Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Gumshuda

Gumshuda

گمشدہ

"کب سے کال نہیں کی؟"

سوال اتنے اکھڑ انداز میں کیا گیا تھا کہ کنول کی سسکیاں اندر ہی گھٹ کر رہ گئیں۔ اس نے بند ہوتے گلے سے بمشکل آواز نکالی تھی۔

"چھ مہینے۔۔ بلکہ شائد آٹھ مہینوں سے۔۔"

"او بی بی۔۔ بار بار بیان کیوں بدل رہی ہو؟ کبھی چھ کبھی آٹھ۔۔ ایک بات بتاؤ"۔

وہ چشمے کے اوپر سے اس کوگھور رہا تھا۔ کنول نے کانپتی انگلیوں پر حساب لگایا۔

"چھ مہینے سے۔۔"

اب وہ سر جھکائے ایک رف پیڈ پر کچھ اندراج کر رہا تھا۔ کنول کا دھیان بار بار دروازے کی طرف جا رہا تھا جہاں سے اس کی سال بھر کی بچی کے غوں غاں کی آوازیں آ رہی تھیں۔

"ٹھیک ہے بی بی۔۔ رپورٹ لکھ لی ہے۔۔ ابھی گھر جاؤ اور انتظار کرو۔۔۔ آگے چھ آٹھ ماہ تک اطلاع نہ آئے تو پھر آنا۔۔"

کنول اپنا کلیجہ تھام کر رہ گئی۔

"سر۔۔ چھ آٹھ ماہ اور انتظار۔۔ مگر میں اکیلی عورت۔۔ تین بچوں کے ساتھ۔۔ کیسے؟"

کنول کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے وہ روز نجانے کتنی آنکھوں کو یوں بہتا دیکھتا تھا۔ اس کے لئے تو یہ روز کا معمول تھا۔

"بی بی۔۔ بندہ ملک سے باہر بھیجنے سے پہلے سوچنا تھا ناں۔۔ ابھی جا کر وہ سیٹ ہوگا۔۔ کام وام ڈھونڈے گا۔۔ سال ڈیڑھ سال تو لگ جاتا ہے۔۔ پھر وہاں نجانے کیا پیش آیا ہو۔۔ مگر یہ کوئی نہیں سوچتا۔۔ بس بندہ باہر بھیج دو اور دوسرے دن سے وہ نوٹ بھیجنے لگے گا۔۔ او۔۔ عقل کو ہاتھ مارو۔۔ تم عورتوں نے ہی مت ماری ہوئی ہے۔۔"

ایک زرا سی بات پر اس نے کنول کو وہ جھاڑ پلائی کہ وہ سر جھکائے وہاں سے نکل آئی۔ باہر پڑوسن آپا ثریا فائزہ کو گود میں لئے بیٹھی تھیں۔ کنول کو روتا دیکھ کر تسلی دینے لگیں۔

"حوصلہ کرو۔۔ کنول۔۔ اللہ بہتر کرے گا۔۔"

مگر کنول کا حوصلہ تو انسانی حقوق کے محکمہ کے اہلکار کی درشتگی نے ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے شہر کی کم پڑھی لکھی عورت تھی نہیں جانتی تھی کہ شوہر کی گمشدگی کی رپورٹ کہاں کرے پھر ثریا آپ کے شوہر نے ہی صلاح دی تھی۔

"ہمارے شہر میں جو انسانی حقوق کا دفتر ہے وہا ں جا کر دیکھو۔۔ کیا خبر کوئی بات بن جائے۔۔"

وہ بڑی امیدیں لے کر اس انسانی حقوق کے دفتر میں اپنے شوہر ندیم کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے یہاں آئی تھی۔ جیسے کوئی مظلوم کسی طاقتور کے در پر فریادی بن کر جاتا ہے مگر یہاں نہ کوئی حرف تسلی ملا نہ۔۔ دست شفقت۔

