The Royal Circus
دی رائل سرکس

مکیش امبانی کا شمار نا صرف بھارت بلکہ دنیا کے چند امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ پچھلے سال یعنی 2024ء کے جولائی کے مہینے میں مکیش امبانی کے بیٹے آنند امبانی کی شادی تھی۔ یہ شادی دو ماہ تک بھارت کے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائی رہی اور اخبارات کی ذینت بنی رہی۔ بھارت میں جب بھی کوئی سوشل میڈیا چلاتا تو سامنے امبانی کے بیٹے کی شادی میں بالی دوڈ اداکارائیں ڈانس کرتی اور اداکار شادی میں ویٹر بنے گھومتے نظر آتے۔ شادی میں مارک زکر برگ کا آنند کی گھڑی کی تعریف کرنا، جیف بیزوس کی آمد اور ہالی ووڈ اداکاراؤں کی مہمانوں کے ساتھ رقص و سرور کی محفلیں، یہ سب اور اس طرح کی دوسری چھوٹی سے چھوٹی با تیں میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہی، ناصرف رپورٹ بلکہ پورے کے پورے کے پورے نیوز چینلز کے پرائم شو شادی کے مینو Menu پر کیے جاتے رہے اور حد تو یہ کہ لوگ بھی ان میں حد سے بڑھ کر دلچسپی لیتے رہے۔
جب امبانی کے بیٹے کی شادی میڈیا پر چھائی ہوئی تھی۔ تب وہی دوسری طرف بھارت کے صوبے اتر پردیش کے ایک مندر میں بھگدڑ مچنے سے 121 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اُسی دوران آسام، ارونا چل پردیش اور کیرالہ میں اتنے بھیانک طوفان آئے کہ تین لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا۔ اتر پردیش ہی میں ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں 18 افراد مارے گئے۔ مغربی بنگال میں ایک ٹرین حادثے میں 15 افراد نے اپنی جانیں گنوا ئی مگر یہ سب میڈیا میں کبھی رپورٹ ہوا ہی نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی تو بس ایک سرسری سی خبر کے طور پر۔
اس صورتحال کو Political Science میں "The Royal Circus" کہتے ہیں، اردو میں آپ اسے اپنی آسانی کیلئے "شاہی/سیاسی شعبدہ بازی" کہہ سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے ممالک میں موجود شاہی اور امیر کبیر خاندانوں سے ان کی ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت، ٹیکس چوری اور عوام پر کیے جانے والے مظالم کی وجہ سے بھر پور نفرت کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہاں کی عوام ان امیر اور شاہی خاندانوں کے لوگوں کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں حد سے زیادہ دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ شاہی خاندان کے لوگوں کے معاشقے، ان کی شادیاں اور طلاقوں جیسے موضوعات ہمیشہ سے ہی عام عوام کیلئے ایک خاص کشش رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
چونکہ عوام ان خاندانوں میں خاص دلچسپی رکھتی ہے اس لیے ان ممالک کی حکومتیں بھی عوام کی توجہ اصل مسائل ہٹانے کیلئے اس طرح کی مصنوعی شاہی سرکس میں عوام کو مشغول رکھتی ہے۔ آنند امبانی کی شادی کی تقریبات جہاں تین دن میں ختم ہوجانی چاہیئے تھی وہی انہیں کھینچ کر شیطان کی آنت کی طرح لمبا کرکے دو مہینے تک طویل کر دیا گیا جبکہ اسی دوران بھارت میں کتنے ہی انسانیت سوز واقعات ہوئے کہ جنھیں میڈیا نے یکسر نظر انداز کردیا۔
صرف میڈیا ہی نہیں شاہی خاندان کے لوگ بھی عوام کو اس رائل سرکس میں مصروف رکھنے کیلئے حکومتوں کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی واضح مثال 2017ء میں بر طانیہ میں آنے والے "نیشنل ہیلتھ سیکورٹی" یعنی NHS کا بحران تھا۔ اس بحران کی وجہ سے برطانیہ میں ہسپتالوں کو فنڈز جبکہ ڈاکٹرز اور دوسرے پیرا میڈیکل سٹاف کو تنخواہیں نہیں مل رہی تھی۔ مریضوں کو کئی کئی دنوں اور بعض اوقات ہفتوں تک علاج کیلئے انتظار کرنا پڑ رہاتھا حتٰی کہ کئی لوگ اس دوران اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس بحران کی وجہ سے لوگوں کے درمیان حکومت کیلئے بہت زیادہ غصہ اور نفرت بڑھ رہی تھی۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔
اس بحران کو برطانیہ کی تاریخ کا صحت کے حوالے سے بدترین بحران قرار دیا جارہا تھا، لوگوں میں غصہ آخری حدوں کو چھو رہا تھا کہ تبھی ایک خبر آتی ہے کہ "شاہی خاندان میں ایک نیا وارث آنیوالا ہے"۔ Royal Baby is Coming کے نام سے آنے والی اس خبر کے بعد یک دم سے سارے میڈیا پر شاہی خاندان اور بچے کی پیدائش کے حوالے سے خبریں چلنے لگی۔ جو میڈیا پہلے نیشنل ہیلتھ سیکورٹی کی کوریج کررہا تھا اب وہی میڈیا 24 گھنٹے شاہی خاندان کے حوالے سے خبریں نشر کرنے لگا۔ عوام نے بھی توقع کے عین مطابق ان خبروں میں دلچسپی دکھانی شروع کردی اور یوں نیشنل ہیلتھ سیکورٹی والا مدعا کہیں خبروں میں کھو کر رہ گیا۔
