Bureaucracy Ky Shikanje Mein Mulazim
بیوروکریسی کے شکنجے میں ملازم

ملازمت چاہے سرکاری ہو، نیم سرکاری ہو یا نجی شعبے کی، اہل اور محنتی ملازم کو اکثر بیوروکریسی کے پیچیدہ جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ یہاں میرٹ، قابلیت یا فرض شناسی کی قدر برائے قلیل جبکہ اور رشتہ داری، جان پچھان، خوشامد اور ذاتی پسند و ناپسند اور پیٹی بند بھائیوں کی اہمیت زیادہ ہے۔ ہر سال، ہر ماہ، ہر ہفتہ اور کبھی کبھی ہر لمحہ، محنتی ملازم کو مختلف خودساختہ اور گھڑے ہوئے بہانوں سے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ جبکہ خاندان یا پسندیدہ ملازمین و افسر اپنے رستے صاف دیکھتے ہیں۔ آج کی یہ تحریر ان خاموش حقیقتوں کو بے نقاب کرتی ہے جہاں نظام کے ہندسے، ملین، بلین اور فائلیں انسان کی عزت اور محنت سے زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔
بیوروکریسی کے ایوانوں میں چند مخصوص خاندان ایسے جڑ پکڑ چکے ہیں جیسے سرکاری عمارتوں میں لگے پرانے درخت جنہیں کاٹنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایک عام ملازم یا نچلے درجے کا افسر اپنی پوری سروس اسی امید میں گزار دیتا ہے کہ شاید اگلاپروموشن بورڈ، ڈی پی سی اس کے لیے کچھ لائے۔ مگر ہر بار قسمت کی فائل کسی اور میز پر رکھی ہوتی ہے۔ ترقی کی سیڑھی سب کے لیے ایک جیسی نہیں، کچھ لوگ اسے پیدائشی حق سمجھ کر چڑھتے ہیں اور کچھ پوری عمر نیچے کھڑے گنتی کرتے رہ جاتے ہیں کہ گریڈیشن میں کتنا نمبر ہے۔
کلرک کلرکی کرتے کرتے بال سفید کر لیتا ہے، ریٹائرمنٹ قریب آ جاتی ہے، مگر گریڈ وہی رہتا ہے۔ اس کے برعکس مخصوص نسبت رکھنے والے ملازمین، مختصر عرصے میں وہ منازل طے کر لیتے ہیں جن کا خواب دیکھنا بھی جُرم سمجھا جاتا ہے۔ نہ ان سے سوال ہوتا ہے، نہ ان کی کارکردگی کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور نہ ان کے ریکارڈ پر کوئی سایہ پڑنے دیا جاتا ہے اور اگر کوئی سایہ پڑا بھی ہو تو اسے کمالِ صفائی سے بروقت غائب کر دیا جاتا ہے۔
زیادہ تر ملازمین کی پروموشن میں کھیل کارکردگی کا نہیں بلکہ ریکارڈ کا ہوتا ہے۔ کسی ملازم کو ترقی دینے کے لیے طویل تعریفی نوٹس، اسناد اور ایپری سیء ایشن لیٹرز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر ترقی روکنے کے لیے صرف ایک آدھ وضاحتی خط و شوکاز و ڈِس پلئیر خط ہی کافی ثابت ہوتا ہے۔ ایسے نوٹس، خطوط کبھی سہ ماہی اہداف کے نام پر آتے ہیں، کبھی ہفتہ وار کارکردگی کے بہانے، کبھی نافرماں برداری کی پاداش میں، کبھی میٹنگ میں شرکت نہ کرنے کے کھاتے میں اور کبھی کسی عارضی کمی کو مستقل ناکامی بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔
کچھ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں روزانہ کے ریونیو پر سوال ہو، پھر گھنٹہ وار کارکردگی پر وضاحت طلب کی جائے۔ شاید اگلا مرحلہ یہ ہو کہ ہر کاؤنٹر پر بیٹھے شخص سے یہ پوچھا جائے کہ پچھلے پندرہ منٹ میں کتنے روپے آئے۔ انتظامی سختی جب عقل سے آزاد ہو جائے تو وہ نظم و ضبط کم اور خوف زیادہ پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ کاغذ پر سب کچھ قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے مگر درحقیت انجام پہلے ہی لکھا جا چکا ہوتا ہے، ایسے نوٹس محض ملازمین کی پرسنل فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔
ریونیو اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تعجب ہے کہ ریونیو ٹارگٹ سالانہ بنیاد پر دیا جاتا ہے مگر احتساب ہفتوں، دنوں اور بعض اوقات لمحوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ دسمبر کی سردی، دن کے دورانیے میں کمی، کسٹمرز کی آمد میں فطری کمی اور بلک یوزرز کی ادائیگیوں میں تاخیر جیسے عوامل کاغذی فائل کے لیے غیر متعلق سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ فائل کو نہ موسم سے غرض ہوتی ہے اور نہ ہی انسانی رویوں سے دلچسپی۔ اسے صرف ہندسہ چاہیے، چاہے وہ زمینی حقائق کی لاش پر ہی کیوں نہ کھڑا ہو۔
پاکستان کے ہر شعبے اور ادارے میں اسی طرح محنتی ملازمین کو کُھڈے لائن لگانے کے لیے بہانے گھڑے جاتے ہیں۔ انشورنس یا بیمہ کے محکمے میں پالیسی فروخت نہ کرنے، موجودہ کسٹمر کو اپڈیٹ نہ کرنے یا نئے کلائنٹ نہ بنانے پر نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ بینکنگ شعبے میں نئے اکاؤنٹ ہولڈرز نہ لانا یا پرانے کسٹمرز کو اپڈیٹ نہ کرنا ملازم کے ریکارڈ پر اثر انداز کیا جاتا ہے۔ کورئیر کمپنیوں میں نئے گاہک تلاش نہ کرنے، ڈیلیوری ٹائم پر کام نہ کرنے یا مقررہ ریونیو نہ لانے پر بھی آئے روز باز پرس کی جاتی ہے۔ مارکیٹنگ اور کسٹمر آؤٹ ریچ کے محکمے میں اشتہاری اہداف پورے نہ کرنے کو بہانہ بنایا جاتا ہے اور معاون و انتظامی شعبوں میں بروقت رپورٹ نہ جمع کرانے یا معمولی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ترقی روک دی جاتی ہے۔
یہ سب بہانے، چاہے ریونیو ہو یا پالیسی فروخت، اکاؤنٹ ہولڈرز کی تلاش ہو یا پارسل گاہک، ایک ہی مقصد کے لیے تراشے جاتے ہیں کہ محنتی مگر غیر پسندیدہ ملازم کو پیچھے رکھنا اور پیٹی بند بھائیوں، رشتہ داروں یا پسندیدہ یا ہڈی ڈالنے والے ملازموں کے لیے راستہ صاف کرنا۔ یوں فائلیں ہمیشہ پورے نظام پر غالب رہتی ہیں اور اہل لوگوں کی قابلیت کبھی حقیقی طور پر پرکھی نہیں جاتی۔
جوں جوں ڈی پی سی یا پروموشن بورڈ کی تاریخ قریب آتی ہے، ایسے وضاحتی خطوط کی تعداد اور رفتار میں غیر محسوس مگر واضح اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ پہلے ایک وضاحت، پھر دوسری، پھر تیسری اور یوں سروس ریکارڈ اس حد تک داغدار کر دیا جاتا ہے کہ اہل ملازم خود کو غیر متعلق محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس دوران مخصوص پیٹی بند بھائیوں، رشہ داروں، جاننے والوں یا ہڈی مہیا کرنے والے جونیئر افراد خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ ان کے ریکارڈ پر خاموشی کی مہر لگی ہوتی ہے کہ جیسے ان کے ریکارڈ کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ گویا یہ افسر شاہی اس قدر تیز و طرار و ہوشیار چالاک ہے کہ جیسے بقول عبدالحمید عدم:
شکاری نہیں گو عدم وہ حَسیں
نشانہ لگاتا ہے کیا تاک کر
جب راستے بند ہو جائیں تو امید عدالتوں سے باندھی جاتی ہے۔ مگر عدالتوں میں کیس چلتے ہیں، چلتے ہی جاتے ہیں، رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ تاریخ پر تاریخ، پیشی پر پیشی اور فائلیں موٹی سے موٹی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ فیصلے تاخیر کا شکار رہتے ہیں اور تاخیر خود ایک فیصلہ بن جاتی ہے۔ شاید اسی سست رفتاری نے نظام کو یہ اعتماد دے دیا ہے کہ حقدار کا حق مارنا کوئی فوری انجام نہیں رکھتا۔ ایسی عدالتی نظام سے تو چاند سورج ہزار درجے بہتر ہیں جو اپنے وقت پر نکلتے اور غروب ہوتے ہیں۔
