نصاب اور قومی وحدت
پاکستان پر سب سے بڑا ظلم الگ الگ نظامِ تعلیم ہے۔ ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنا مشکل۔ افغانستان نے توڑ دیں۔ ہم اب ان سب سے پیچھے ہیں، ملک کو ایک قوم بنائیں گے۔
ملک میں یکساں نصابِ تعلیم کے اجراء کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے زریں خیالات سے قوم کو آگاہ کیا۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ ہم اعلیٰ تعلیم کے لیے صرف انگریزی زبان ہی نہیں سیکھتے بلکہ ان کا کلچر بھی اپناتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ تعلیم کے ساتھ انسانیت اور اخلاقیات بھی ضروری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے طبقاتی نظام کے خاتمے کے دعویٰ کی حقیقت تلاش کرنے سے پہلے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کی تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جب ڈھائی سو سال قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدارکا سورج ہندوستان پر چھانے لگا تو لارڈ میکالے نے جدید تعلیمی نظام کا ڈھانچہ قائم کیا۔ مغلوں کے دور میں صرف دینی مدارس میں مذہبی تعلیم دی جاتی تھی۔ عربوں نے جو دینی مدارس قائم کیے تھے ان میں فقہ، حدیث کے علاوہ فلسفہ اور منطق کے مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔
مغلوں کے دور میں بتدریج دینی مدارس کے نصاب سے منطق اور فلسفہ کے مضامین غائب ہوئے اور صرف فقہ حدیث اور شریعہ کے مضامین کی تدریس ہونے لگی تھی۔ لارڈ میکالے کے جدید نظام میں جدید مضامین انگریزی، ریاضی، فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، جغرافیہ اور تاریخ جیسے مضامین کی تدریس ہونے لگی مگر ان جدید تعلیمی اداروں میں نصاب کی تیاری کی ذمے داری دہلی میں قائم مرکزی حکومت کے پاس رہی۔
اس نظام میں سائنسی طرز فکر کی ترویج کو اہمیت دی جاتی تھی مگر تاریخ کے مضمون میں انگریز حکومت نے ملاوٹ کی ہوئی تھی۔ برطانوی حکومت نے 1935 کا ایکٹ نافذ کیا۔ اس ایکٹ کے تحت صوبوں کو کچھ حقوق حاصل ہوئے اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالہ ہوا۔
ممتاز دانشورڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے ہندوستان کی مرکزی حکومت نے دو یونیورسٹیوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ہندو یونیورسٹی بنارس کو مرکزی نگرانی میں رکھا مگر یہ دونوں یونیورسٹیاں خود مختار قرار دی گئیں۔ ان یونیورسٹیوں کو نصاب کی تیاری کا فریضہ میسر آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے اکابرین اپنی خودمختاری کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور آج بھی یہ یونیورسٹی اپنی خود مختاری کو بچانے کی جستجو میں ہے۔
1947 میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، پاکستان وجود میں آیا۔ اب تعلیمی اداروں کے نصاب کی ترتیب کراچی کی مرکزی حکومت نے سنبھال لی۔ مسلم لیگ کی مرکزی حکومت نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے اکابرین کو جن میں جید علماء بھی شامل تھے کے ذکر کو ممنوع قرار دیا۔
پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی زندگی کا ایک حصہ انسانی حقوق کی پاسداری، خواتین کی مردوں کے برابر حیثیت کو منوانے، آزادئ صحافت اور ٹریڈ یونین کی آزادی کے حصول میں گزرا تھا مگر مرکزی نصاب بنانے والوں نے قائد کی تاریخی جدوجہد کو نئی نسل کو منتقل نہیں کیا۔ جب جنرل ایوب خان اقتدار میں آئے تو نیا دارالحکومت اسلام آباد تعمیر ہوا تو نصاب کی تیاری اسلام آباد میں قائم وزارت تعلیم کی ذمے داری قرار پائی۔ اس نصاب میں صوبوں کی تاریخ اور کلچرکو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا جس سے ملک کا اکثریتی صوبہ براہِ راست متاثر ہوا۔
بنگال کی آزادی کی تاریخ کے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے شعراء رابندر ناتھ ٹیگور اور نذر الاسلام کی شاعری نصاب کا حصہ ہی نہیں بنی۔ ٹیگور کو نوبل انعام ملا تھا اور انگریز حکومت نے "سر" کا خطاب دیا تھا۔ جنرل ڈائر نے جلیان والہ باغ امرتسر میں نہتے ہندوستانیوں کے قتل عام کے بعد ٹیگور نے احتجاجاً "سر "کا خطاب واپس کیا تھا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سائنسی مضامین میں رجعت پسندانہ مواد شامل نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیمی شعبہ میں دوررس اصلاحات کیں مگر نصاب کی تیاری کاکام وزارت تعلیم کے سپرد رہا۔ اس دور میں پاکستان اسٹڈیز کا مضمون تیار ہوا۔ اسکول کی سطح پر تاریخ اور جغرافیہ کے مضامین خارج کیے گئے۔
پاکستان اسٹڈیز میں پاکستان کے ماضی کو قدیم ہندوستان سے منسلک کرنے کے بجائے عرب دنیا سے منسلک کرنے کی کوشش کی گئی مگر پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے صوبہ سندھ میں سندھی زبان کی تدریس کی اجازت دی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے جنونی ایجنڈا نصاب میں شامل کیا۔ اب مذہب سے متعلق مضامین کی تعداد بڑھادی گئی۔ کسی بھی حکومت نے دینی مدارس میں تدریس کو سائنٹیفک طریقوں کے مطابق بہتربنانے کی کوئی پالیسی تیار نہیں کی۔ اس کے ساتھ جنرل ضیاء الحق حکومت نے O اور A لیول کی تدریس کے تعلیمی اداروں اور نجی یونیورسٹیوں کے قیام کی اجازت دی۔ اس طرح اب ہمارا تعلیمی نصاب تین درجوں میں تقسیم ہوا۔
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008 میں قائم ہوئی اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کا مہینوں کی جستجو کے بعد 2010 میں 18ویں ترمیم پر اتفاق رائے ہوا اور 1947 کے بعد پہلی دفعہ تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبہ میں رہنے والی ہر برادری کے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ سندھ اور خیبر پختون خوا میں اسکولوں کی سطح تک تدریس کے لیے نصاب میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
تعلیمی ماہرین نے دونوں صوبوں کی ثقافت اور تاریخ سے متعلق مضامین شایع کیے۔ عورت کی تذلیل اور غیر مسلم شہریوں سے نفرت سے اور پڑوسی ممالک سے دشمنی سے متعلق مواد ہذف ہوا۔ اچانک صوبوں کے نصاب بنانے کے حق کے خلاف مہم شروع ہوگئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے جو قومی نصاب نافذ کیا ہے وہ ادھورا ہے۔ اس سے کسی صورت طبقاتی فرق ختم نہیں ہوگا۔ امراء اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے Oاور A لیول کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے۔
پنجاب میں اس نئے نصاب کے مطابق شایع ہونے والی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیولوجی میں مردوں اور عورتوں کی پیدائش سے متعلق باب خارج کیے گئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی تیار کردہ کتاب کو اس لیے ضبط کرلیا گیا کہ اس میں بچیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی بھی تصاویر ہیں۔ اس ملک میں فزکس کے دنیا بھر میں تسلیم کیے جانے والے سائنسدانوں میں ایک سائنسدان جھنگ کے ایک دیہات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کا ذکر ممنوع ہے۔
سندھ کا معاملہ زیادہ حساس ہے۔ سندھی زبان اردو سے زیادہ قدیم زبان ہے۔ اس کی سندھ میں تدریس لازمی ہے۔ سندھ میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں جمہوری عمل کی اہمیت، انسانیت سے محبت کرنے والے عظیم لوگوں کا ذکر ہے۔ سندھ کی قدیم ثقافت دنیا کی قدیم ترین تہذیب میں سے ایک موئنجودڑو کی اہمیت سے متعلق مضامین بھی شامل ہیں مگر یہ سب کچھ قومی نصاب میں نہیں ہے۔
پاکستان میں وفاقیت کے موضوع پر کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ قومی نصاب کی بناء پر مشرقی پاکستان کے عوام مایوس ہوئے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے 6 صوبوں نے مل کر پاکستان بنایا، اس بناء پر ان صوبوں کے حقوق کو تسلیم کر کے ہی قومی وحدت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے اور ایک قوم کی تشکیل کا سفر تیز ہوسکتا ہے۔