ڈاکٹر اجمل نیازی بھی چلے گئے: چند یادیں
ماہِ ربیع الاوّل کے مبارک و مسعود ایام میں ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے زندگی کی آخری ہچکی لی ہے تو دل بجھ کررہ گیا ہے۔ چند دن پہلے جب پورا پاکستان جشنِ عید میلاد النبیﷺ منانے کی تیاریاں کررہا تھا، برادرم اجمل نیازی صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے ملنے کی تیاریاں کررہے تھے۔
18اکتوبر 2021ء کو ڈاکٹر صاحب ہم سے جدا ہو گئے۔ اُن سے وابستہ کئی یادوں کے متنوع چراغ جل بجھ رہے ہیں۔ اُن کا سرخ و سپید چہرہ، چہرے پر پھیلی ہمہ گیر مسکراہٹ، گھنی سیاہ ڈاڑھی، سر پر میانوالی طرز کی مخصوص قبائلی کلاہ اور ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہ سراپا محبت تھے لیکن غصے میں بھی جلد آجاتے تھے۔ طیش کے عالم میں اُن کے چہرے کی سرخی بڑھ جاتی تھی۔ ایسے میں اُن کا نیازی خون جوش میں اُبلنے لگتا تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر اجمل نیازی محبت و عشق کے ازلی مسافر تھے تو یہ کہنا بے جا اور بے بنیاد نہیں ہوگا۔ اُن کے ایک دیرینہ اور ہمراز دوست محترم محمد نواز کھرل صاحب، جو ڈاکٹر صاحب کے لاتعداد شاگردوں میں سے ایک معتمد شاگرد ہیں، کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اجمل نیازی ایک معصوم شخص تھے۔ محبت کرنا اُن کی گھٹی میں پڑا تھا۔ وہ سماج، ملک اور سوسائٹی میں، ہر طرف، محبت و امن کے پھول بکھیرنے کے خواب دیکھتے رہتے تھے۔ اُن کی مجالس میں بیٹھنے والا شخص بھی ان کے اِنہی اوصاف کی شہادت دے گا۔ وہ اُٹھے ہیں تو یوں لگا ہے جیسے لاہور کی ادبی، صحافتی اور سیاسی مجالس سے شگفتگی اور شائستگی کا عنصر بھی اُٹھ گیا ہے۔
بنیادی طور پر ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب مرحوم استاد تھے۔ محکمہ تعلیم سے تا مرگ، پنشن کے ساتھ، وابستہ رہے۔ برسوں پنجاب کے معروف کالجوں میں لاتعداد طلباو طالبات میں تعلیم و تربیت کی ارمغان تقسیم کرتے رہے۔ لاہور کے گورنمنٹ کالج ایسے پُر وقار اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے سے بھی کئی برس جُڑے رہے۔
وہ جس کالج میں بھی گئے، اپنے شاگردوں کے محبوب و معشوق بن کر رہے۔ اُن کی بیٹھی ہُوئی آواز میں بھی ایک سحر اور جادو تھا۔ یہ مخصوص آواز اُن کی خاص پہچان بھی بن گئی تھی۔ وہ اپنی شخصیت اور سراپے میں اگر ممتاز تھے تو اپنے افکار اور خیالات میں بھی منفرد تھے۔ تحریر وتقریر کی دُنیا میں بھی انھوں نے محنت، لگن اور کمٹمنٹ سے نام کمایا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر اُن کی آواز فوری طور پر پہچان لی جاتی تھی۔ وہ پی ٹی وی پر بھی کئی ادبی مجالس کے میزبان بن کر بلبل کی طرح چہکے اور کئی نجی ٹی ویز پر بھی انھوں نے اپنے علم اور دانشوری کے متعدد چراغ روشن کیے۔
ایک نجی ٹی وی پر وہ برسوں پنجابی زبان میں پروگرام کرتے رہے۔ کئی بار راقم الحروف کو بھی بطورِ مہمان مدعو کیا۔ وہ کئی بار میرے ٹی وی کے پنجابی ٹاک شو کے مہمان بھی بنے۔ اُن کے پنجابی لہجے پر میانوالی لہجہ غالب تھا۔ اُردو کے استاد تو تھے ہی لیکن پنجابی زبان کی بھی بڑھ چڑھ کر خدمت کی۔ آواز اور تحریر کی دُنیا میں اُن کے چھوڑے گئے نقوش ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
لاہور کی ادبی مجالس اور ادبی تقریبات ڈاکٹر اجمل نیازی کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھیں۔ کتابوں کی رُونمائی کی تقریبات کے بھی وہ رُوحِ رواں رہتے تھے۔ بلکہ ایسی خاص مجالس کے تو وہ دُلہا بنتے تھے۔ سامعین اور منتظمین اُن کی شخصیت اور خیالات سے حظ اُٹھاتے۔ وہ ایک معروف اُردو معاصر کے نمایاں کالم نویس بھی رہے۔