***

کنول ایک غریب گھرانے کی بیٹی تھی جس کی شادی مزید غریب گھر کے بیٹے حارث سے ہوئی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت باپ کی غربت تو برداشت کر لیتی ہے مگر شوہر کی غربت برداشت نہیں کر پاتی۔ کنول بھی حارث کی غربت برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ پھر تلے اوپر بچوں کو پیدائش نے اخراجات بھی بے انتہا بڑھا دیئے تھے۔ ایک وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی تھی اور اگلے وقت کی فکر جان کو چمٹ جاتی تھی۔ گھر بھی کرائے کا تھا۔ پلک جھپکتے مہینہ ختم ہو جاتا تھا۔

"حارث کچھ کرو۔۔ ایسا کیسے چلے گا۔۔ ابھی تو یہ تو دونوں چھوٹے ہیں اور اب اس تیسرے کی خبر۔۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔"

کنول اپنی جسمانی کمزوری اور بچوں کی محرومیاں جھیل جھیل کر ٹوٹ چکی تھی۔ حارث بھی کیا کرتا۔ انٹر پاس نوجوان کو کہیں ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی اور اتنی تھوڑی سی تعلیم کے بعد وہ مزدوری جوگا بھی نہیں رہتا۔

"کیا کروں۔۔ اپنی سی پوری کوشش کر رہا ہوں۔۔ ایک دکان پر سیلز مین کے لئے ضرورت ہے۔۔ کل وہاں بھی چلا جاؤں گا۔۔ ابھی صبح کا گیا 7 بجے آتا ہوں۔۔ پھر بارہ بجے آ جاؤں گا۔۔"

اس کے لہجے کی تھکن سے کنول کا دل دکھنے لگا۔

زندگی اتنی سخت کیوں ہے۔ شادی سے پہلے بھی غربت تھی مگر فکریں نہیں تھیں ماں باپ روکھا سوکھا کھلا ہی رہے تھے مگر اب تو اپنی جان سے زیادہ معصوم بچوں کی بھوک کی فکر ہلکان کرتی تھی۔ شادی کے مہینے بھر بعد ہی بڑی بیٹی کی خوشخبری مل گئی تھی۔ پہلا پہل بچہ تھا تھوڑی دیکھ بھال آؤ بھگت ہوگئی مگر سوا مہینے بعد سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ہاتھ رکھتا بھی کون؟ سب ان کے ہی جیسے تھے۔۔ غربت کے کولہو کے بیل۔۔ اب کنول اور حارث تھے اور غربت تھی۔۔ بڑی بیٹی کے سال بھر بعد بیٹا اور اب سال بھر بعد یہ تیسرے کی خبر۔۔ اس کی جان پریشان تھی۔۔ نہ ڈھنگ کا کھانا نصیب ہوا نہ کپڑا۔۔ کوئی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہور رہا ہے تو کوئی نصیبوں میں جنم جنم کی بھوک لے کر آ رہا ہے۔۔

کنول خود ہی سوچوں کے گرداب میں اترتی اور پھر خود ہی توبہ کرتی باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مارتی۔ اس نے حارث کا بوجھ بانٹنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کی مگر اتنی کم تعلیم اور ایک چھوٹے بچوں کے ساتھ وہ بھلا کیا کر سکتی تھی۔ کبھی گھر میں تھیلیاں بناتی تو کبھی پرچون کے مصالحے پیک کرنے لگتی۔۔ زندگی سڑک پر پڑی کسی معذور بھکارن کی طرح سسک سسک کر سرک سرک کر آگے بڑھ رہی تھی۔

ایسے میں جب حارث نے دبئی جانے کی کوشش شروع کی تو کنول کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ خوش زیادہ ہے یا پریشان۔

"حارث میں اکیلی۔۔ تین بچوں کے ساتھ۔۔ کیسے رہوں گی۔۔"

سب سے چھوٹی بچی ابھی تین چار ماہ ہی تو تھی۔

"اکیلی کیوں ہوگی۔۔ یہ پاس پڑوس۔۔ میرے بھائی بہن۔۔ تمہارے بھائی بہن۔۔ سب ہو ں گے۔۔ کنول ابھی مت روکنا۔۔ بس کچھ مت کہنا۔۔ میں یہ موقع نہیں گنوانا چاہتا۔۔"

حارث بہت پر جوش تھا

"لیکن باہر جانے کے لئے تو بہت پیسے چاہئے۔۔ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟"

کنول کی فکریں کم نہیں ہو رہی تھیں۔

"جو بندہ بھیج رہا ہے۔۔ سب خرچہ بھی وہ ہی کرے گا۔۔ بعد میں وہاں ہر ماہ تنخواہ سے کٹتے رہیں گے۔۔"

حارث مطمئن تھا

"اور یہاں۔۔ گھر کا خرچہ۔۔ وہ کیسے چلے گا؟"

کنول کے خدشات بھی بے بنیاد نہ تھے۔

"جو بندہ بھیج رہا ہے وہ تھوڑے پیسے ایڈوانس بھی دے رہا ہے۔۔ پھر تمہارا تھوڑا بہت زیور بھی ہے اگر خدا نخواستہ کوئی ایمرجنسی ہو تو اس کو بیچ دینا۔۔ ماہ، دو ماہ اس طرح سے خرچہ چلانا۔۔ پھر میں بھیجنے لگوں گا۔۔"

حارث نے اپنے طور پر تو سارے آنکڑے فٹ بٹھا رکھے تھے مگر کنول کے دل پر نجانے کیوں گھبراہٹ سوار تھی۔ حارث نے کنول کو اس شخص سے بھی ملوایا جس کے توسط سے وہ دبئی جا رہا تھا۔

"تم میری بہن ہو۔۔ فکر نہ کرو۔۔ یہ اب میری ذمہ داری ہے۔۔ بس دو ماہ کا ٹائم دینا۔۔ میں گارنٹی دیتا ہوں دو ماہ میں یہ پیسے بھیجنے لگے گا۔۔"

اس نے کنول کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا لیکن اب تو چھ ماہ گزر چکے تھے۔ نہ حارث کا کوئی پتہ تھا نہ اس شخص کا۔۔ حارث کے بھائیوں کے مقدور بھر بھاگ دوڑ کی مگر وہ بھی روز کے دہاڑی دار تھے۔ بھائی کو ڈھونڈنے نکلتے تو پیچھے بچے بھوکے رہ جاتے۔ بس دو چار دن کی ہمدردی اور پھر اپنی اپنی مصروفیت۔

کنول کے لئے ہردن قیامت اور ہر رات پہاڑ تھی۔

وہ رات بھر خوف سے لرزتی بچوں کے سرہانے بیٹھی رہتی۔

ہر دن ایک آس لے کر پیدا ہوتا۔۔ شائد آج کوئی خبر آئے۔۔

ہر دستک پر بھاگتی۔۔ شائد ڈاکیہ خط لایا ہو۔۔

مگر ایک لامتناہی اندھیرا تھا۔ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔

"اب کیا ہوگا؟"

وہ یہ سوال بار بار پوچھتی۔۔ کبھی اپنی بہن سے۔۔ کبھی ماں سے۔۔ کبھی پڑوسن سے تو کبھی خود سے۔۔ سب کا ایک ہی جواب تھا

خاموشی اور اس خاموشی میں چھپے جواب سے وہ بہت دن نظریں چرا نہ سکی۔

مالک مکان نے بھی چھ ماہ تو صبر کیا اور ایک دن اپنے صبر کی قیمت مانگ لی۔

"جب تک چاہو رہو۔۔ مہینے کا سامان بھی ڈلوا دوں گا۔۔ بس میرا خیال رکھنا۔۔ کبھی کبھی آجایا کروں گا۔۔ تمہارے پاس۔۔"

کنول کسی خوفزدہ ہرنی کی طرح پتھر کی ہوچکی تھی۔

زندگی کا یہ روپ تو اس نے دیکھا ہی نہ تھا۔

اگلے دن تھیلی کا آخری پاپا اور چائے کا آخری گھونٹ بچوں کو دینے کے بعد ان وہ اس سوال کے جواب سے روبرو ہو ہی گئی۔

"میں ہی کچھ کروں گی۔۔ خوداپنی عزت کی ڈھال بنوں گی۔ اور اپنے بچوں کو بھی بھوکا نہیں مرنے دوں گی۔۔"

***

ایک طویل جدو جہد کا آغاز سے اس ایک قدم سے ہوتا ہے جو پہلا قدم کہلاتا ہے۔ کنول کا پہلا قدم بھی ایسا اٹھا کہ واپسی کی کوئی راہ نہ بچی۔

"کیا کرو گی؟"

اس کی ماں نے نم آنکھوں سے اپنی بد نصیب بیٹی کو دیکھا تھا۔

"کسی کے گھر لگوا دو۔۔ جھاڑو برتن سب کر لوں گی۔۔"

کنول کو اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کیا کام ہے اس کو بس پیسے چاہئے تھے۔

"گھر گھر کام کرنا اتنا آسان نہیں ہے کنول۔۔ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔۔ تم جوان ہو۔۔ خوش شکل ہو۔۔ عزت بچانی مشکل پڑ جائے گی۔۔ اکیلی اور کمزورعورت سب سے آسان شکار ہوتی ہے۔۔"

ماں کا دل ڈر رہا تھا۔

"جہاں اپنے بچوں کی جان بچانے کی بات آئے وہاں اکیلی اور کمزور عورت سب کچھ کر سکتی ہے۔۔"

ماں کا دل ہر خوف سے آزاد ہو چکا تھا۔

"گھر گھر کام کرنے سے بہتر ہے کسی گارمنٹس فیکٹری میں لگ جاؤ۔۔ تنخواہ بھی اچھی ملے گی اور ہنر بھی ہاتھ آئے گا۔۔"

ماں نے صلاح دی اور یوں کنول معاش کے اس گرداب میں کود پڑی۔ ننھے ننھے بچے کچھ دن تو ماں کی یاد میں تڑپے مگر نانی کی ممتا نے انھیں شانت کر دیا۔ جلد ہی سمجھ گئے کہ اب ماں کی صورت شام ڈھلے ہی نظر آئے گی۔ باپ کی شکل تو انہیں یاد بھی نہ تھی۔

***

وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ حارث کی پھر کوئی خبر نہ ملی۔ اچھی زندگی کی تلاش میں پردیس جانے والے آنکھوں میں صرف کامیابیوں کے خواب سجا کر جاتے ہیں۔ مگر ہر خواب کی تعبیر اچھی نہیں ہوتی کچھ خواب بڑی بھانک تعبیریں لے کر آتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے والے لوگ ایک ایسے جال میں جا پھنستے ہیں جس سے فرار ممکن نہیں۔ پیچھے رہ جانے والے جانکنی کی اذیت جھیلتے رہتے ہیں۔

کنول نے بھی کئی سال ہر سانس کے ساتھ حارث کے لوٹ آنے کی دعا کی۔ مگر ہر گزرتا دن اس کو باور کرواتا گیا کہ زندگی اب تنہا ہی گزاری ہوگی۔ بچوں کی پرورش کا بوجھ خود ہی اٹھانا ہوگا۔ رفتہ رفتہ اس کو بھی صبر آ ہی گیا۔ اس نے کچھ وقت ماں کے گھر میں گزارے مگر جب دل اور آنگن تنگ پڑنے لگے تو میکے کے قریب ہی ایک کمرے کا گھر کرائے پر حاصل کر لیا۔ بچے بھی اب بڑے ہو چکے تھے۔ نانی کے بغیر ہی دن گزار لیتے۔ بڑی بیٹی تو ویسے بھی گھر کی دوسری ماں ہوتی ہے۔ اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھال لیا تھا۔ وہ صبح بچوں کو اسکول بھیج کر نکل جاتی۔ اسکول کی چھٹی پر اس کی بڑی بیٹی سامعہ چھوٹے بہن بھائی کو گھر کر آجاتی۔ زندگی اپنی ڈگر پر واپس چڑھ چکی تھی۔

کنول کی ماں نے سچ ہی کہا تھا اکیلی عورت سب سے آسان شکار ہے۔ جب تک ماں زندہ رہی تب تک بھائیوں نے بھی خبر گیری رکھی مگر ماں کے بعد تو جیسے وہ سچ میں لاوارث ہوگئی۔ بس ایک بے نام سا آسرا تھا کہ بھائی قریب ہی رہتا ہے۔

روز صبح گھر سے نکلنے سے پہلے اس کو اپنی روح کے ہر دھاگے کو پھر سے سینا پڑتا تھا۔

محلے سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ تک اور فیکٹری کے چوکیدار سے لے مینجر تک۔۔ اس معاشرے کے مردوں کی گندی نظریں۔۔

رکیک جملے۔۔ غلیظ لمس۔۔

کیا کچھ نہ سہا مگر اپنے بچوں کی خاطر وہ مضبوطی سے کھڑی رہی۔۔ شام ہوتے ہوتے اس کی روح کی چادر پھر تار تار ہوجاتی جسے وہ رات بھر اپنے ادھوری نیندوں اور بے کل کروٹوں کے بیچ سیتی تھی۔۔ مگر اس ادھیٹر بُن میں وہ یہ بھول گئی کہ عزت کی چادر تو بیٹیوں کی بھی ہے۔

***

"امی۔۔"

اس دن کنول گھر جلدی لوٹ آئی تھی۔

تو دونوں چھوٹے بچے کمرے کے پاس سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ ماں کو دیکھتے ہی روتے ہوئے اس کی جانب دوڑے۔

"کیا ہوا؟ باہر کیوں بیٹھے ہو؟ سامعہ کہاں ہے؟"

اس کی نظریں اپنی بڑی بیٹی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔

بچوں کی نظریں بے ساختہ کمرے کی طرف اٹھ گئیں۔

"اندر۔۔ اندر کون ہے؟"

کنول کے پیروں تلے زمین سی سرکنے لگی۔ وہ تیزی سے اندر بھاگی۔

اس کا اپنا بھتیجا سامعہ کو اپنے نہایت قریب بٹھائے موبائل میں کچھ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ آٹھ سالہ سامعہ شانے پر رکھے اس کے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی مگر گرفت سخت تھی۔

"تت۔۔ تم۔۔ تم کیا کر رہے ہو یہاں؟"

اچانک افتاد سے وہ بھی گھبرا گیا۔ فون ہاتھ سے چھوٹ کر کنول کے قدموں میں گرا اور اس میں چلنے والے ویڈیو نے کنول کو آب آب کر دیا۔"وہ۔۔ میں۔۔ میں۔۔ پھوپھی۔۔"

وہ تیزی سے فون کی طرف جھپٹا اور چیل کی تیزی سے باہر بھاگا۔

سامعہ روتی ہوئی ماں کے سینے سے جا لگی۔

"سامعہ۔۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔"

عمر بھر کی مشقت نے اتنا نہیں تھکایا جتنا اپنے سگے خونی رشتے نے ریزہ ریزہ کیا تھا۔

***

اب کیا ہوگا۔۔

پھر سے وہی سوال

پھر سے وہی خاموشی

اب تو وہ اپنا حالِ دل بھی کسی نہیں کہہ سکتی تھی۔

دامن اٹھا کر دکھاتی تو اپنا ہی پیٹ ننگا ہو جاتا۔

مگر کرے تو کیا کرے

بچیوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کے کیسے نکلے؟

گھر سے نہ نکلے تو زندہ کیسے رہے؟

عزت کی زندگی کا مطلب فاقے کی موت تھا۔ مگر کنول کے لئے عزت زندگی سے زیادہ قیمتی تھی۔

***

"اب میں گھر سے اپنا کام شروع کروں گی۔۔ کچھ سرمایہ میرے پاس ہے۔۔ باقی کپڑا وغیرہ ادھار اٹھا لوں گی۔۔ مگر اب میں اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔ یہ دنیا درندوں کی دنیا ہے۔۔ جو غلطی ان بچوں کے باپ نے کی۔۔ وہ ہی میں بھی کر رہی تھی۔۔ ان کا باپ انھیں اچھی زندگی دینے کی چاہ میں پردیس میں گم ہوگیا۔۔ دو وقت کی روٹی کمانے کی فکر میں ان کی ماں بھی چھوٹ گئی تھی۔۔ مگر اب میں نے سوچ لیا ہے۔۔ اب اور نہیں۔۔"سفر کا آغاز پھر سے کرنا تھا۔۔ آخری سانس تک جدو جہد کرنی ہے۔۔ کل تک کنول کو غیروں سے اپنی عزت بچانی تھی اور آج اپنے خونی رشتوں سے اپنی بیٹیوں کی۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam