ہم میں سے لوگ

میں تین عشروں سے زائد کے صحافتی تجربے، بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے، ان کی مجبوریاں اور مفادات جاننے کے بعد اس پر مکمل قائل ہوں کہ حقیقی دھڑے بندی تاجروں، وکیلوں، سیاستدانوں، صحافیوں یا ڈاکٹروں سمیت پیشہ ور لوگوں کی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں، ارائیوں، جٹوں یا بلوچوں وغیرہ کی ہوتی ہے، اول الذکر تو پیشے ہیں، روزی روٹی کمانے کے طریقے اور موخر الذکر نسلیں یا وہ علاقے جن میں ہم نے جنم لیا، پلے بڑھے۔
اصل دھڑے دو ہی ہیں اور وہ ہیں اچھے او ر برے لوگوں کے دھڑے، نیک اور بد لوگوں کی جماعتیں، محب وطن اور غدار شہریوں کی تنظیمیں، اپنے رب کے شکر گزار اور ناشکروں کے گروہ اور یہ سب میں موجود ہیں۔ ڈاکٹروں، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں، تاجروں اور بیورو کریٹوں میں بھی دونوں ہیں اور پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں، پٹھانوں کے ساتھ ساتھ ارائیوں، جٹوں، مہاجروں میں بھی۔ سب سے اہم یہ ہے کہ امیروں اور غریبوں میں بھی یہی دو دھڑے ہیں، امیروں میں بھی اچھے لوگ موجود ہیں اور غریبوں میں بھی برے۔
امیروں میں نمازیں پڑھنے اور زکواتیں، صدقاتیں دینے والے بھی بہت ہیں اور انہی کی وجہ سے ہم ریکارڈ تعداد میں این جی اوز یا دیگر فلاحی تنظیمیں چلا رہے ہیں ا ور غریبوں میں بھی ایسے بہت سارے ہیں جو اپنی بہنوں کے دو، دو اور تین، تین مرلے تک ہضم کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نیٹ فلیکس پر دلی، بھارت کے مشہور زمانہ بس ریپ کیس پر ویب سیریز دلی کرائم فائلز دیکھ رہا تھا، کیا ایک عورت کو بدترین جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنانے والے انہی کے طبقے سے نہیں تھے؟
ابھی ایک جج صاحب کے بیٹے کی گاڑی کے نیچے آ کے دو لڑکیاں کچلی گئیں اور اسی طرح دو برس پہلے لاہور کے ڈیفنس میں ایک ٹین ایجر نے پوری کی پوری فیملی کو کچل کے مار دیا تھا اوراس پر بہت زیادہ شور مچا۔ میں اس کا قائل ہوں کہ جب ظلم اور زیادتی ہو، قانون شکنی ہو تو معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو ضرور جاگنا چاہئے، اسے شور مچانا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم ا ن ڈمپروں سے ہونے والی اموات پر بھی اسی طرح شور مچاتے ہیں، یا وحشیانہ طور پر چلائی گئی بسوں، ویگنوں اور ٹرکوں کے نیچے آکے مرجانے والوں کے لئے کیونکہ حادثہ تو حادثہ ہی ہوتا ہے اور موت بھی موت ہی ہوتی ہے چاہے وہ کسی پجارو کے نیچے آ کے ہوجائے یا کسی ڈمپر یا بس کے۔
سڑک پر کچل کے مرجانے والے کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اسے کسی امیر نے نیچے دے کے مارا ہے یا کسی غریب نے۔ سو جب میں ویگنوں اور بسوں کے ڈرائیوروں کو سڑکوں پر ریسیں لگاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے وہ اتنے ہی برے لگتے ہیں جتنے کہ تیز لینڈ کروزریں بھگاتے ہوئے امیر و کبیر۔ دونوں کوحادثے کا خوف نہیں ہوتا۔ دونوں کی رگوں میں خون تھپیڑے مار رہا ہوتا ہے۔ دونوں ہی خود کو قانون سے بالاتر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں ہی برے ہوتے ہیں اور معاشرے کے لئے ضرر رساں مگر دوسری طرف وہ امیر بھی اتنا ہی اچھا ہے جو رات کو بارہ بجے بھی اپنی قیمتی گاڑی ریڈ سگنل دیکھ کر روک لیتا ہے اور وہ غریب بھی اتنا ہی برا ہے جو دن دیہاڑے موٹرسائیکل کو بغیر نمبر پلیٹ کے نکالتا ہے اور سگنل توڑ کے دوسروں کو بریکیں لگانے پر مجبور کر دیتا ہے یا کسی کو ٹکر مار دیتا ہے۔
کیا کہا، امیر چوری کرتے ہیں اور غریب نہیں کرتے۔ میں نے ابھی ایک ماہ پہلے ریلیز ہونے والی فلم جولی ایل ایل بی تھری دیکھی۔ یہ تصور بہت پرانا ہوچکا کہ ہر صنعتکار، ہر سیاستدان اور ہر بیوروکریٹ چور ہے مگر بہرحال یہ فلموں اور تقریروں میں بکتا ضرور ہے۔ ا یسا نہ ہوتا تو ہماری تاریخ کا سب سے نااہل اور سب سے کرپٹ سیاستدان اپنے کلٹ سے خود کوزانی اور چور ہونے کے باوجود صادق اور امین ڈیکلیئر نہ کروا رہا ہوتا۔ میرا اب تک کا تجربہ اور مشاہدہ یہ رہا ہے کہ دیانتدار آدمی امیر ہو یا غریب وہ دیانتدار ہی رہتا ہے اور بددیانت آدمی دونوں طبقوں میں بددیانت۔
یہ درست کہ غریب بددیانت کی پہنچ ہی اتنی ہوتی ہے کہ وہ مجھ سے بہترین سیبوں کے پیسے لے کر گلے ہوئے سیبوں کا شاپر پکڑا دیتا ہے یادودھ میں پانی ملا دیتا ہے یا مرچوں میں اینٹوں کا برادہ جبکہ امیر آدمی کی پہنچ زیادہ بڑی کرپشن اور لوٹ مار تک ہوتی ہے مگر ہوتے دونوں ہی ایک جیسے، ایک ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے یعنی برے اور گندے، معاشرے کا گند۔ اپنے فیصلے میں رشوت لے کر تبدیلی کرنے والا جج بھی وہی کچھ ہے جو دودھ میں پانی ملانے والا گوالا ہے۔ مجھے پنجاب حکومت کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں شرکت کی دعوت ملی اور اس کا ایجنڈا تھا بیوروکریسی کی اصلاحات۔ اس میں، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کوتجویز پیش کی گئی کہ اعلیٰ بیوروکریسی میں کرپشن کے خاتمے کے لئے اس کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کر دیا جائے، اس سے وہ کرپشن نہیں کریں گے، وزیراعلیٰ پنجاب نے جواب دیا کہ کرپشن کا کمائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پچیس سے پچاس ہزار کمانے والا بھی ایماندار ہوسکتا ہے اور پچیس سے پچاس لاکھ کمانے والا بھی کرپٹ۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ماتحت عدلیہ کی تنخواہوں میں اسی لیے خاطر خواہ اضافہ کیا کہ وہاں سے کرپشن اور رشوت ختم ہو مگر ایک فیصد بھی بہتر ی نہ آئی۔ یقینی طور پر کرپٹ ہونے کا تعلق کمائی سے نہیں ہے، دولت سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق رنگ، نسل اور علاقے سے بھی نہیں ہے کیونکہ میں ایک ہی باپ کے ایک بیٹے کو نیک اور دوسرے کو بد دیکھا ہے۔ تو سوال ہے کہ پھر یہ کیا ہے تو اس کا جواب ہے کہ کچھ والدین کی تربیت ہے مگر اچھی فطرت اللہ رب العزت کی عطا ہے اور جہاں زیادہ لوگ اچھے ہوجاتے ہیں وہ معاشرہ ہی اچھا ہوتا ہے۔
بات ہے ہم میں سے، ہونے کی تو مجھے بتانے میں عار نہیں کہ میں نے ہم میں سے، صحافیوں کو مالکان بنے دیکھا، ان میں کچھ ایسے تھے کہ ان کے سامنے کھڑا نہیں ہوا جا سکتا تھااور ایسے تھے کہ جو خود کروڑوں کما رہے تھے مگر ان کے دفاتر میں تنخواہوں اور کام کا ماحول بہت برا تھا۔ دوسری طرف ان کے ساتھ بھی کام کیاجو ہم میں سے، نہیں تھے یعنی ارب پتی تھے مگر ان کے اداروں میں کارپوریٹ کلچر تھا، محنت اور نتائج کی قدر تھی اور ہے، جی ہاں، کوئی ادارہ، کوئی گروہ یا کوئی جماعت بحیثیت مجموعی نہ فرشتوں کی ہے نہ شیطانوں کی، بس دیکھنا یہ ہے کہ اخلاق والے کون ہیں، شرم والے کون ہیں، حیا والے کون ہیں۔
وہ کون ہیں جو اللہ رب العزت سے ڈرتے ہیں، بدگوئی نہیں کرتے، حلال کا اہتمام کرتے ہیں، ہاں، وہ سب ایک ہیں اور وہی ایک دوسرے کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہم میں سے ہیں چاہے وہ جج ہوں یا جرنیل، صنعتکار ہوں یا بیوروکریٹ، بڑے ارب پتی ہوں یا بہت تھوڑی اجرت والے مزدور، کلرک، سیکورٹی گارڈ۔

