زندگی، عادتیں اور ہم (1)
ہماری زندگی ہماری عادتوں کا مجموعہ ہوتی ہے، اچھی عادتوں کو پروان چڑھانا ایک باقاعدہ ریاضت ہے۔ میں بار بار ریاضت کا لفظ اس لیے استعمال کرتی ہو کہ اس ایک لفظ کی تہہ میں مشقت، برداشت اور صبر کے معنی بھی چھپے ہوئے ہیں جن کے نچوڑ سے لفظ ریاضت بنا ہے۔ جب ہم کچھ اچھی عادتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کچھ بری عادتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے، یہ دو طرفہ عمل ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ سحر خیز بھی بننا چاہتے ہوں اور آدھی رات تک سوشل میڈیا پر بھی اپنا وقت برباد کرتے رہیں۔ کسی کامیاب زندگی کا موازنہ کسی ناکام زندگی سے کریں تو بنیادی فرق عادات ہی کا ہو گا۔ ہماری بنیادی عادات ہمارے گھر کے ماحول سے بنتی ہیں۔ گھر کا ماحول بنانے والے والدین ہیں۔ جیسا ماحول بناتے ہیں بچے غیر ارادی طور وہی عادتیں اپناتے ہیں۔ ہمہ وقت آپ کے پاس دو چوائسز ہوتی ہیں۔ مثلا رات دیر تک جاگتے رہنا ہے اور صبح دیر سے اٹھنا ہے یا پھر رات جلد سونا ہے تاکہ صبح سویرے اٹھ سکیں۔ اور دن کابہترین وقت اپنے استعمال میں پاسکیں۔ صحت بخش غذاؤں کو ترجیح دینا ہے یا پھر گھر کے پکے ہوئے کھانے چھوڑ کر برگر، پزے اور باہر سے ہوم ڈلیوری منگوا کر کھانا ہے۔ ہر روز کم از کم آدھا گھنٹہ جسمانی ورزش کرنا یا پھر سستی سے سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کیے جانا اپنے وقت کی قدر کرنا اور طالب علمی کے زمانے سے ہی اپنے پورے دن کو پلان کرنا اپنے کاموں کی فہرست بنانا یا پھر ضروری کاموں کو پس پشت ڈال کر لایعنی کاموں میں اپنا وقت بغیر کسی احساس زیاں کے برباد کرتے رہنا۔ زندگی کو بنانے یا پھر بگاڑنے والی تمام بنیادی عادتیں ہم اپنے گھر کے ماحول سے سیکھتے ہیں۔ آج کل کے نوجوان سبزیاں، اور پھل شوق سے نہیں کھاتے۔
کھانے میں بھی دوچار مخصوص چیزیں پسند کرتے ہیں گو، شت کی بجائے چکن کو ترجیح دیتے ہیں۔ آئے روز فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کی ہوم ڈیلیوری نے ہر شے ان کی رسائی میں کردی ہے۔ میری ایک دوست نے بتایا کہ ان کا پندرہ سالہ بیٹا جب گھر کا کھانا نہیں کھانا چاہتا، برگر اور پیزا کی ہوم ڈیلیوری منگوا کر پیٹ بھرتا ہے۔ روز روز فاسٹ فوڈ کھانے اور سوڈا ڈرنکس پینے سے اس کا وزن بڑھتا جارہا ہے کیونکہ بچے اتنے سست ہوچکے ہیں کوئی جسمانی سرگرمی نہیں کرتے۔ رات گئے دیر تک موبائل سے دل بہلانا اور ویڈیوز دیکھنا بھی ایک نشے کی لت طرح انہیں لگ چکا ہے۔ نتیجہ وہی کہ صبح سویرے اٹھنا محال لگتا ہے۔ ہمارے بیشتر نوجوان اسی طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ طور طریقے صحت کواپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترداف ہیں۔ مین نے ایسے والدین دیکھے ہیں جنہیں اپنے بچوں کے اس غیر صحت مندانہ طرز حیات پر اعتراض تو ہے مگر وہ عملی طور پر انہیں صحت مندانہ طور طریقوں کی طرف لانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے کیونکہ کم وبیش ان کا اپنا طرز زندگی بھی یہی ہے۔ ایک محفل میں بیٹھے تھے تو ایک خاتون کہنے لگیں کہ میری چار سالہ بیٹی تو اتنی نخرے والی ہے، بوتل بھی ٹن پیک والی پیتی ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا چار سال کی بچی کو آپ سوڈا ڈرنکس پینے کو دیتیں ہیں۔ کہنے لگیں کہ ہاں بھئی اپنے بابا پہ گئی ان کا بھی سوڈا ڈرنکس کی بغیر گزارا نہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے دانیال ابھی کلاس ون میں تھا، موسم سرما میں اس کے سکول میں بون فائر ہوا۔ بچوں سے فنڈ لے کر سکول نے سب طالب علموں کے لیے ایک مشہور غیر ملکی پزا چین سے پزا آڈر کیا تھا، اس کے ساتھ سوڈا ڈرنک کی بوتلیں بھی تھیں۔ سارے سکول میں واحد بچہ دانیال تھا جس نے سوڈا ڈرنک کہ جگہ گھر سے لیجایا گیاپانی پیا۔
کیونکہ اسے بچپن سے ہی یہ سکھایا گیاکہ یہ پینا صحت کے لیے اچھا نہیں۔ یہ ایک بات اسے سکھانے کے لیے کئی برسوں کی ریاضت کی گئی۔ بطور والدین ہم نے گھر میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی کہ سوڈا ڈرنکس کم سے کم لائی جائیں۔ سب سے پہلے خود مثال بنے کہ انہیں پینا چھوڑ دیا۔ صحت بخش غذا کھانے کو زندگی کی ترجیح بنایا۔ تب ایک سات سالہ بچہ اتنا سیکھ گیا کہ جب آس پاس سب بچے بھی سوڈا بوتل پی رہے تھے تو اس نے اپنی چوائس سے اسے نہیں پیا۔ یہ منظر اس کی سکول کی پرنسپل نے دیکھا اور اگلے روز مجھے فون کرکے حیرت کا اظہار کیا۔ خود میں بھی بچے کی اس کمٹمنٹ پر بہت حیران ہوئی اور انعام کے طور پر اسے پسندیدہ کھلونا لے کردیا۔ کولین تھامپسن اور ایلن شینلے دو امریکی ماہر غذائیت ہیں۔ ان دونوں خواتین نے مل کے اس اہم اور بنیادی مسئلے پر ایک کتاب لکھی ہے۔ Fuelling the Teen Machineایمازون پر یہ کتاب دستیاب ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ دور جدید کے غیر صحت مندانہ طرززندگی برگر، پزا پوٹیثو فرائز۔ پراسیسڈ میٹ سے بنی ہوئی اشیا، سوڈا ڈرنکس اور رنگ رنگ کے انرجی ڈرنکس آج کل کے ٹین ایجرز کے مدافعتی نظام کو کمزور کرکے ان کی صحت کو تباہ کر رہے ہیں۔ انہی یہ سکھانا ہوگا کہ صحت کی حفاظت کے لیے انہیں کون سی غذائیں کھانی چاہیئں اور کن خطرناک غذاؤں سے پرہیز کرنی چاہئے۔
اگر ٹین ایج ہی میں انہوں نے اپنے جسمانی نظام کی قدرتی مشینری کو ضروری صحت بخش غذاؤں پر مبنی ایندھن نہ دیا تو وہ تو وہ بہت جلد بیماریوں کی دلدل میں دھنس جائیں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں دل کی بیماریاں نوجوانوں میں بڑھ رہی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان میں نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ فاسٹ فوڈ، سوڈا ڈرنکس، انرجی ڈرنکس کا بے تحاشا استعمال ہے۔ اس کے ساتھ ہلکی پھلکی ورزش کا نہ ہونا اور گھنٹوں بیٹھ کر وقت گزارنے کا طرز زندگی ہے، جسےsedentary lifestyleکہا جاتا ہے۔ (جاری ہے)