یہ واقعہ رائل سرکس کا بہترین نمونہ تھا۔ کیوں؟ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں بچے کی پیدائش کا ایک لمبا پراسس ہوتا ہے۔ دنیا میں آنے سے پہلے نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔ شاہی خاندان اور حکومت کو بھی یقیناً یہ خبر کافی عرصے پہلے معلوم ہوگی مگر حکومتیں اور شاہی خاندان ایسی خبروں کو خاص موقعوں کیلئے چھپاکر رکھتے ہیں۔ جب عوام کا دھیان اصل مسائل سے ہٹانا مقصود ہو تو پھر ایسی خبریں بریکنگ نیوز بنا کر چلوائی جاتی ہے اور یوں عوام اپنے مسائل بھول کر غیر ضروری خبروں میں دلچسپی لینا شروع کردیتے ہیں۔
رائل سرکس کے علاوہ بھی حکومتیں عوام کو دھوکہ دینے اور ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے کوئی نا کوئی ایسا مدعا ضرور اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں جنہیں وہ وقت پڑنے پر حسب ضرورت استعمال کرسکیں۔ بھارت میں یہ مدعے مندر مسجد، ہندو مسلم اور پاکستان دشمنی ہے، بی جے پی جب چاہے ان مدعوں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دے سکتی ہے اور اپوزیشن کو چاروں شانے چِت کرسکتی ہے۔ حالیہ صوبہ بہار کے الیکشن میں مودی نے کلین سویپ کیا۔ راہول گاندی نے الیکشن سے پہلے اور بعد میں ثبوتوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ مودی ووٹ چوری میں ملوث ہے۔ مودی کے پاس چونکہ ان ثبوتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اس لیے اُس نے عوام کی توجہ بھٹکانے کیلئے اپنے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو لانچ کیا۔ راج ناتھ سنگھ نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور میڈیا کے سامنے آتے ہی پاکستان کے صوبہ سندھ کو بھارت میں شامل کرنے کا بیان داغ دیا۔
اب یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارتی میڈیا مودی کی جیب میں ہے۔ اسلئے پورے بھارتی میڈیا نے راج ناتھ کے اس بیوقوفانہ بیان کو لیکر پیالی میں طوفان برپا کرکے ایک مصنوعی میڈیا ہائپ تخلیق کردی۔ اس سے ووٹ چوری والا مدعا چند دنوں کیلئے منطر نامے سے ہٹ گیا۔ کچھ دنوں بعد راج ناتھ سنگھ کے بیان پر پاکستان نے بھی جواب دے دیا اور یوں بھارتی میڈیا کو مسلسل دو ہفتے تک اپنی عوام کو گمراہ کرنے کا مواد ہاتھ آگیا۔ دو ہفتے بعد پھر سے کوئی نیا بیان، پھر سے میڈیا کی وہی بے فضول کوریج اور ہائپ اور یوں ووٹ چوری کا مدعا اپنی موت آپ مر جائے گا۔
پاکستان کا مسئلہ اِن سب سے تھوڑا مختلف ہے۔ پاکستان میں چونکہ نا تو کوئی شاہی خاندان ہے، نا کوئی پراپر فلم اندسٹری اور ناہی انٹرٹینمٹ۔ بس لے دے کر ایک مذہب ہی ہے جسے ہر بار توڑ مروڑ کر حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے اپنے فائدے اور عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے استعمال کرتی آئی ہے۔ چاہے وہ ضیاء الحق کا الیکشن ہو، 80 کی دہائی میں طالبان کو بنانا ہو یا پھر بعد میں انہیں ختم کرنا ہو، سب میں مذہب کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
پہلے انہیں اپنے فائدے کیلئے مجاہدین اور اب فتنہ خوارج پکارا جاتا ہے۔ خیر یہ سب تو ماضی کی باتیں ہے مذہب کو استعمال کرنے کی تازہ مثال بھی ملاحضہ فرمائے۔۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سیاسی نظام اپنی آخری سانسیں گِن رہا ہے۔ لوگ موجودہ سیٹ آپ سے شدید ناراض ہے۔ وجہ صرف ایک کہ عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا اور اُن کے ووٹوں کو عزت نہیں دی جاتی۔
ان سب مسائل کو حل کرنے اور عوام کی رائے کا احترام کرنے کی بجائے اب ایک نیا شوشہ مارکیٹ میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ شوشہ ملاحضہ کریں، بقول آفتاب اقبال "پاکستان میں ایک نیا نظام آنے والا ہے۔ نئے نظام کو اللہ کا بھیجا ہوا ایک شخص لیڈ کرے گا۔ چونکہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا، اس لیے اسے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کا تعلق بنو ہاشم سے ہوگا"۔
یعنی اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں کہ آیا عوام اس نئے نظام کو قبول بھی کریں گے یا نہیں۔ اگر ووٹ سے نہیں تو پھر نئے آنیوالے سپریم کمانڈر کو منتخب کیسے کیا جائے گا؟ اس نظام میں عوام کیلئے کیاکچھ ہے؟ سب سے اہم بات یہ پتا کیسے چلے گا کہ آیا وہ شخص واقعی اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہے یا نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ان سب باتوں کا جواب کبھی نہیں دیا جائے گا۔ ویسے بھی عوام کی کیا اوقات کہ انہیں اعتماد میں لیا جائے۔ یہ سب سوال ثانوی باتیں ہےبس ضروری یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوگا۔ اب وہ سپریم کمانڈر کون ہوگا، مجھے نہیں معلوم۔ اگر آپ کو معلوم پڑے تو مجھے بھی اطلاع کیجیئے گا۔

