسی شقاوت کے ساتھ لوگ قتل ہوتے رہیں گے اور ہم جیسے لوگ سہمے ہوئے ان سانحوں کو دیکھتے رہیں گے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم اور تمام زعما یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ لیکن یہ جملے سن کر انصاف کی طلب گار کسی بیوہ کے دل کو قرار نہیں آئے گا اور ہمارے سر جھکے ہی رہیں گے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin