Mufti Muneeb Ur Rehman
مفتی منیب الرحمٰن

پاکستان کی مذہبی و علمی دنیا میں مفتی منیب الرحمٰن کا نام احترام، اعتدال، فہم و فراست اور تدبر کا استعارہ ہے۔ بریلوی مکتبِ فکر میں وہ ایک ایسے عالمِ دین کی حیثیت رکھتے ہیں جو ہمیشہ متوازن اور مدلل انداز میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ ان کی بعض آراء سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی نیت، علمی وقار اور دیانت پر اعتراض کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ وہ اُن علماء میں سے ہیں جو جس بات کو غلط سمجھتے ہیں، بلاجھجھک اس کی نشان دہی کرتے ہیں، چاہے اس پر اپنے ہی حلقے کی اہم شخصیات ناراض ہو جائیں۔ اپنے مسلک کے بڑے اجتماعات میں بھی وہ اصلاحِ حال کے لیے کھری اور بے لاگ بات کہتے ہیں، جو ان کی علمی جرات اور اصول پسندی کی روشن دلیل ہے۔
مفتی منیب الرحمٰن کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع اور ہمہ جہت ہے۔ وہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین رہے، تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان کے صدر اور اتحاد تنظیمات المدارس کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ تمام مکاتبِ فکرکے مابین رابطے، ہم آہنگی اور اعتماد کی فضا قائم کرنے میں ان کا کردار ان کی حکمت، بصیرت اور اعتدال پسند مزاج کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایک ممتاز مدرس، خطیب، پروفیسر اور متعدد کتب کے مصنف ہیں اور دہائیوں سے پاکستان کی علمی، فکری اور مذہبی فضا ان کے علم و بصیرت سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ ان دنوں مفتی منیب الرحمٰن صاحب ڈینگی جیسے موذی مرض کے باعث علیل ہیں۔ یہ خبر نہ صرف ان کے چاہنے والوں، بلکہ پوری قوم کے لیے باعثِ تشویش ہے، کیونکہ ایسے جید، سنجیدہ، باوقار اور صاحبِ نظر علماء کسی بھی معاشرے کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ انہیں کامل و عاجل شفا عطا فرمائے اور ان کا سایہ امتِ مسلمہ پر سلامت رکھے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ فیس بک پر تحریکِ انصاف کے بعض کارکنان کی ایسی پوسٹس سامنے آئیں جن میں مفتی صاحب کی بیماری پر نامناسب، گستاخانہ اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے کیے گئے تھے۔ کمنٹس میں بھی اسی نوعیت کی دل آزاری دیکھی گئی۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ کس بات پر اس قدر دل برداشتہ یا ناراض ہیں کہ بیماری کے عالم میں بھی ایک بزرگ عالمِ دین کے لیے بداخلاقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کسی عالم دین کی بیماری کا مذاق اُڑانا نہ صرف اخلاقی انحطاط کی علامت ہے، بلکہ یہ سیاسی و مذہبی تربیت کے سنگین بحران کی واضح نشاندہی بھی کرتا ہے۔
یہ رویہ کس قدر افسوس ناک ہے کہ اگر کوئی عالم دین کسی سیاسی جماعت کے مؤقف سے اتفاق نہ کرے، یا کسی پالیسی پر تنقید کر دے تو اس کی عزت و وقار کو پامال کرنا اپنا حق سمجھ لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ بیماری صرف ایک جماعت تک محدود نہیں، بلکہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان میں بھی اس کا اظہار عام ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عالمِ دین کسی سیاسی جماعت کا سپاہی نہیں ہوتا۔ ان کی ذمہ داری دین کی خدمت، اخلاقی رہنمائی اور معاشرتی اصلاح ہے۔
سیاسی محاذ آرائی اُن کا کام نہیں ہوتی، نہ ہی اختلافِ رائے کی بنیاد پر انہیں ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا جانا کسی مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔ قوم کو اپنے اجتماعی رویّوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، مگر اختلاف کو گالی، بددعا، تمسخر اور کردار کشی میں بدل دینا ہماری اخلاقی پستی کی کھلی دلیل ہے۔ علماء ہوں یا سیاسی رہنما، ہر شخص کی عزتِ نفس کا احترام معاشرتی تہذیب کا بنیادی اصول ہے جسے ہر حال میں مقدم رہنا چاہیے۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیں، تاکہ سماج میں شائستگی، برداشت اور احترام کی اقدار دوبارہ مضبوط ہو سکیں۔
آخر میں ربِّ کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو شفا کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے، ان کے علم و عمل کے فیوض کو مزید برکتوں سے نوازے اور پاکستان کو سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ہر قسم کے نفرت انگیز، بداخلاق، متشدد اور انتہا پسند کارکنان کے شر سے محفوظ رکھے۔

