Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

دلِ انسانی ایک معمولی گوشت کا لوتھڑا ہے مگر اس میں پوشیدہ دردوں کا ایک سمندر ہے جو لہروں کی طرح اٹھتا اور گرتا رہتا ہے میرزا غالب نے اپنی مشہور غزل میں پوچھا تھا دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ یہ سوال صدیوں سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں گونجتا چلا آ رہا ہے۔ دل تو بس ایک جسمانی عضو ہے لیکن جب محبت کی آگ اسے چھو لیتی ہے تو یہ ہزاروں دردوں کا گھر بن جاتا ہے۔ جدائی کا کرب، بے وفائی کا زہر اور انجانے میں ملنے والے زخم یہ سب اس ناداں دل کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ آج ہم اسی موضوع پر غور کریں گے جہاں لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور قیس کی دیوانگی کی مثالیں سامنے آتی ہیں اور دیکھیں گے کہ اس درد کی دوا کیا ہو سکتی ہے۔

دل کو ناداں کیوں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عقل کی بات نہیں مانتا۔ عقل کہتی ہے کہ محبت ایک خطرناک کھیل ہے مگر دل اسے کھیلنے پر آمادہ رہتا ہے۔ جب کوئی شخص محبت میں پڑتا ہے تو دل کی دھڑکنیں بدل جاتی ہیں یہ خوشی کا منبع بنتا ہے مگر جب جدائی آتی ہے تو وہی دل درد کا ایک طوفان اٹھا دیتا ہے۔ جدائی کا درد ایسا ہے جو راتوں کی نیند چھین لیتا ہے دن کا چین اڑا دیتا ہے۔ کسی کی بے وفائی تو دل کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتی ہے وہ اعتماد جو سالوں میں بنا تھا ایک لمحے میں ٹوٹ جاتا ہے اور پھر وہ انجانے زخم؟ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو جان بوجھ کر نہیں کہی گئیں مگر دل پر گہرے نشان چھوڑ جاتی ہیں یہ درد کیوں اتنا شدید ہوتا ہے کیونکہ دل گوشت کا لوتھڑا نہیں بلکہ جذبات کا مرکز ہے۔ نفسیات کے مطابق محبت ہارمونز جیسے ڈوپامین اور آکسی ٹوسن کو متحرک کرتی ہے جو خوشی دیتے ہیں مگر جدائی انہیں ختم کرکے افسردگی کا شکار بنا دیتی ہے۔

محبت کے درد کی بات ہو اور لیلیٰ مجنوں کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ قیس بن الملوح جو مجنوں کہلاتا ہے لیلیٰ کی محبت میں اس قدر دیوانہ ہوا کہ وہ بیابانوں میں بھٹکتا پھرتا رہا اس کی دیوانگی ایسی تھی کہ وہ اپنی پہچان تک بھول گیا عرب کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ محبت کا درد انسان کو پاگل بنا سکتا ہے۔ اسی طرح شیریں اور فرہاد کی داستان ایران سے آتی ہے۔ فرہاد نے شیریں کی محبت میں پہاڑ کاٹنے کی ٹھانی، مگر بے وفائی (یا سازش) نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا یہ کہانی محبت کی قربانی اور درد کی شدت کو ظاہر کرتی ہے اور قیس کا زہرہ میں دیوانہ وار پھرنا یہ بھی مجنوں کی ہی ایک شکل ہے جہاں محبت کا شکار شخص دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ یہ کہانیاں صرف افسانے نہیں بلکہ انسانی نفسیات کی عکاسی ہیں ادب میں ایسے ہزاروں کردار ملتے ہیں جو دل کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں غالب کا یہ شعر اسی درد کو بیان کرتا ہے دل ناداں ہے، جو محبت کی آگ میں جلتا ہے مگر سیکھتا نہیں جدید دور میں بھی، فلموں، گانوں اور ناولوں میں یہ تھیم بار بار آتا ہے مثال کے طور پر بالی ووڈ کے گانے دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے میں یہ درد موسیقی کی شکل میں ابھرتا ہے۔

درد کی دوا: کیا ممکن ہے اب سوال یہ ہے کہ اس درد کی دوا کیا ہے غالب نے خود کہا ہے کہ آخر اس درد کی دوا کیا ہے مگر جواب کیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وقت سب زخم بھر دیتا ہے۔ واقعی وقت ایک بہترین طبیب ہے جدائی کے بعد دل آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا ہے نئی امیدوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ دوسری دوا ہے خود شناسی دل کو سمجھنا کہ یہ ناداں ہے، مگر اسے عقل سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مراقبہ یوگا یا تھراپی جیسی چیزیں درد کو کم کر سکتی ہیں مگر سب سے بڑی دوا ہے نئی محبت، جی ہاں ایک نئی محبت پرانی جدائی کے زخم بھر سکتی ہے لیکن احتیاط ضروری ہے کیونکہ دل ناداں ہے یہ دوبارہ وہی غلطی دہرا سکتا ہے۔

مذہبی نقطہ نظر سے اللہ کی محبت دل کے تمام دردوں کی دوا ہے۔ یہ ابدی ہے بے وفائی سے پاک صوفیوں نے یہی کہا ہے کہ دنیاوی محبت ایک پل کی ہے۔ الہی محبت ہمیشہ کی دل کی سنو، مگر عقل سے چلو دل ناداں ہے مگر اس کے درد ہمیں زندہ رکھتے ہیں بغیر درد کے محبت کا مزہ کیا۔ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد جیسی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ محبت ایک سفر ہے جس میں خوشی اور درد دونوں شامل ہیں اگر دل درد میں مبتلا ہے تو اسے محسوس کرو مگر اسے ہمیشہ کے لیے قیدی مت بناؤ دوا ہے وقت خود شناسی اور شاید ایک نئی شروعات۔

غالب کا شعر آج بھی سچ ہے۔ دل کو سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ اس میں ہزاروں درد چھپے ہیں مگر ہزاروں خوشیاں بھی۔ دل عجیب چیز ہے گوشت کا ایک لوتھڑا سہی مگر اس میں کائنات کی پوری لائبریری بند ہے دردوں کی یادوں کی خواہشوں کی اور اُن بے نام حسرتوں کی جو کبھی زبان تک نہیں آتیں۔

انسان جب کسی چوٹ پر کراہتا ہے تو وہ زخم جسم پر نہیں دل پر ہوتا ہے اور دل کا زخم بدن کے زخم سے کہیں زیادہ گہرا کہیں زیادہ دیرپا اور کہیں زیادہ بے آواز ہوتا ہے۔ دل نادان اکثر خود ہی سوال کرتا ہے تجھے ہوا کیا ہے مگر یہ سوال پوچھنے والا بھی دل جواب دینے والا بھی دل اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ دل کی دوا کبھی کسی شخص میں ملتی ہے کبھی کسی خواب میں، کبھی کسی دعا میں اور کبھی یہی احساس دوا بن جاتا ہے کہ دل جتنا ٹوٹتا ہے اتنا ہی وسیع ہوتا جاتا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz