کیا ’’ریاست مدینہ‘‘ میں ایسا ہوتا ہے؟
میں منگل کی صبح (4 جون) کو یہ سطور سپرد قلم کررہا ہوں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے رات کو شوال کے چاند کی رویت سے متعلق درجنوں شرعی شہادتوں کا دعویٰ کرکے آج عید منانے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں ان کے اور دیگر مقامی علما کے اعلان کے مطابق خیبر پختونخوا کے بیشتر اور قبائلی اضلاع کے پاکستانی عید مناتے تھے لیکن سوات، دیر اور ہزارہ ڈویژن کے لوگ عموماً مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں۔ تاہم اب کی بار وزیراعظم عمران خان کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ محمود خان (جن کا تعلق سوات سے ہے) نے بھی عوام یا پھر مقامی علما کے دباو میں آکر سرکاری سطح پر آج عید منانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف ان ہی عمران خان صاحب کی کابینہ کے رکن اور مذہبی امور کے وزیر پیرزادہ نورالحق قادری صاحب کی وزارت کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج (4جون) طلب کیا گیا ہے۔ تیسری طرف ان ہی نورالحق قادری صاحب کی مسجد واقع لنڈی کوتل میں روزہ مفتی منیب الرحمان کے اعلان سے ایک روز قبل رکھا گیا اور آج وہاں عید بھی ایک روز قبل منائی جا رہی ہے۔ گویا وزیر صاحب نے باقی پاکستان کے لئے اپنی وزارت کے خرچے پر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج طلب کیا ہے لیکن خود اس کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور نہ اس پر عمل۔ معاملہ یہاں تک محدود نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان صاحب کی کابینہ کے ایک اور رکن "مفتی" فواد چوہدری صاحب نے سائنسی بنیادوں پر فتویٰ جاری کیا ہے کہ 3جون کو شوال کا چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں لیکن صرف مفتی شہاب الدین پوپلزئی جیسے مفتیان کرام نے نہیں بلکہ خود عمران خان کی حکومت کے خیبر پختونخوا کے حاکم محمود خان نے مفتی فواد چوہدری کے فتوے کی دھجیاں بکھیر دی۔ لیکن بات صرف یہاں آکر نہیں رکتی بلکہ تماشہ یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سرکاری طور پر روزہ رکھنے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی اسی طرح تقلید کی تھی جس طرح کہ ہر سال صوبائی حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ یوں سرکار کی اتباع کرنے والے سوات، دیر اور ہزارہ ڈویژن یا پھر پورے پختونخوا میں تعینات دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری اور فوجی اہلکاروں نے مرکزی کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ رکھا تھا۔ اب ان لوگوں نے صرف اٹھائیس روزے رکھے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے ان پر عید مسلط کردی۔ اسی طرح پہلے وسطی اضلاع کے لوگ کنفیوژن کے شکار رہتے تھے لیکن اب کی بار تبدیلی سرکار نے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو بھی مخمصے میں ڈال دیاہے وہ اگر صوبائی حکومت کی اتباع کرتے ہیں تو ان کے روزے اٹھائیس ہوں گے اور اگر صوبائی حکومت کی اطاعت نہیں کرتے تو ریاست اور حکومت کے فیصلے سے بغاوت تصور ہوگی۔ ادھر مفتی منیب الرحمان صاحب کا فتویٰ یہ ہے کہ صرف وہ ادارہ فیصلے کا مجاز ہے کہ جس کو ریاست کی طرف سے ذمہ داری تفویض کی گئی ہو۔ اب خیبر پختونخوا کے لوگوں کے لئے یہ شرعی مسئلہ سامنے آگیا ہے کہ ان کے لئے مرکزی حکومت کی تعمیل لازم ہے یا پھر صوبائی حکومت کی کیونکہ دونوں جگہ "ریاست مدینہ" کے نام لیوا عمران خان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ مفتی منیب الرحمان صاحب اور مفتی پوپلزئی صاحب تو ہم جیسے گناہگاروں سے متعلق فتویٰ دینے میں دیر نہیں لگاتے لیکن اب ہم بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ آج دونوں ایک ایک فتویٰ عنایت کر کے اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے مسلمانوں کی رہنمائی ضرور کریں گے۔
ہم تو وہ مظلوم ہیں جو ہر سال ان دو مفتیوں یا پھر دونوں کی اس لڑائی میں روزے کے آغاز پر یا پھر عید کے دنوں میں پس جاتے ہیں لیکن اب کے بار نئے پاکستان والوں نے ہمارا پورا روزہ اس بحث کی نذر کردیا۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ وزارت مذہبی امور اس تنازعے کا حل نکالنے کے لئے قدم اٹھاتی لیکن چونکہ نیا پاکستان ہے جس میں ہر کوئی اپنا کام تو نہیں کرتا لیکن دوسروں کے کام کرنے میں لگا رہتا ہے، اس لئے رمضان کے آغاز میں پیرزادہ نورالحق قادری قبائلی اضلاع کے الیکشن ملتوی کرانے کے لئے درپردہ سازشوں اور جوڑ توڑ میں مصروف رہے تو سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری صاحب نے رویت ہلال کا تنازعہ حل کرنے کے لئے ہجری کیلنڈر تیار کرنے کا بیڑہ اٹھالیا جس کی وجہ سے مفتی منیب الرحمان صاحب کو اپنا منصب خطرے میں نظرآیا اور یوں بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب اگر فواد چوہدری غلط کام کررہے تھے تو وزیر مذہبی امور کو وزیراعظم سے کہہ کر ان کو منع کردینا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ کیلنڈر کی تیاری کے بعد فواد چوہدری نے اسے کابینہ میں بھی پیش کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بھجوا دیا۔ کونسل کے چیرمین قبلہ آیاز صاحب اگرچہ نہایت عالم فاضل اور معتدل سوچ رکھنے والے اسکالر ہیں لیکن شاید انہوں نے مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمان کی ناراضی سے بچنے کے لئے عذر پیش کرکے کونسل کا اجلاس عید سے پہلے طلب ہی نہیں کیا حالانکہ عید کے بعد اس کی ضرورت ہوگی اور نہ فائدہ۔ درمیان میں دو روز قبل خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات نے یہ تجویز بھی دی کہ مفتی منیب الرحمان کی جگہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو کمیٹی کا چیرمین بنا دینا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کس سے مطالبہ کررہے تھے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ کمیٹی کا چیرمین بدلنے کے لئے انہی کے جماعت کے وزیر مذہبی امور کے ایک سیکشن آفیسر کا ایک نوٹیفیکیشن درکار ہے۔ اس پر ناراض ہو کر مفتی منیب الرحمان صاحب نے یہ جواب دیا کہ پختونخوا حکومت بی آر ٹی منصوبہ مفتی پوپلزئی کے حوالے کردیں۔ اب ایک طرف مفتی صاحب تو اپنے جیسے مفتی اور عالم دین کے بارے میں یہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن اگر ہم ان سے التجا کریں کہ انیس سال تک یہ خدمت انجام دینے کے بعد اب وہ ریٹائر ہوکر یہ کام کسی اور عالم دین کے حوالے کردیں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔
نئے پاکستان کی روایت کے مطابق میں انتظار کررہا ہوں کہ فردوس عاشق اعوان کا ابھی تک یہ بیان کیوں نہیں آیا کہ رویت ہلال کا مسئلہ اس لئے حل نہیں ہورہا کیونکہ نواز شریف اور زرداری نے خزانے کو لوٹا ہے لیکن اس ایک معاملے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ "ریاست مدینہ" کی نام لیوا حکومت اگر ایک مذہبی معاملے کے ساتھ یہ سلوک کررہی ہے تو دیگر معاملات سے متعلق اس کا سلوک کیا ہوگا؟ کسی اور سے نہیں بلکہ محترمہ خاتون اول اور پیرزرادہ نورالحق قادری صاحب سے میرا عاجزانہ سوال ہے کہ کیا "ریاست مدینہ" میں مذہبی معاملات کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے؟