ایک بھولی بسری کتاب
میں جب نوعمری میں طرح طرح کی کتابیں اور رسالے پڑھ رہی تھی، اسی زمانے میں " پیسہ اخبار " کا اور مولوی محبوب عالم کا نام پڑھا تھا۔ اخبار کا نام اتنا دلچسپ تھا کہ جی چاہتا تھا اسے دیکھوں اور اگر کچھ شمارے ہاتھ لگیں تو انھیں پڑھ بھی ڈالوں۔ اب چند دنوں پہلے برادرم طاہر مسعود کی مرتبہ کتاب نظر سے گزری جس میں انھوں نے " پیسہ اخبار" اور مرحوم منشی محبوب عالم کی کتاب کو ازسر نو مرتب کیا اور اس پر مقدمہ لکھا۔
منشی محبوب عالم کا نام ہمارے ان لوگوں میں سے ہے، جنھوں نے انیسویں صدی کے اختتام پر صحافت میں قدم رکھا۔ ان کے اخبار کا صرف نام ہی " پیسہ اخبار " نہ تھا وہ واقعی ایک پیسے میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کی خبریں مستند ہوتی تھیں اور مضامین وقیع۔ وہ پابندی سے نکلتا تھا اوریہی اس کی وجہ شہرت تھی۔
انھوں نے منشی محبوب عالم کے " سفر نامہ لندن " سے چند صفحات اس کتاب میں شامل کرکے اسے بہت وقیع بنادیا ہے۔ منشی صاحب نے اس سفر نامے لندن کی علمی زندگی کے ساتھ ہی لندن کے اخبارات کی اشاعت، اس کے مالکان اور مدیران کی خبروں کے لیے جستجو اور نت نئے طریقوں سے اپنا اخبار پڑھنے والوں کو اخبار خریدنے کی ترغیب دینے جیسے معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے سفر نامے کے ان صفحات سے اندازہ ہوتاہے کہ ہندوستان میں اردو اخبار نکالنے والے کن مسائل اور مشکلات سے دوچار تھے۔
دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان جنت نشان میں بھی سیکڑوں برس سے وقایع نگار اپنے اپنے حکمرانوں کے لیے خبر رسانی کی خدمات سر انجام دیتے رہے اور ملک کے کونے کونے سے خبریں ان راجوں، مہاراجوں اور بادشاہوں تک پہنچتی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور دوسری غیر ملکی تجارتی کمپنیوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تو وہ اخبارات کا نیا چلن ساتھ لائیں اور ان کی پیروی میں ہندوستان میں بھی صحافیوں کی وہ کھیپ پیدا ہوئی جن میں سے بیش تر ادیب اور شاعر تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ صحافت کو ایک باعزت ذریعہ روزگار اور سرکار دربار میں بار پانے کا ذریعہ جانتے تھے۔ انیسویں صدی میں جب صحافت نے پر پرزے نکالے تو اسے مالی اعانت بھی ملنے لگی۔ شروع میں یہ زیادہ تھی لیکن آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی جس کی شکایت بھی کی گئی۔
ڈاکٹر طاہر مسعود مزاج کے اعتبار سے ایک سنجیدہ محقق ہیں۔ ان کے اس شوق کو مہمیز مخدومی مشفق خواجہ مرحوم نے دی اور ان ہی کے کہے پر اردو صحافت کی صخیم تاریخ جناب طاہر مسعود نے لکھی جسے محققین اور ادب و صحافت کے قارئین نے بہت اہمیت دی۔
زیر نظر کتاب " اردو اور عالمی صحافت کی ایک نادر تاریخ " اردو کے مشہور و معروف صحافی اور " پیسہ اخبار" لاہورکے مدیرکی تالیف ہے اور " فہرست اخبارات ہند " کے عنوان سے پہلی مرتبہ نومبر1903 میں شایع ہوئی تھی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن اپریل 1909 میں شایع ہوا۔ زمانے گزر گئے، ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ 1992 میں یہ ایک بار پھر شایع ہوئی اور دوسرا ایڈیشن 2021میں منظر عام پرآرہا ہے۔ ہمارے یہاں کوئی کتاب اور وہ بھی تحقیقی تین مرتبہ شایع ہوجائے تو اسے معجزہ جانیے۔ اس میں صرف ہندوستانی اخبارات کی مختصر تاریخ کے ساتھ ہی بقول طاہر مسعود:
" اس میں اخبارات کی تاریخ، ہندوستان کے اخبارات اورلندن کے اخبار فروشوں کے موضوعات پر نہایت اہم اور توجہ طلب مضامین شامل ہیں۔ اردو اور دوسری زبانوں کے اخبارات کی فہرست میں بھی اضافے کیے گئے ہیں اور مزید اخباروں اور رسالوں کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔ ہم نے ایسے اخباروں اور رسالوں کی فہرست علیحدہ سے بنادی ہے تاکہ ان کا اندراج بھی ہوجائے اور پہلے اور دوسرے ایڈیشن کا فرق بھی باقی رہے۔ چوں کہ اشاعت ثانی میں عالمی صحافت کی تاریخ کی بابت بہت اہم معلومات مضامین کی صورت میں شامل کی گئی ہیں، اس لیے ہم نے کتاب کا نام تبدیل کرکے " اردو اور عالمی صحافت کی ایک نادر تاریخ" رکھ دیا ہے جو "فہرست اخبارات ہند" کی جملہ اندراجات کا احاطہ کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولوی محبوب عالم نے اضافے اور اصلاح کے جوش میں پہلے ایڈیشن کے شایع شدہ پیش لفظ میں بھی تبدیلیاں کردی ہیں لیکن یہ تبدیلی چونکہ زیادہ تر زبان وبیان کی اصلاح و ترمیم سے متعلق ہے اس لیے ہم نے بھی اسی پیش لفظ کو شامل اشاعت کیا ہے۔ دوسرے ایڈیشن میں جن اخبارات اور رسائل کے اضافے کیے گئے ہیں اس میں مرتب کو یہ پریشانی ضرور لاحق ہوئی کہ بہت سے اخبار و سالے کی بابت یہ نشاندہی نہیں کی گئی کہ یہ کس زبان کے ہیں۔ چنانچہ نام کی رعایت سے جو اخبار اردو کے لگے، انھیں اردو اخباروں کی فہرست میں درج کردیا گیا اور جہاں شبہ ہوا وہاں چھوڑ دیا گیا۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد 1830 میں فارسی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کردی گئی اور اس کی جگہ اردو سرکاری زبان قرار پائی۔ چند برس کے اندر ہندوستانی اخبارات پر عائد پابندیاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے اٹھالی گئیں۔ لیتھوکا پریس رائج ہوا اور اردو ٹائپ جو عموماً پڑھنے والوں کی نگاہوں میں نہیں کھبتا تھا، اس سے بھی نجات ملی۔ یہی وجوہ تھیں جن کی بناء پر 1857 تک اردو میں نکلنے والے اخبارات کی تعداد 118 تھی۔ ان میں سے 25 اخبارات قانونی معاملات و مسائل سے جڑے ہوئے تھے، کچھ ایسے تھے جو سراسر منظوم تھے۔
کتاب کا آخری حصہ بہت دلچسپ ہے اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں اردو کے گمشدہ اخبارات کی فہرست کے ساتھ ہی انگریزی، بنگالی، گجراتی، ہندی اور دیگر زبانوں کے اخبارات کی فہرست شامل ہے۔ ایسے 16 اخبارات کی فہرست بھی ملتی ہے جن کے بارے میں یہ نہیں معلوم کی یہ کن زبانوں کے اخبارات تھے۔ بعض اخبارات اپنے نام سے انگریزی زبان کے محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس کتاب کی قدرو قیمت ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بڑھتی جائے گی اوریہ تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک بیش بہا خزانہ ہوگی۔
مرحوم مولوی محبوب عالم نے اردو صحافت کے لیے جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں، اس میں "پیسہ اخبار" اور "شریف بی بی" کے اجرا کے ساتھ ہی " فہرست اخبارات ہند " کی تالیف بھی کسی کارنامے سے کم نہیں۔ اس کتاب سے جسے بھی دلچسپی ہو وہ ضرور اس کا مطالعہ کرے۔