کئی بار متنازع کالم لکھنے کی پاداش میں سرکار دربار کے مغضوب بھی بنے۔ ایک بار تو ایسا ہی ایک کالم لکھنے کے نتیجے میں حکومتِ پنجاب اس قدر اُن سے ناراض ہو گئی تھی کہ اُن کی سرکاری رہائش گاہ چھیننے کی کوشش بھی کی گئی۔ اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کا ایک وفد جو یہ قضیہ ختم کروانے کے لیے پنجاب کے لاٹ صاحب سے ملا تھا، اُس وفد میں راقم بھی شریک تھا۔
خدا خدا کرکے یہ جھگڑا ختم ہُوا اور اجمل نیازی صاحب کو دوبارہ اسی سرکاری رہائش گاہ میں بدستور رہنے کی اجازت مل گئی۔ نیازی صاحب مرحوم کی سرکشی اور کھرے پَن میں مگر کمی نہیں آ سکی تھی۔ اُن کے کالموں کا شایع شدہ مجموعہ یہ سمجھنے میں ہمیشہ معاون رہے گا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی کے سیاست اور ادب بارے کیا اور کیسے خیالات تھے۔
لاہور میں "پی سی آئی اے" نامی تھنک ٹینک کے بینر تلے کبھی سینئر اخبار نویسوں اور دانشوروں کی ایک ہفتہ وار مجلس برپا ہُوا کرتی تھی۔ مال روڈ پر واقع ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ان معرکہ خیز ہفتہ وار مجالس میں بھی ڈاکٹر اجمل نیازی شرکت فرماتے اور اپنی باتوں سے اہلِ مجلس کے دلوں کو گرماتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب نیازی صاحب کا سفر نامہ (مندر میں محراب) شایع ہو کر لاہور کی ادبی مجالس کی زینت بنا تو ہم نے اُن کے اعزاز میں اس کتاب بارے ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔
بھارت بارے اُس روزانھوں نے جو گفتگو کی تھی، وہ کئی لحاظ سے یادگار تھی۔ وہ مدتوں جس روز نامہ سے بطورِ کالم نگار وابستہ رہے، اس اخبار کے مخصوص نظریات و افکار کے سانچے میں اُن کے اپنے خیالات بھی ڈھل گئے تھے۔ بے تکلّف دوستوں کی نجی مجالس میں مگر ایک انوکھا اور مختلف ڈاکٹر اجمل نیازی دیکھنے اور سُننے کو ملتا تھا۔ ایک خاص لَے اور لہر میں آ کر نیازی صاحب بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے تھے۔ یہ لہر مگر ایک خاص حد کو کبھی متجاوز نہیں ہُوئی۔
کالم نگاری نے اُن کی پبلک ریلیشننگ میں بے تحاشہ اضافہ کیا تھا۔ یہ کالم نگاری بعض اوقات ناراضیوں کا سبب بھی بنی۔ لاہور کے ایک وکیل نے اپنی یادوں پر مشتمل ایک متنازع کتاب لکھی تو اس میں ایک سابق صدرِ پاکستان کی ابتدائی سرکاری زندگی کے بعض پہلو بھی بیان کر دیے جو خاصے دلچسپ بھی تھے اور انکشاف خیز بھی۔ راقم نے انھی پہلوؤں کی بنیاد پر ایک کالم لکھا۔ ڈاکٹراجمل نیازی صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے کہ کالم میں اُن کے ممدوح اور (سابق) صدرِ پاکستان بارے واقعات شامل کیے گئے تھے۔ غصے میں نیازی صاحب نے راقم بارے کالم لکھ مارا جس میں سابق صدرِ پاکستان سے منسوب واقعات کی از خود تردید کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جواباً راقم نے دوسرا کالم لکھ دیا اور اس میں وہ واقعات بھی شامل کر دیے جو پہلے کالم میں بوجوہ روک لیے گئے تھے۔ اس پر نیازی صاحب کا مجھے صبح صبح فون آیا اور ہنستے ہُوئے فرمایا: او یار، اساں کیہڑے کم وِچ پے گئے آں؟ اُس شام ہم نے محبت سے اکٹھے کھانا بھی کھایا، کافی بھی پی اور ہوٹل سے نکل کر نئی کتابیں بھی خریدیں۔ اب ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب سے اگلے جہان میں کہیں ملاقات ہو گی۔ مجھے یقین ِ کامل ہے کہ جنت المعلّیٰ میں بھی وہ محبت و عشق کی باتیں کرنے والے کسی گروہ میں بیٹھ کر محبت ہی کی تبلیغ کررہے ہوں گے۔