Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Live-In Relationship

Live-In Relationship

لیوو-ان ریلیشن شپ

18+ تحریر

رات گہری تھی۔ اسلام آباد کے ایک اپارٹمنٹ کی بالکونی میں زرد بلب ٹمٹما رہا تھا اور کمرے کے اندر دو وجود خاموش بیٹھے تھے۔ ایک لڑکی اپنے کپ میں چمچ ہلا رہی تھی جبکہ دوسری جانب بیٹھا لڑکا انگلیوں میں سگریٹ سلگائے ایک لمبا کش لیتے ہوئے اپنا فون دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ دونوں کے درمیان ایسی بےتکلفی، ایسا آرام اور ایسی قربت تھی جو عام طور پر صرف میاں بیوی میں نظر آتی ہے مگر ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہوا تھا۔ ایسا رہنے کو لیوو-ان ریلیشن شپ کہا جاتا ہے جس میں ازدواجی تعلقات سمیت سب کچھ میاں بیوی والا ہوتا ہے مگر وہ درحقیقت میاں بیوی نہیں ہوتے۔

پاکستان میں "Live-in Relationship" کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ عالمی معاشرتی یلغار ہمارے گھروں کی دہلیز پھلانگ چکی ہے۔ موبائل اسکرین پر نیٹ فلیکس کی چمک ہو یا انسٹاگرام کے خواب ناک فریم۔۔ فیس بک ریلیز ہوں یا یوٹیوب ویڈیوز۔۔ نئی نسل کے ذہنوں میں رہنے کی خواہشیں بدل رہی ہیں۔ یہاں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آیا یہ تبدیلی اچھی ہے یا بری، دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ اس اخلاق باختہ رشتے کا بوجھ اٹھانے کے قابل یا نہیں۔ آئیں اس پر کھل کر بات کرتے ہیں۔

پاکستانی قانون اس معاملے میں عجیب سا جھرجھرا سا، مبہم سا رویہ اختیار کرتا ہے۔

ملک میں Live-in Relationship کو نہ تو قانونی تحفظ حاصل ہے، نہ اسے واضح طور پر جرم قرار دیا گیا ہے مگر اس مبہم خلا میں بہت سے مسائل چھپے ہوتے ہیں: مثال کے طور پاکستانی قانون کے مطابق ایسا تعلق زنا کے زمرے میں آسکتا ہے، خصوصاً جب کوئی فریق اسے عدالت میں چیلنج کر دے۔ ایسے تعلق میں رہنے والی عورت کے لیے وراثت، حقِ مہر، نان نفقہ، رہائش، بچوں کی قانونی حیثیت جیسے بنیادی معاملات مکمل خلا میں گر جاتے ہیں جبکہ ایسا رشتہ رکھنے والا مرد ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستانی معاشرہ اور ہمارا خاندانی نظام کسی بھی صورت یہ تعلق برداشت کرنے کے لیے معاشرتی بنیادیں ہی نہیں رکھتا۔

کسی عدالت میں ایسے جوڑے کو "میاں بیوی" کا درجہ نہیں مل سکتا اور کسی خاندان میں انہیں "رشتہ" نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسی چھت ہے جس کے ستون موجود نہیں۔

معاشرتی طور پر Live-in کا رجحان اب بھی انتہائی محدود ہے مگر یہ انکار بھی ممکن نہیں کہ شہروں میں، ہاسٹلز میں، پرائیویٹ اپارٹمنٹس میں یہ عمل موجود ہے۔ یہ تعلق پیشگی کوئی تحفظ نہیں دیتا: نہ عزت کا، نہ رشتے کا، نہ مستقبل کا۔

اہم مسئلہ یہ نہیں کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں بگاڑ چاہتے ہیں۔۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سمجھانے والا، سننے والا، محبت سے راستہ بتانے والا کوئی نہیں۔ ہم نے گھروں میں گفتگو کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ہم نے بچوں سے دوستی کا رشتہ توڑ دیا ہے۔ ہم نے سوال پوچھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ پھر حیرانی کس بات کی کہ وہ جواب سوشل میڈیا سے تلاش کرتے ہیں؟ اب یہاں اسے انھیں کیا جواب ملے گا یہ آپ خود سمجھدار ہیں۔

اب محبت کے ایک اہم پہلو پر بات کرتے ہیں۔ پورا نظام کائنات کسی نہ کسی ضابطے کے تحت چل رہا ہے۔ کیا محبت کو بھی قاعدہ چاہیے یا نہیں؟ اسلام نکاح کو محض ایک مذہبی عمل نہیں بلکہ سماجی، اخلاقی اور قانونی معاہدہ قرار دیتا ہے جبکہ لیوو-ان ریلیشن شپ میں نہ ذمہ داری ہے، نہ حق ہے، نہ ضمانت، نہ بندھن، نہ شریعت میں کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی ہماری اخلاقیات میں۔

یہ ایک ایسا سفر ہے جو بغیر نقشے کے شروع ہوتا ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ اگر محبت میں سچائی ہے تو اسے ایک مقدس معاہدے میں بدل دو اور اگر محبت میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ نکاح کی دہلیز پار کر سکے تو پھر یہ محبت نہیں بلکہ صرف اور صرف دو جسموں کا ایک کھیل ہے، ایک عارضی مسافت ہے جسے وقت پی جاتا ہے۔ لیوو-ان ریلیشن شپ کے حامی افراد سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ کیا وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ انکی بیٹی، بہن یا قریبی عزیزہ لیوو-ان ریلیشن شپ کو ایڈاپٹ کرے؟

لیوو-ان ریلیشن شپ دراصل صرف ایک علامت ہے اس بات کی کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیاں تنہا ہیں، الجھے ہوئے ہیں اور اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ یہ محبت کا مسئلہ نہیں، یہ کنیکشن کا مسئلہ ہے، یہ اعتماد کا مسئلہ ہے۔ یہ گھر کے اندر بات نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ یہ وقت شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینے کا نہیں ہے۔ ہم جتنا اس رجحان سے آنکھیں چُرائیں گے، یہ اتنی ہی تیزی سے اندر سرایت کرے گا۔ بات "پابندی" کی نہیں۔۔ بات سمجھانے، سہارا دینے اور راستہ دکھانے کی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ سکولوں اور کالجوں میں اپنی معاشرتی اقدار کے مطابق ریلیشن شپ ایجوکیشن دیں، عدالتوں میں نئی سماجی پیچیدگیوں کے مطابق رہنمائی کی جائے، خاندانوں میں مکالمہ اور اعتماد کی فضا پیدا کی جائے، نوجوانوں کی ذہنی صحت پر سنجیدہ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

آخری بات، لیوو-ان ریلیشن شپ ایک ایسی کھڑکی ہے۔۔ جسے باہر کی دنیا سے آنے والی ہوا نے کھول دیا ہے لیکن ہمارے گھروں کی بنیادیں اس کھڑکی کے طوفان جھیلنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔

سوال یہ نہیں کہ نوجوان غلط کر رہے ہیں یا صحیح، سوال یہ ہے کہ ہم نے انہیں صحیح راستہ دکھانے کے لیے کیا کیا ہے؟ اگر ہم نے اپنی نسل کے ساتھ مکالمہ نہ کیا، اگر ہم نے ان کے دلوں تک راستہ نہ بنایا، تو پھر کل خدانخواستہ ہماری آنے والی نسلیں لیوو-ان ریلیشن شپ کو نارملائز کر چکی ہونگی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan