Tareekhi Traffic Qawaneen Ki Dhoom
تاریخی ٹریفک قوانین کی دھوم

کسی بھی ملک کے ٹریفک قوانین وہاں کے عوام کے رویوں کا پتا دیتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے حالیہ انقلابی اور سخت انتظامی اقدامات بلا شبہ نظم وضبط کی بحالی اور قانون کی بالا دستی کی جانب ایک مضبوط قدم ہیں۔ ان پر عملدرآمد کے لیے نئی فورسز کا قیام اور فوری نوعیت کی اصلاحات پنجاب حکومت کے عزم کا اظہارہے کہ حکومت تیزرفتار اصلاحات سے حکومتی نظام کو ایک نئی سمت دینے کی خواہاں ہے۔ جو قابل تحسین و ستائش ہے۔ اب ٹریفک قوانیں کا آڑڈننس یقیناََ ٹریفک کے معاملات میں بہتری لانے کا باعث بنے گا۔
اس سے قبل ناجائز تجاوزات، ناجائز قبضوں اور ماحولیات کے بارئے میں قوانین کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور حکومت پنجاب نے شہری علاقوں کی گلیوں، محلوں اور گھروں میں مال مویشی رکھنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ مویشی صرف شہر سے باہر مخصوص مقامات پر رکھے جائیں گے۔ پلاسٹک کے شاپرز پر پابندی بھی لگا دی گئی ہے۔ یہ اقدام اور اس قانون پر عملدرآمد یقیناََ شہرکی صفائی اور ماحول کی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا۔ درحقیقت سڑکوں اور خصوصی شہروں کی مصروف شاہراہوں پر بڑھتا ہوا ٹریفک کا بے ہنگم رش اور پھیلتی گندگی کا ڈھیر اس بات کا متقاضی تھا کہ ٹریفک اور ماحولیات کے قوانین زیادہ سخت کئے جائیں اور ان پر عملدرآمد بھی ممکن بنایا جائے۔ تاکہ سڑکوں پر بےہنگم ٹریفک کو کنٹرول کیا جاسکے۔
جی ہاں پنجاب کے محکمہ قانون نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے نئے قانون کا آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے مطابق تیز رفتاری پر موٹرسائیکل کو 2 ہزار، کار کو 5 ہزار جرمانہ ہوگا، ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر موٹرسائیکل کو 2 ہزار اور تھری ویلر کو 3 ہزار روپے جرمانہ ہوگا، سگنل کی خلاف ورزی پر کار کو 5 ہزار، 2 ہزار سی سی گاڑیوں کو 10 ہزار روپے جرمانہ ہوگا، سگنل کی خلاف ورزی پر 2 ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں کو 15 ہزار جرمانہ ہوگا اوورلوڈنگ پر تھری ویلر کو 3 ہزار اور 2 ہزار سی سی سے کم گاڑیوں کو 5 ہزار روپے جرمانہ ہوگا، اوور لوڈنگ پر 2 ہزار سی سی سے بڑی گاڑیوں کو 10 ہزار اور ٹریلر کو اوور لوڈنگ پر 15 ہزار روپے جرمانہ ہوگا، دھواں چھوڑتی موٹرسائیکل کو 2 ہزار، تھری ویلر کو 3 ہزار اور پبلک ٹرانسپورٹ کو 15 ہزار روپےجرمانہ ہوگا، بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ گاڑی چلانے پر ایک لاکھ روپےتک جرمانہ اور جیل ہوگی، اوور اسپیڈنگ پر جرمانے میں 300 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔
ون وے کی خلاف ورزی پر 6 ماہ قید یا 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوگا، کم عمر ڈرائیونگ کی سزا دگنی ہوگی اور والدین بھی ذمہ دار ہوں گے، پیلی نمبر پلیٹ یا جعلی نمبر پلیٹ پر سخت سزائیں ہوں گی، دوبارہ خلاف ورزی پر اضافی جرمانہ کیا جائےگا، نان اسٹینڈرڈ شیشوں پر 6 ماہ تک قید کی سزا ہوگی، گاڑی کی رجسٹریشن، دستاویزات ساتھ نہ رکھنے پر بھی سخت کارروائی ہوگی، چالان دستاویز کی ٹکٹنگ اب مکمل طور پر الیکٹرانک ہوگی، گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے والے کے لیے بھی بیلٹ لگانا لازمی قرار، دیا گیا ہے۔
یقیناََ یہ آرڈیننس بڑے سوچ بچار اور ہم آہنگی سے منظور کیا گیا ہوگا اور اس کے اچھے اثرات محسوس بھی کئے جائیں گے۔ اسکے ساتھ ساتھ "قانون سب کے لیے برابر ہے" کے فارمولے کو بھی مدنظر رکھا گیا ہوگا۔ قانون کی بالا دستی تبھی ممکن ہے جب اس کا نفاذ پوری قوم پر یکساں ہو اور بلاتفریق قانون لاگو ہو سکے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارئے علاقے میں شوگر ملز کو گنا سپلائی کرنے والے ٹرالے اور ٹریکٹر ٹرالیاں سب سے زیادہ حادثات کا سبب بنتی ہیں اور لوڈنگ کی باعث سڑکوں پر الٹ جانا ان کا معمول ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام بھی ہو جاتا ہے اس مسئلے کا حل یقیناََ ان بڑے جرمانوں سے ہی ممکن ہوگا۔
دوسری جانب شہر میں داخلے کے لیے بھاری ٹریفک کے اوقات پر سختی سے عمل کرانے کی ضرورت ہوگی۔ خصوصی پبلک ٹرانسپورٹ کو دن کے وقت کسی بھی گنجان آباد شہری علاقے کی بجاے ٔ رنگ روڈ کو استعمال کرنا چاہیے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا شہری علاقوں سے گزرنا بہاولپور میں خصوصی جیل روڈ پر آئے دن بے شمار حادثات کا باعث بن رہا ہے۔ یہ قوانین عوامی سہولت کے ساتھ ساتھ پولیس اور انتظامی اداروں کے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہیں جنہیں اپنے فرائض کی ادائیگی سے یہ تاثر قائم کرنا ہوگا کہ یہ قوانین صرف غریب اور عام آدمی کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اشرافیہ بھی ان پر عملدرآمد کی پابند ہے۔
ایف آئی آر اور قید جیسی سخت سزا اور بھاری جرمانے تب ہی نتائج دئے سکتے ہیں جب بڑی ا ور بااثر اشرافیہ بھی ان قوانین کی پابندی کرئے۔ گو قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے لیکن ایک تجویذ یہ بھی قابل غور ہے کہ چھوٹی اور غریب کے استعمال کی سواری پر جرمانے کم اور بڑی بڑی گاڑیوں پر زیادہ ہوتے تو بہتر ہوتا۔ ٹوکن ٹیکس، ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کی رجسٹر یشن کو شناختی کارڈ کے ذریعے ڈیجیٹل طریقے سے دیکھاچیک کیا جائے۔ سفری دستاویزات میں صرف شناختی کارڈ کا ہونا کافی ہو سکتا ہے۔
ٹریفک کے یہ قوانین جہاں ایک جانب حکومتی عزم کا اظہارہیں تو دوسری جانب عوام کے لیے سہولت اور حفاظت کی ضمانت بھی ہیں۔ لیکن بہتر ہوتا کہ کریک ڈاون سے قبل عوام کو ان کے بارئے میں چند دن قبل ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر مکمل آگاہی اور ذہنی تیاری فراہم کی جاتی تاکہ عام آدمی خصوصی دیہات سے آنے والے لوگ بےخبری کے باعث پریشانی یا غیر ضروری بھاری جرمانوں اور مقدمات کا شکار نہ بنتے۔
گو پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے میڈیا پر پیغامات نشر ہو رہے ہیں لیکن یہ کروڑوں لوگوں کے لیے بظاہر کافی نظر نہیں آتے کیونکہ کسی بھی ریاستی اصلاح کا پہلا اصول یہی ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے سے قبل اسےعوامی شعور تک پہنچایا جائے۔ ان قوانین کی تعریف اور خراج تحسین اپنی جگہ بہت ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اصلاح اور تعمیری تنقید کی گنجائش بھی برقرار رہنی چاہیے تاکہ بہتری ہوتی رہے۔
قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب حکومتی اقدامات کو نہ صرف سراہا جاے بلکہ ان میں بہتری کا دروازہ بھی کھلا رکھا جائے، تاکہ تبدیلی خوف سے نہیں بلکہ تعاون کے ماحول میں پروان چڑھے۔ جب تک ان قوانین اور تازہ ترین ضابطوں کی تفصیلات عام آدمی تک نہیں پہنچتیں تو وہ بےگناہی کے باوجود پریشانی، جرمانوں یا غیر ضروری سختیوں کا سامنا کرتا ہے۔ قانون ہمیشہ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ رقم ہر وقت لوگوں کی جیب میں موجود نہیں ہوتی اس لیے جرمانے کی صورت میں اتنا وقت ضرور دیا جائے کہ وہ ادائیگی کے اس رقم کا بندوبست کر سکے۔
ہمارا معاشرہ شدید غربت کا شکار ہے۔ ایسے میں بچوں کو اسکول یا کالج جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی ابھی تک میسر نہیں ہے اور اب چنگ چی رکشہ کی بندش ہماری گھریلو خواتین اور بچوں کی تکالیف اور اخراجات میں مزید اضافہ کرئے گی۔ لوڈرز موٹر سایکل رکشہ کا متبادلہ ڈھونڈنا ہوگا جو تنگ اور پتلی گلیوں تک رسائی ممکن بنا سکے۔ اس لیے ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ بچوں کی عمر اٹھارہ سال کی بجائے سولہ سال مقرر کئے جانے پر غور کیا جائے۔
گاڑی پر نیم پلیٹ یا اپنی شناخت پلیٹ کا رجحان بڑھ رہا ہے بیشتر گاڑیوں پر پولیس اور لوگوں پر رعب ڈالنے کے لیے "پولیس، پریس، ایڈوکیٹ، ڈاکٹر، ایم این ائے، ایم پی ائے اور ناظم یا چیرمین" یا کسی بھی عہدئے کی نیم پلیٹ آویزاں نظر آتی ہے جو ہمارئے وی آئی پی سسٹم کی عکاسی کرتی ہے۔ ان پلیٹوں کے خاتمے کے لیے بھی ٹریفک قوانین لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کو مہذب اور ذمہ دار قوموں کی نشانی کہا جاتا ہے۔ اس لیے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے بچیں اور دی گئی ہدایات پر ضرور عمل کریں۔ امید ہے کہ ہمارئے ادارئے غریب اور امیر سب سے یکساں رویہ اور سلوک رکھتے ہوئے بہتر نتائج دے سکیں گے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر ٹریفک کے ان نئے قوانین سے آگاہی کی مہم بھی ساتھ ساتھ جاری رکھنی چاہیے جس کے لیے میڈیا، سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مدارس، مسجد ومنبر سے بھی ہدایت اور افادیت کے بارئے میں معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔ تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت تما م احتیاطی تدابیر کرلی جائیں۔

