عطاء اﷲ مینگل، جدوجہد کا استعارہ
بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کا آغاز کرنے والے ایک اور رہنما سردار عطاء اﷲ مینگل کا انتقال صرف بلوچستان کے عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے صدمہ ہے۔
سردار عطاء اﷲ مینگل نے ساری زندگی بلوچستان کے عوام کے حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری میں گزاری۔ وہ شاید واحد رہنما ہیں جنھیں اس جدوجہد کے دوران اپنے بیٹے اور بھائی کو کھونا پڑا۔ سردار عطاء اﷲ مینگل خضدار کے گاؤں ووڈ میں پیدا ہوئے، تعلیم کراچی میں حاصل کی۔
انتہائی شائستہ اردو بولنے والے شعلہ بیان مقرر سردار عطاء اﷲ مینگل کی جدوجہد کا آغاز 50ء کی دہائی سے ہوتا ہے۔ انھوں نے 25 سال کی عمر میں سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، یوں 1954میں پابند سلاسل ہوئے۔ اس سے پہلے وہ مینگل قبیلہ کے سردار بن گئے تھے مگر سیاسی سرگرمیوں کی بناء پر انھیں سردارکی حیثیت سے معزول کر کے گرفتار کرلیا گیا، مگر بعد میں عدالت نے عدم شواہد کی بناء پر رہا کردیا۔ 1958 میں ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا۔
اسکندر مرزا کے حکم پر ریاست قلات کے خاتمہ کا آپریشن کیا گیا۔ پورے بلوچستان میں ریاست قلات کی خودمختاری کے خاتمہ پر سخت احتجاج ہوا۔ کنگ آف جھلاوان سردار نوروز خان پہاڑیوں پر چلے گئے۔ اس وقت حکام نے یقین دہانی کرائی کہ سردار نوروز خان ہتھیار ڈال دیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
مگر سردار نوروز خان، ان کے بیٹے اور بھتیجوں کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ایک عدالت نے نوروز خان، ان کے بیٹے اور بھتیجوں کو سزائے موت دی۔ سردار نوروز خان کے بیٹے اور بھتیجوں کو حیدرآباد جیل میں میں پھانسی دیدی گئی اور سردار نوروز خان کو بوڑھا ہونے کی بناء پر پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔
نیپ کے رہنماؤں نے احتجاجی تحریک شروع کی۔ سردار عطاء اﷲ مینگل، غوث بخش بزنجو اور اکبر بگٹی وغیرہ گرفتار کیے گئے اور کئی برسوں تک ملک کی مختلف جیلوں میں سزا کاٹتے رہے۔ جب ایوب خان نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت انتخابات کرائے تو سردار عطاء اﷲ مینگل مغربی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان رہنماؤں نے ون یونٹ کے خاتمہ اور بلوچستان کو مکمل صوبہ بنانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ کے خاتمہ اور بلوچستان کو مکمل صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں بالغ رائے دہی کی بناء پر پہلے عام انتخابات کرائے۔ نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کی اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری۔ سردار عطاء اﷲ مینگل صوبائی نشست پر کامیاب ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان نے ملک کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا۔ سندھ اور پنجاب سے اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقا علی بھٹو کے قائد جنرل یحییٰ خان کی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی پالیسی کی بھرپور حامی تھے۔
سردار عطاء اﷲ مینگل، غوث بخش بزنجو اور ولی خان نے عوامی لیگ کو فوری طور پر اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور مشرقی پاکستان میں آپریشن کو ملک کی یکجہتی کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ملک کے صدر بنے۔
پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہوئیں مگر صدر ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کے بجائے بلوچستان اسمبلی کے آزاد رکن سردار غوث بخش رئیسانی کو گورنر مقرر کیا جس پر بلوچستان میں سخت احتجاج ہوا۔ جب صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء ختم کر کے عبوری آئین نافذ کیا تو پیپلز پارٹی نے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام سے ایک معاہدہ کیا۔