ریونیو کے بہانے افسرشاہی کی چالاکی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک طرف وہ ریونیو ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ہر ممکن پُھرتی دکھاتی ہے، ہر رپورٹ کا جائزہ لیتی ہے، ہر ہندسہ پر نظر رکھتی ہے، ایک ہی دن میں متعدد میٹنگیں کرتی ہے اور کبھی کبھار ایسے خطوط بھی جاری کر دیتی ہے جو محنتی ملازم کو دبانے کا کام کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف، اپنی شہ خرچیاں، ٹی اے ڈی اے، دھڑادھڑ ہونے والی میٹنگیں، چائے، پانی اور پکوڑے کے لوازمات میں معمولی کمی بھی وہ گوارا نہیں کر سکتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نچلے درجے کے ملازمین جو دن رات محنت کرکے ریونیو جمع کرتے ہیں، نئے کسٹمرز تلاش کرتے ہیں اور فلیگ شپ پراجیکٹس کو مکمل کرتے ہیں، ان کی محنت رائیگاں جاتی ہے۔ جو ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے، وہ زیادہ تر ٹی اے ڈی اے اور دیگرھیڈز کے ذریعے بیوروکریسی اُڑا دیتی ہے۔ ایسے ہی موقعے پر کہا جاتا ہے کہ بقول وزیر دفاع خواجہ محمدآصف"کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے"۔
ریونیو ہو یا کوئی اہم پراجیکٹ، عملی کام ہمیشہ نچلے درجے کے افسران اور ملازمین ہی انجام دیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ افسرشاہی دانستہ ان کی ترقی کو روکتی ہے تاکہ ریونیو کے ساتھ جڑی رقم، جو ترقی کی مد میں ملنی تھی، بچا کر افسران کے اختیار میں رکھی جا سکے۔ یوں محنتی ملازمین کا حوصلہ ٹوٹتا ہے، ان کے اندر ادارے کے لیے مزید محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ فیڈبیک دینے یا نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے گریزاں ہو جاتے ہیں اور ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ بقول پروین شاکر:
جذبات ہی کُند ہیں تو بے کار
ہے تلوار کی لاکھ بے نیامی
زندگی میں توازن کا اصول ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کبھی خوشی کبھی غم۔ یہی اصول کھیل کے میدان میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ کرکٹ میں بیس اوورز کا میچ ہو تو کبھی ابتدائی اوورز میں چھکے لگتے ہیں، کبھی پاور پلے میں وکٹیں گر جاتی ہیں۔ کوئی سمجھدار کپتان پانچویں اوور میں میچ کا فیصلہ نہیں کرتا۔ فیصلہ ہمیشہ آخری اوور کے بعد ہوتا ہے۔ ادارے بھی اگر کپتان کی طرح سالانہ بنیادوں پر کارکردگی و احتساب و ریونیو کا سوچیں تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ مگر یہاں اختتام سے پہلے ہی فیصلے صادر کر دیے جاتے ہیں اور بعد میں انہیں قواعد کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔
اصل بات نیت کی ہے، طریقہ کارکی ہے، وقت کے انتخاب کی ہے۔ کارکردگی جانچنا ضروری ہے، مگر انصاف کے ساتھ۔ نگرانی ہونی چاہیے مگر اعتماد کو دفن کرکے نہیں۔ ادارے افراد سے بنتے ہیں اور افراد کو بار بار کٹہرے میں کھڑا کرکے ادارے مضبوط نہیں ہوتے بلکہ دیمک زدہ ہو جاتے ہیں۔ ریونیو آئے گا، نئے اکاؤنٹ ہولڈرز تشریف لائیں گے، نئے کسٹمرز مل جائیں گے، محنت جاری ہے، بلک یوزرز واجبات دیں گے، موسم بدل جائے گا۔ مگر اگر اعتماد کا موسم سرد ہوگیا تو پھر صرف ریونیو نہیں گرتا بلکہ وابستگی بھی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور وابستگی کے بغیر کوئی ادارہ لمبی اننگز نہیں کھیل سکتا۔
یہ کہانی کسی ایک دفتر یا کسی ایک محکمے تک محدود نہیں۔ یہ پورے پاکستانی ڈھانچے کی تصویر ہے جہاں اہلیت خطرہ بن جاتی ہے، خاموشی وفاداری کہلاتی ہے اور سوال اٹھانا بدتمیزی سمجھا جاتا ہے۔ ریونیو کبھی پورا ہو جاتا ہے، کبھی نہیں۔ مگر جب انصاف مستقل طور پر ہدف سے باہر رکھا جائے تو ادارے صرف کاغذوں میں زندہ رہتے ہیں، اعتماد میں نہیں اور یوں جب کوئی ادارہ اپنے محنتی اور اہل ملازمین کو مسلسل کٹہرے میں کھڑا رکھے اور اعتماد کو دفن کر دے تو پھر نہ ریونیو، نہ پالیسی، نہ اکاؤنٹ ہولڈر، نہ پارسل گاہک، کچھ بھی اس کی عزت اور وقار کو بچا نہیں سکتا۔ لہذا بقول شہزاد احمد:
ڈھونڈنے اس کو چلے جس کا نشاں کوئی نہیں
سب سے پہلے آپ اپنا تو پتا لے لیجیے

