Wednesday, 31 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Muhammad Irfan
  4. Haram Ki Baladasti Aur Halal Ki Tanhai

Haram Ki Baladasti Aur Halal Ki Tanhai

حرام کی بالادستی اور حلال کی تنہائی

یہ شاید دنیا کا واحد خطہ نہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان اُن چند معاشروں میں شامل ہو چکا ہے جہاں حرام صرف ایک گناہ نہیں رہا، بلکہ طاقت، اثر اور کامیابی کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ یہاں محنت سے کمایا گیا رزق صفائی پیش کرنے پر مجبور ہے اور لوٹ مار ایسی مہارت سمجھی جاتی ہے جس پر تالیاں بجتی ہیں۔

یہ کیسا سماج ہے جہاں سچ بولنے والا دیوار سے لگا دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنے والا ایوانوں تک جا پہنچتا ہے؟ جہاں ایمانداری نادانی سمجھی جاتی ہے اور بددیانتی کو "اسمارٹنس" کا نام دے دیا گیا ہے؟

یہ تضاد محض اخلاقی نہیں، یہ ایک مکمل نظامی خرابی ہے۔

حرام کا نوالہ جب طاقت بن کر تخت پر بیٹھ جائے، تو حلال کی روٹی پسینے میں بھیگ کر شرمندہ ہی کھڑی رہتی ہے۔ مزدور، کلرک، استاد، نرس، چھوٹا تاجر، جو ایمانداری سے کماتا ہے، وہ مہنگائی کے ہاتھوں روز مرتا ہے۔ اس کے برعکس وہ طبقہ جو قوم کا خون چوستا ہے، گاڑیوں، بنگلوں اور پروٹوکول میں "باعزت زندگی" گزار رہا ہوتا ہے۔

یہ کیسا انصاف ہے کہ رشوت لینے والا باعزت اور رشوت نہ دینے والا ذلیل؟ یہ کیسی فلاحی ریاست ہے جہاں چور قانون ساز بنتا ہے اور مظلوم مجرم ٹھہرتا ہے؟

اصل سانحہ یہ نہیں کہ چند افراد حرام کھا رہے ہیں، اصل المیہ یہ ہے کہ پورا نظام حرام کو تحفظ دے رہا ہے۔ معیشت صرف لوٹی نہیں گئی، ضمیر، اخلاق اور ایمان بھی گروی رکھ دیے گئے ہیں۔

تعلیم کاروبار بن چکی ہے، علاج تجارت اور انصاف ایک نیلامی، جہاں بولی لگانے والا جیت جاتا ہے۔

سب سے کربناک منظر وہ ہے جہاں حلال کمانے والا باپ اپنے بچوں کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر شرمندہ ہو جاتا ہے۔ وہ سوال جو لفظوں میں نہیں، خاموشی میں پوچھا جاتا ہے: "ابا، ہم بھی وہ سب کیوں نہیں کر سکتے جو باقی کر رہے ہیں؟"

اور دوسری طرف وہ حرام خور مجرم ہے جو ٹی وی اسکرین پر آ کر قوم کو صبر، قربانی اور اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔ یہ منافقت صرف چہرے نہیں بگاڑتی، یہ نسلوں کی سوچ مسخ کر دیتی ہے۔

اصل المیہ یہ نہیں کہ حرام عام ہوگیا۔

اصل سانحہ یہ ہے کہ حلال مشکل بنا دیا گیا ہے۔

اور تاریخ گواہ ہے، جب کسی معاشرے میں حلال مشکل ہو جائے تو وہاں انقلاب نہیں آتا، وہاں خاموش تباہی جنم لیتی ہے۔ لوگ بغاوت نہیں کرتے، بس ٹوٹ جاتے ہیں۔ امید مر جاتی ہے، اعتماد دفن ہو جاتا ہے اور ریاست صرف ایک جغرافیہ بن کر رہ جاتی ہے۔

یہ تحریر کسی فرد کے خلاف نہیں۔ یہ ایک نظام پر فردِ جرم ہے۔ ایسا نظام جہاں حرام طاقتور ہے اور حلال تنہا۔

سوال یہ نہیں کہ قصوروار کون ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اس تنہائی کو مقدر مانے رکھیں گے۔

Check Also

Khud Ko Doosron Ke Liye Faramosh Na Karen

By Ansa Shehzadi