اس معاہدہ کے تحت بلوچستان کا گورنر غوث بخش بزنجو اور صوبہ سرحد کا گورنر ارباب سکندر خلیل کو مقررکیا گیا۔ نیپ نے سردار عطاء اﷲ مینگل کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔ نیپ نے صوبہ سرحد میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مفتی محمود کی وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر حمایت کی، یوں سردار عطاء اﷲ مینگل کو بلوچستان کا پہلا وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت نے بلوچستان میں ترقی کے نئے دورکا آغاز کیا۔ پہلی دفعہ بلوچستان یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج قائم ہوئے۔ پروفیسر کرار حسین جیسے ترقی پسند استاد کو بلوچستان یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر مقررکیا گیا مگر اسلام آباد میں عراقی سفارت خانہ سے اسلحہ کی برآمدگی اورپیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد شیرپاؤ کے قتل کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ پر پابندی لگادی۔
بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا۔ سردار عطاء اﷲ مینگل اور نیپ کی قیادت کو گرفتار کر کے بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس دوران سردار عطاء اﷲ مینگل کے صاحبزادے اسد مینگل اغواء ہوگئے اور پھر وہ کبھی زندہ نظر نہیں آئے۔ اس آپریشن میں سردار عطاء اﷲ مینگل کے بھائی مہراﷲ مینگل بھی مارے گئے۔ چار سال کے قریب نظربندی کے دوران سردار عطاء اﷲ مینگل پر دل کا دورہ پڑا۔
5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے حکم پر حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا۔ سردار عطاء اﷲ مینگل سمیت تمام رہنما رہا کردیے گئے۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کے اہلکاروں کا خیال تھا کہ سردار عطاء اﷲ مینگل اپنے بیٹے کے قتل کا الزام ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کریں گے مگر سردار عطاء اﷲ مینگل نے کہا کہ صرف میرا بیٹا ہی نہیں بلوچ نوجوان بھی مارے گئے ہیں، کس کس کا شکوہ کروں، مگر طویل جیل کے دوران بلوچستان کی قیادت میں اختلافات پیدا ہوئے۔
میر غوث بخش بزنجو نے نیشنل پارٹی بنائی۔ سردار عطاء اﷲ مینگل اس میں کچھ عرصہ شامل رہے۔ پھر علاج کے لیے لندن چلے گئے۔ لندن میں سردار عطاء اﷲ مینگل نے مزدور کسان پارٹی کے سابق صدر افضل بنگش، سندھ کے ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ کے ساتھ مل کر سندھی، بلوچ، پشتون فرنٹ بنایا، بعد میں اس تجربہ کی ناکامی کے بعد مظلوم قومیتوں کا اتحاد پونم قائم کیا۔ سردار عطاء اﷲ مینگل کئی سال برطانیہ میں گزارنے کے بعد پاکستان آگئے اور بلوچستان نیشنل پارٹی قائم کی مگر پھر انھوں نے سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے بیٹے اختر مینگل کو اپنا سیاسی جانشیں مقررکیا۔
1988 کے عام انتخابات میں میر غوث بخش بزنجو دو نشستوں سے انتخاب ہار گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بزنجو صاحب کی اس شکست کے پیچھے سردار عطاء اﷲ مینگل تھے مگر پھر سردار عطاء اﷲ مینگل نے پاکستان کی وحدت میں سیاست کا نظریہ پیش کیا۔ بلوچستان کے معروف مارکسٹ صحافی عزیز سنگھور نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ سردار عطاء اﷲ مینگل کا ایک بیٹا اختر مینگل پارلیمانی جمہوریت کا علمبردار ہے، دوسرا بیٹا جاوید مینگل مسلح جدوجہد کا حامی ہے۔
سینئر صحافی شاہد حسین لکھتے ہیں کہ 1970میں این ایس ایف کے ایک رہنما نے نیپ کے رہنماؤں کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ عطاء اﷲ مینگل نے اس موقع پر شاہد حسین کو بتایا تھا کہ آپ نے ہمارے علاقہ کی غربت اور پسماندگی کو نہیں دیکھا۔ عطاء اﷲ مینگل نے مزید کہا تھا کہ جب وہ سردار بنے اور دوردراز علاقہ میں اپنے قبیلہ کے لوگوں سے ملنے گئے تو ان لوگوں نے کبھی جیپ نہیں دیکھی تھی۔ انھوں نے جیپ کو جانور سمجھا اور اس کے آگے گھاس ڈال دی۔ شاہد حسین اور کمیونسٹ پارٹی کے دیگر اراکین کو حکومت مخالفت میں پمفلٹ تقسیم کرنے پر 1971میں گرفتار کیا گیا تھا۔
شاہد حسین پر اس وقت تشدد ہوا۔ 1972میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو صدر بھٹو ان کارکنوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سینئر صحافی صدیق بلوچ کا کہنا ہے کہ عطاء اﷲ مینگل نے شاہد حسین اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے مستقل آواز اٹھائی۔ سردار عطاء اﷲ مینگل ساری زندگی بلوچستان کے عوام کے حقوق کے لیے سرکردہ رہے، وہ حقیقتاً بلوچستان کے عوام کی جدوجہد کا استعارہ تھے۔