Wednesday, 31 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Motabari Ka Mayar Bana Shadi Ka Dawat Nama

Motabari Ka Mayar Bana Shadi Ka Dawat Nama

"معتبری" کا معیار بَنا شادی کا دعوت نامہ

جی ہاں گزرے جمعہ سے بدھ کی صبح تک تین دن یہ کالم نہیں چھپا۔ چند دن قبل مگر نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کردیا تھا کہ دل ضرورت سے زیادہ دھڑکنا اور بلڈپریشر بے قابو ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ان سے نبردآزما ہوتے ہوئے ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنا شاید کچھ دنوں تک ممکن نہ رہے۔ بحالی صحت کی کاوشیں نہار منہ لیبارٹری جاکر خون دینے کا تقاضہ بھی کرتی ہیں۔ اس کے بعد جس بھی نوعیت کے ٹیسٹ ہوئے ان کے نتائج عموماََ تسلی بخش ہی آئے۔ صبح اٹھتے ہی قلم اٹھانے کے بجائے لیبارٹری کا رخ اور وہاں خون دینے کے لئے باری کا انتظار کرتے ہوئے لیکن زندگی کی بے ثباتی کا احساس تنگ کرتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے اپنے گرانقدر خیالات کے ذریعے قارئین کی "ذہن سازی" کو جی مائل نہیں ہوتا۔

"خبر" ویسے بھی ہمارے ہاں محدود سے محدود تر حلقوں تک سمٹنا شروع ہوگئی ہے۔ ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والے "جاہل عوام" اور ان کے نمائندوں سے وسیع تر مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انہیں یقین ہے کہ فقط انہیں علم ہے کہ قوم کو خوش حالی اور استحکام کے لئے کیا درکار ہے۔ مشاورت میں وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ اپنے تئیں ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں کئے فیصلوں پر یکسوئی سے عملدرآمد پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ صحافیوں کو ان کلیدی فیصلوں کی بھنک بھی نہیں پڑتی۔ تھوڑا علم ہو جائے تب بھی نامکمل معلومات کی بنیاد پر کلیدی فیصلوں پر تبصرہ آرائی کی جرأت نہیں ہوتی۔ بھاشن فروشی سے ڈنگ ٹپالیا جاتا ہے۔

روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کی وجہ سے اخبار چھاپنے کے لئے جو کاغذ اور سیاہی درکار ہے اس کی قیمت ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ اسی باعث اخبارات 6سے 8صفحات تک سکڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کی فروخت سے اس کے باوجود اخبار چھاپنے کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ اخباری اداروں کو حکومت کی طرح "خسارے کا بجٹ" بنانا پڑرہا ہے۔ حکومت اپنا خسارہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے " امدادی پیکیج"لے کر پورا کرتی ہے۔ اخبارات کے لئے اشتہارات ویسے "پیکیج" کا کام کرتے ہیں۔ نجی شعبہ میں لیکن اتنی سرمایہ کاری نہیں ہورہی کہ مختلف دھندوں کی مشہوری کے لئے اخبارات سے رجوع کیا جائے۔ محض زندہ رہنے کے لئے اخبارات کا سرکاری اشتہارات پر انحصار شدت سے بڑھتا جارہا ہے اور اشتہار دینے والے کو ناراض کرنے سے قبل اخبارات سے وابستہ سینکڑوں کارکنوں کے رزق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے لکھنے والے کوسو بار سوچنا پڑتا ہے۔

سیاسی رپورٹر سے محض عمر بڑھ جانے کی وجہ سے "کالم نگار" ہوئے مجھ جیسے قلم گھسیٹوں سے قارئین توقع باندھتے ہیں کہ انہیں "اندر کی خبر" بتائی جائے۔ "اندر کی خبر" دو ٹکے کا صحافی اسی صورت ڈھونڈسکتا ہے کہ اگر فیصلہ ساز اسے اپنے محدود سے محدود تر ہوتے حلقے تک رسائی دیں۔ یہ رسائی یقین مانیں بہت سے پھنے خان مشہور ہوئے صحافیوں کو بھی دستیاب نہیں ہے۔ محض تجربے کی بنیاد پر وہ ٹیوے لگاتے ہیں۔ ان میں سے اگر چند درست ثابت ہوجائیں تو ٹہکا برقرار رہتا ہے

جو ٹیوے درست ثابت نہ ہوں انہیں لوگ بھول جاتے ہیں۔ مجھے ٹیوے لگانے کی عادت نہیں۔ فیصلہ ساز افراد سے ٹھوس روابط کے بعد ہی بہت سوچ بچار کے بعد خبریں دی ہیں اور فیصلہ ساز -آپ کو دوبارہ یاد دلانے کو مجبور ہوں - محدود سے محدود تر حلقے میں سمٹ رہے ہیں اور ان کی اکثریت سیاستدان بھی نہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں گنتی کے جو سیاستدان شامل ہیں وہ بھی صحافیوں کے ساتھ وقت گزارنے سے گریز کو ترجیح دیتے ہیں۔

