Mayo School Of Arts Se National College Of Arts Tak 150 Sala Safar
مئیو اسکول آف آرٹ سے نیشنل کالج آف آرٹس تک 150 سالہ سفر

نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور نے حال ہی میں "این سی اے ٹرینالے 2025"، "کسبِ کمال کن" کا انعقاد کیا۔ ٹرینالے "کسبِ کمال کُن" مئیو اسکول آف آرٹ سے نیشنل کالج آف آرٹس تک، 150 سالہ ترقی، جدّت، محنت، فنّی مہارت اور تخلیقی جستجو کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔
1875 میں ڈیڑھ سو سال قبل برطانوی پنجاب کے پہلے آرٹ اسکول اور جنوبی ایشیا کے قدیم ترین فنی اداروں میں سے ایک کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی۔ جیسے مئیو اسکول آف آرٹ کانام دیا گیا۔ یہ ادارہ برصغیر کے چار نوآبادیاتی آرٹ اسکولوں میں شامل تھا، باقی تین اسکول کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں قائم کیے گئے تھے۔ مئیو اسکول آف آرٹ (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کے بانی "جان لاک وُڈ کپلنگ (1837–1911) ایک معروف برطانوی مصور، مجسمہ ساز، استاد اور ماہرِ دستکاری تھے۔ وہ نہ صرف برصغیر میں فن اور آرٹ کی تعلیم کے بانیوں میں سے شمار ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے لاہور کی ثقافتی اور فنّی زندگی کو ایک نئے منظرنامے میں ڈھالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
کپلنگ 1875 میں برطانوی دورِ حکومت میں لاہور آئے اور ایک ایسا ادارہ قائم کیا، جو مقامی ہنرمندوں کی صلاحیتوں کو منظم انداز میں فروغ دے، روایتی دستکاری کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے اور برصغیر کی بصری ثقافت کو نئی تعلیم یافتہ نسل تک منتقل کرے۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے مئیو اسکول آف آرٹ قائم کیا، جو آگے چل کر نیشنل کالج آف آرٹس بنا۔ یہ ادارہ اُس وقت کے وائسرائے لارڈ مئیو کے نام پر رکھا گیا تھا۔
کپلنگ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مقامی کاریگروں کی مہارت ضائع نہ ہو، برصغیر کے فنونِ لطیفہ، ہنرمندی کو محض پیشہ نہیں بلکہ فن کا درجہ دیا جائے۔ انہوں نے لاہور کے کاریگروں، خطاطوں، دھات تراشوں، لکڑی کے نقش گر، مصوروں اور معماروں کے فن کو نہ صرف پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ اسے نئی نسل تک پہنچانے کے لیے باقاعدہ نصاب تیار کیا۔ مئیو اسکول آف آرٹ کے پہلے پرنسپل کے طور پر 18 سال خدمات انجام دیں۔ لاہور کو جنوبی ایشیا کی فنّی و ثقافتی شناخت کے ایک اہم مرکز کے طور پر اُبھارنے میں معاون کردار ادا کیا۔ برصغیر کی دستکاریاں عالمی سطح پر متعارف کرائیں۔ جان لاک وڈ کپلنگ کی وجہ سے لاہور کا یہ ادارہ محض ایک اسکول نہیں رہا بلکہ: ایک ثقافتی تحریک، ایک ہنرمندوں کی درسگاہ، ایک تخلیق گاہ بن گیا، جس نے آج 150 سال بعد بھی اپنی اہمیت برقرار رکھی ہے۔
مئیو اسکول آف آرٹ نے 1947 سے پہلے تک کئی ارتقائی مراحل طے کیے۔ فنونِ لطیفہ کی تعلیم، دستکاری کی بحالی، مقامی ہنرمندوں کی تربیت اور نوآبادیاتی و مقامی روایت کے امتزاج نے اسے ایک منفرد شناخت عطا کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1958 میں یہ ادارہ اپنے سفر کے ایک نئے اور اہم دور میں داخل ہوا، جب اسے نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) کا نام دیا گیا۔ آج نیشنل کالج آف آرٹس پاکستان کا پہلا خود مختار فنونِ لطیفہ کی ڈگری عطا کرنے والا ادارہ ہے جسے یہ حیثیت 1985 میں ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ این سی اے پورے خطے میں آرٹ اور ڈیزائن کی تعلیم کا معتبر اور مرکزی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے نہ صرف فنی تعلیم کے معیارات قائم کیے بلکہ پاکستان کی بصری ثقافت، جمالیات، فنِ تعمیر، ڈیزائن اور جدید تخلیقی رویّوں پر گہرا اثر ڈالا۔ اس طویل سفر کے ہر دور نے پاکستان کی ثقافتی، سماجی اور تاریخی شناخت کو نئے زاویے دیے۔ مئیو اسکول کے کمرۂ جماعتوں سے لے کر جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک، یہ سفر اپنی روایت اور اپنی تخلیقی قوتوں پر اعتماد کی داستان ہے۔
ٹرینالے 2025 کا مرکزی عنوان "کسبِ کمال کن، کہ عزیزِ جہاں شوی" فارسی زبان کا بیان ہے کہ جب انسان کمال حاصل کرتا ہے تو دنیا اس کی قدر کرنے لگتی ہے۔ افتتاحی تقریب میں ملک اور بیرونِ ملک سے آنے والے نامور فنکار، اساتذہ، محققین، موسیقار اور طلبہ شریک ہوئے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی ثقافت صدیوں پر پھیلا ہوا ورثہ رکھتی ہے انہوں نے کراچی میں نیا این سی اے کیمپس قائم کرنے کا اعلان بھی کیا جو فنون کی ترویج میں اہم قدم ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے این سی اے کے "150 سالہ سفر" کو "تخلیقی ہم آہنگی، ثقافتی تنوع اور جدید ٹیکنالوجی سے جڑے تاریخی اور جدت آمیز ورثے" کے طور پر بیان کیا۔ ٹرینالے میں پاکستان، یورپ، چین، ایران، برطانیہ اور فلسطین کے 200 سے زائد فنکاروں نے شرکت کی۔
ٹرینالے میں مختلف نمائشوں کا اہتمام کیا گیا اور ان میں پیش کیے گئے کام موضوعاتی اعتبار سے بےانتہا متنوع کے حامل رہے۔ پاکستانی فن کی ارتقا پذیر تاریخ، برصغیر کی روایتی دستکاریاں، ثقافتی ورثہ، تاریخی بیانیے اور آرکائیوز، جدید طرزِ اظہار، نصبِ فن (Installations) اور ڈیجیٹل میڈیا، معاصر (Contemporary) اور جدید (Modern) طرزِ فکر، سماجی حقیقت نگاری اور انسانی تجربات کی منظرکشی، مصوری، مجسمہ سازی، میناتور، پرنٹ میکنگ، فوٹوگرافی، ٹیکسٹائل آرٹ اور ویڈیو آرٹ کے امتزاج نے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی فنکار ماضی کی وراثت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دنیا کی جمالیاتی زبان سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ بین الاقوامی فنکاروں کی شمولیت نے اسے عالمی سطح کا مکالمہ بنا دیا، جس میں روایات اور جدیدیت کا توازن ایک منفرد تجربہ پیش کرتا ہے۔ یہ تمام آرٹ ورکس دیکھنے والوں کو نہ صرف پاکستانی فن کی ارتقائی تاریخ سے روشناس کرتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی احساس دلاتے ہیں کہ پاکستان تخلیقی حوالے سے ایک مضبوط، باوقار شناخت رکھتا ہے۔ ایسی سرگرمیاں ملک کے مثبت تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتیں ہیں۔
ٹرینالے کا ہر گوشہ یہ احساس دلاتا ہے کہ پاکستانی فن صرف بصری اظہار نہیں بلکہ ایک فکری سفر ہے۔ جہاں: ماضی کی یادیں، حال کی حقیقت اور مستقبل کے خواب ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ فن کو دیکھنے والا، سُننے والا یا محسوس کرنے والا ہر شخص اس سفر میں پاکستان کی "شناخت، تحریک، اثرات، سماجی حقیقت اور بین الثقافتی گفتگو" کو بآسانی محسوس کر سکتا ہے۔
این سی اے ٹرینالے 2025 نے دنیا کے سامنے یہ واضح پیغام رکھا کہ پاکستان فنونِ لطیفہ، ثقافت، تعلیم اور بین الثقافتی تعاون کے میدان میں ایک متحرک، ترقی پسند اور امن دوست ملک ہے۔ ایسے عالمی معیار کے پروگرام نہ صرف پاکستان کی مثبت شناخت کو مستحکم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کا نوجوان، اس کا فنکار سب ترقی، جدت، مکالمے اور تخلیق کے راستے پر گامزن ہیں۔

