Bloom Taxonomy
بلوم ٹیکسانومی

1950 کی دہائی میں ماہرِ تعلیماتی نفسیات بینجمن بلوم نے بلوم ٹیکسانومی کے نام سے ایک سادہ مگر بے حد مؤثر فریم ورک پیش کیا جس میں سیکھنے کے عمل کو چھ ذہنی درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، یادداشت سے لے کر تخلیقی سوچ تک۔ کئی دہائیوں سے یہ نظام دنیا بھر میں نصاب سازوں اور اساتذہ کی رہنمائی کرتا آ رہا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ طلبہ کو صرف رٹوانے سے آگے بڑھ کر حقیقی سمجھ تک کیسے پہنچایا جائے۔
گزشتہ برسوں میں پاکستان میں بھی اس اصطلاح کا ذکر بڑھا ہے، مگر اب بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ آخر ہے کیا اور ہماری روایتی تدریس میں کس طرح بہتری لا سکتی ہے؟
اگر اسے سمجھنا ہو تو چھ درجوں والی سیڑھی کا تصور کریں۔ سب سے پہلے یاد رکھنا، پھر سمجھنا، اس کے بعد استعمال کرنا، پھر تجزیہ کرنا، جانچنا اور سب سے آخر میں تخلیق کرنا۔ یہ سیڑھی بتاتی ہے کہ سیکھنا معلومات دہرانے کا نام نہیں بلکہ ذہنی ترقی کا مسلسل عمل ہے۔
قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ بلوم ٹیکسانومی کے ابتدائی تین درجے، یاد رکھنا، سمجھنا اور استعمال کرنا، کو AJK BISE Mirpur نے اپنے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی امتحانات میں شامل کر رکھا ہے۔ یہ ایک مثبت، پیش قدمی پر مبنی فیصلہ ہے جس نے خطے کے امتحانی نظام کو جدید عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کوششوں کا مقصد رٹہ کلچر سے نکل کر طلبہ کی حقیقی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ہے اور اس قابلِ تقلید کوشش کو بھرپور سراہا جانا چاہیے۔
تاہم، اس کے باوجود اکثر کلاس رومز میں تدریس بدستور یاد کرانے تک محدود ہے۔ بچے رٹتے ہیں، امتحان میں لکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں، جبکہ نصاب یہ توقع کرتا ہے کہ استاد انہیں بلند تر ذہنی سطحوں تک لے جائیں۔ یہی خلاء ہماری تعلیمی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بلوم ٹیکسانومی کو عملی جامہ پہنانا مشکل نہیں۔ اس کے لیے کسی ٹیکنالوجی، خصوصی تربیت یا مہنگے وسائل کی ضرورت نہیں، صرف سوال پوچھنے کے انداز میں ذرا سی تبدیلی چاہیے۔ استاد اگر "یہ کیا ہے؟" کے بجائے "یہ کیوں ہوا؟" یا "اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟" جیسا سوال پوچھ لے تو بچے فوراً ذہنی طور پر ایک درجے اوپر چلے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک عام سبق پڑھاتے ہوئے استاد صرف حقائق یاد کرا دے تو سیکھنا محدود رہتا ہے۔ لیکن اگر وہ پوچھ لے: "اس کردار نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟" یا "اگر حالات بدل جائیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟" تو وہی سبق زیادہ دلچسپ اور سوچ پیدا کرنے والا بن جاتا ہے، بغیر کسی اضافی مواد کے۔
ضروری نہیں کہ ہر سبق میں چھوں درجے حاصل کیے جائیں۔ چھوٹی جماعتوں میں پہلے دو درجے کافی ہوتے ہیں، درمیانی سطح پر تیسرا اور چوتھا درجہ شامل کیا جا سکتا ہے، جبکہ بڑی جماعتوں میں جانچنے اور تخلیق کی سطحیں لازمی ہونی چاہیئیں۔ صرف ایک بلند درجے کا سوال بھی پوری کلاس کی سوچ کو بہتر بنا دیتا ہے۔
اس کے فوائد فوراً محسوس ہوتے ہیں۔ طلبہ زیادہ فعال ہو جاتے ہیں، سبق بوجھ نہیں لگتا اور استاد کو ہر بچے کی سمجھ کا اندازہ بہتر ملتا ہے۔ بغیر کسی انتظامی تبدیلی کے تدریس خود بخود مؤثر ہونے لگتی ہے۔
بلوم ٹیکسانومی ایک فلسفیانہ پیچیدگی نہیں، یہ محض یاد دہانی ہے کہ حقیقی سیکھنا قدم بہ قدم آگے بڑھنے کا نام ہے۔ جب استاد ہر سبق میں ایک درجے اوپر کا سوال رکھتا ہے تو طلبہ صرف یاد کرنے والے نہیں رہتے بلکہ سوچنے والے بن جاتے ہیں۔
ایک ایسے تعلیمی ماحول میں جہاں رٹہ کلچر پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، بلوم ٹیکسانومی ایک عملی، سادہ اور کلاس روم دوست راستہ فراہم کرتی ہے اور جب AJK BISE Mirpur جیسے تعلیمی ادارے اس سمت میں مثبت اقدامات کریں، تو امید پیدا ہوتی ہے کہ ہماری کلاسیں زیادہ سمجھدار، زیادہ جستجو رکھنے والے اور زیادہ پراعتماد طلبہ پیدا کریں گی، صرف ایک درست سوال کے ذریعے۔