وہ زمانے گئے جب سیاستدان کوئی اہم فیصلہ لینے سے قبل اپنے اعتماد کے صحافیوں کے ساتھ اپنے ذہن میں آئی بات کو بیان کرتے ہوئے اپنے دل ودماغ میں موجود فیصلے کے ممکنہ عوامی ردعمل کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے تھے۔ خود کو ملک وقوم کی بھلائی کے لئے آسمان سے اتارے دیدہ وروں کی طرح دورِ حاضر کے فیصلہ سازوں کو "عوامی ردعمل" نامی شے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اپنی "نیک نیتی" پر کامل اعتماد کرتے ہوئے فیصلے لئے چلے جارہے ہیں۔ عجلت میں یہ بات بھی ذہن میں بٹھاچکے ہیں کہ ملک وقوم کی بہتری، خوشحالی اور استحکام کے لئے جو فیصلے آج سے کئی دہائیاں قبل لے لئے جانے تھے "عوام سے مشاورت" کی نذر ہوگئے۔ قوم وملک اب وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

علی الصبح کسی نہ کسی نوعیت کا ٹیسٹ دینے کے لئے ہاتھ میں ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد ہاتھ کی نسوں میں سوئی چبھوانے کی بدولت جب خون نکل جاتا ہے تو گھر لوٹنے کے بعد کئی گھنٹے اس سوچ میں گزرجاتے ہیں کہ بقول شاعر جس گلی سے روزگزرتا ہوں کل کلاں کسی دن وہاں سے نہ گزرا تو کون میری عدم موجودگی کے بارے میں سوچے گا۔ صحافی کو لکھنے کے لئے سب سے پہلے درکار ہے حکمرانوں کے ذہن میں سمائے فیصلوں کا علم۔ وہ کسی نہ کسی طرح دریافت کربھی لیا جائے تو ان کے ممکنہ "منفی نتائج" زیر بحث لانا "تخریبی قیاس آرائی"شمار ہوسکتی ہے۔ صحافیوں کو قیاس آرائی اور "تخریبی" شمار نہ ہونے سے تحفظ پارلیمانی نظام حکومت میں حزب اختلاف فراہم کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں میں وہ کرید کرید کر حکمرانوں کو اپنے ذہن میں موجود ارادے بیان کردینے کو مجبور کرتی ہے۔ ریکارڈ پر آئی باتوں کو صحافی تجزیہ کا تڑکا لگاکر رپورٹ کرتے ہوئے اپنے کام چلالیتے ہیں۔

عددی اعتبار سے پاکستان کی موجودہ پارلیمان میں 2002ء کے بعد حزب اختلاف بھاری بھر کم تعداد میں موجود ہے۔ تحریک انصاف حکمران جماعت کے مقابلے میں بھی کئی مہینوں تک واحد اکثریتی جماعت کی صورت موجود رہی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں مگر پارلیمانی کارروائی پر توجہ دینے کے بجائے یہ تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کی رہائی کے لئے شورشرابے پر توجہ دیتی رہی۔ جو پذیرائی درکار تھی میسر نہ ہوئی تو ایوان سے باہر چلے جانے کو ترجیح دی۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں جارحانہ رویہ اختیار کرنے کے باوجود پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاسوں میں فیصلہ سازوں کے ذہن میں موجود ارادوں کا ذہانت سے کھوج لگاتے ہوئے صحافت کو رونق فراہم کی جاسکتی ہے۔

پارلیمان کی کمیٹیوں سے بھی لیکن تحریک انصاف مستعفی ہوچکی ہے۔ اب ہر ہفتے منگل کے روز راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی سمت جانے والی سڑک پر بانی تحریک انصاف کی بہنوں کا جیل میں قید بھائی سے ملاقات پر اصرار ہوتا ہے۔ حکومت رضا مند نہیں ہوتی تو رات گئے تک دھرنے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ پولیس کارکنوں کے تھک جانے کا انتظار کرنے کے بعد واٹرکینن اور لاٹھی چارج کے استعمال کے ذریعے انہیں منتشر کردیتی ہے۔ کبھی کبھار بہنوں کو بہلاپھسلا کر پولیس کی وین میں ڈال کر اسلام آباد کو لاہورسے ملانے والی موٹروے کے قریبی مقام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ "حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ" کی عملی مثال جس میں "سفر" بھی لیکن دائرے میں ہورہا ہے۔ ایسے میں سیاست پر لکھوں تو کیا لکھوں؟

سیاست پر لکھنے کی گنجائش میسر نہ ہو تو صحافت کی ایک قسم ڈرائنگ روموں میں ہوئی گپ شپ سے چوندی چوندی غیبت ڈھونڈ کر ڈنگ ٹپالیتی ہے۔ میری بدقسمتی کہ یہ طرز صحافت سیکھ نہ سکا۔ وگرنہ گزشتہ دو دنوں سے اسلام آباد کے کئی طرم خان گھرانوں میں مقبول ترین غیبت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو گزشتہ ہفتے کے دوران ہوئی شادی کی ایک تقریب میں مدعو کئے جانے کی خاطر مضحکہ خیز حربے استعمال کرتے رہے بہت سوں کا اس کے باوجود دائو نہ لگ پایا۔ منیر نیازی کی گواہی کبھی "اس کو" شہر میں "معتبر" بنادیا کرتی تھی۔ اب شادی کا دعوت نامہ "معتبری" کا معیار بن رہا ہے۔ میں "سیاسی موضوعات" پر کالم لکھنے میں وقت ضائع کیوں کروں؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Bangladesh Ka Mojuda Siasi Mizaj

By Hameed Ullah Bhatti