Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar Naqeeb Khan
  4. J Dot Ka Nara

J Dot Ka Nara

جے ڈاٹ کا ناڑا

میں کالج فرسٹ ایئر میں تھا اور وہ میرے ساتھ ہی پڑھتی تھی۔ پہلی ہی صبح جب وہ کلاس میں داخل ہوئی تو کھڑکی کے شیشوں پر گری دھوپ جیسے رک گئی۔ اس کی غزال آنکھوں میں عجیب سی خاموش گہرائی تھی، جیسے کسی پرانی کہانی کا دروازہ کھلنے والا ہو۔ میں نے صرف ایک لمحے کو اسے دیکھا تھا، مگر وہ لمحہ میری پوری جوانی پر بھاری پڑ گیا۔

کلاس چلتی رہی، استاد آتے جاتے رہے، کتابیں کھلتی بند ہوتی رہیں، مگر میری توجہ بس اس ایک چہرے کے گرد گھومتی رہی۔ وہ جب نوٹ بک آگے کرتی تو اس کی مہک ہوا میں بکھر جاتی۔ وہ جب ہنستی تو دور کہیں کالج کے پرانے درختوں پر بیٹھے پرندے بھی چونک جاتے۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ خود اپنے حسن سے بے خبر ہے، یا شاید وہ جانتی تھی لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔

ایک دن وہ لائبریری میں بیٹھی تھی۔ اس کی انگلیوں کے بیچ ایک ناول کھلا ہوا تھا اور بالوں کی ایک بکھری ہوئی لٹ بار بار اس کے ماتھے پر آ رہی تھی۔ میں نے ہمت کرکے آہستہ سے وہ لٹ پیچھے نہیں کی مگر خواہش کی شدت میری انگلیوں تک دوڑ آئی تھی۔ میں بس کتابوں کی میز کے دوسری طرف کھڑا رہا، جیسے کوئی خاموش اعتراف کرنے والا مجرم۔

"آپ یہاں بیٹھیں گے؟" اس نے پہلی بار مجھ سے بات کی۔ آواز نرم تھی، مگر پوری دنیا کو توڑ کر میرے دل تک پہنچی۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور وہ پہلی نشست تھی جہاں دو لوگ نہیں بیٹھے تھے، دو کہانیاں آمنے سامنے آئی تھیں۔

پھر ہم روز ملنے لگے۔ کبھی چائے والے ٹھیلے پر، کبھی لائبریری کے سنجیدہ کمروں میں، کبھی کلاس سے نکل کر لمبے راہداریوں میں۔ اس کی باتوں میں سادگی تھی، مگر دل میں بارش کی خوشبو۔ جب وہ خاموش ہوتی تو لگتا تھا پوری دنیا رک گئی ہے۔

ایک شام جب بارش ہو رہی تھی، ہم چھت پر کھڑے کالج گراؤنڈ کو بھیگتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اس نے آہستہ سے کہا، "پتا ہے؟ مجھے لوگ سمجھ نہیں پاتے"۔ میں نے دل ہی دل میں کہا اور میں تمہیں پڑھ رہا ہوں جیسے کوئی آخری کتاب مگر زبان سے صرف اتنا نکلا، "کوشش کروں گا کہ میں کبھی تمہیں نہ کھو دوں"۔

وہ مسکرائی اور بارش کی بوندیں اس کے رخسار پر موتی بن کر ٹپکنے لگیں۔ اس لمحے میں نے پہلی بار جانا کہ محبت کوئی اعلان نہیں ہوتی، محبت تو وہ لمس ہے جو کہا بھی نہ جائے مگر سمجھ آ جائے۔ ہم دونوں نے کچھ نہیں کہا، مگر سب کچھ کہہ دیا۔

محبت کبھی مکمل کہانی نہیں بنتی، مگر خوبصورت لمحوں کا خزانہ ضرور چھوڑ جاتی ہے۔ میرا خزانہ وہی غزال آنکھیں تھیں، وہی نیم مسکراہٹ، وہی بارش کی شام اور وہ پہلی نظر جس نے مجھے کالج کے ایک عام لڑکے سے ایک عاشق بنا دیا۔

پھر میں نے پوری ہمت جمع کرکے اظہار محبت کر دیا۔ وہ ہتھے سے اکھڑ گئی۔ اپنی شکل دیکھی ہے تم نے۔ کھوتے کی طرح تھوتھنی نکال رکھی ہے۔ میں تم سے پیار کروں گی دفع ہو جاؤ یہاں سے اور آئندہ مجھے اپنی منحوس شکل مت دکھانا۔

اس کے الفاظ میرے کانوں سے زیادہ میرے سینے میں اترے۔ جیسے کسی نے اندر ہی اندر لکڑی کی سوکھی دراڑ پر ہتھوڑا رکھ کر پوری قوت سے مارا ہو۔ میں وہاں کھڑا تھا، وہیں، جہاں چند دن پہلے میں اس کے ساتھ بارش دیکھ رہا تھا۔ مگر آج وہی جگہ دشمن سا بن چکی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کو دیکھا، وہی چہرہ جسے میں نے کسی مقدس تحریر کی طرح پڑھا تھا، مگر آج وہی چہرہ میرے لئے بند دروازہ بن گیا۔

"دفع ہو جاؤ"، یہ الفاظ سستے نہیں تھے، یہ تیر تھے۔ ایک ایک جملہ ایسے چبھ رہا تھا جیسے کسی نے کانچ پیس کر دل میں بھرا ہو۔ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر زبان جیسے کسی نے پکڑ لی ہو۔ میں آہستہ سے واپس مڑ گیا۔ قدم لڑکھڑائے نہیں، مگر اندر کی دنیا ٹوٹ کر بکھر چکی تھی۔ وہ راہداری جس میں ہم کبھی ساتھ ساتھ چلے تھے، اب سنسان لگ رہی تھی۔ ہر دیوار میری بے وقعتی پر ہنس رہی تھی۔ ہر شیشہ میری ٹوٹی شکل دکھا رہا تھا۔ یوں لگا جیسے میری پوری جوانی کسی نے ایک لمحے میں اکھاڑ کر پھینک دی ہو۔

میں نے اسے چھوڑ دیا لیکن خیر خبر رکھنی نہیں چھوڑی۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کی شادی کسی سرکاری ملازم سے ہوگئی جس نے اوپر نیچے چھے بچے پیدا کیے۔ میں دبئی چلا گیا، پھر انگلینڈ آ گیا۔ دبئی میں دو تین لاکھ کماتا تھا انگلینڈ میں بارہ پندرہ لاکھ کمانے لگا۔ پھر ایک شام میں نے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بہت موٹی اور بھدی ہو چکی تھی۔ گزرے ماہ و سال اس کے چہرے پر نظر آتے تھے۔ میں نے اسے اپنی شلوار کا ناڑا دکھایا "یہ دیکھو میں جے ڈاٹ کا ناڑا ڈالتا ہوں"۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam