اعزازی آوارہ گرد

پوٹھو ہار سے تعلق رکھنے والے ایک معروف سابقہ ادبی"دھنیشور" بڑے وائرل ہو رہے ہیں جو گلے میں لال مفلر پہنے بہت سی وڈیوز میں نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے لحاظ سے ایک خاص ادبی شخصیت کے حوالے سے منوائے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی ایک ادبی سطر نہیں لکھی لیکن اب تک ان کے کردار کے کروفر پر بڑا تعزیتی ادب تخلیق ہو چکا ہے۔ ان پر کہانیوں اور افسانوں کا ایک مجموعہ ترتیب دیا جانا چاہئے تھاجو ابھی تک صرف زبان زد عام ہی ہے بلکہ ان پر کئی اشعار اور ان کی شخصیت پر شگفتہ خاکے تحریر ہو چکے ہیں جن کو اگرشائع کر دیا جائے تو ان کو تمغہ برائے حسن کے لئے کارکرگی دکھانے والوں کا "ریکارڈ ساز" انعام مل سکتا ہے۔ جس دوراہے سے یہ گزرتے ہیں ان کے چاہنے والے فوری ایک پنجابی "دوہڑا" ان کے پیچھے پیچھے دوڑا دیتے ہیں۔ اوہ پیا جاندا ای۔۔ جنھے سی ساڈے کم کرنے۔۔ ہن مفلر لٹکاندا ای۔۔
اور پھر اگلے دوراہے پر چاہنے والے یوں گویا ہوتے ہیں۔۔ صبح شام نئیں رون ہوندا۔۔ اسی ایہوسوچ دے اے رینے ایں۔۔ ترے نال دوجا کون ہوندا۔۔
سیاست میں حصہ کم اور دلچسی زیادہ لیتے رہے ہیں بلکہ دلچسی سے بھی زیادہ وزاتیں ان کے حصے میں آئیں ہیں۔ انہوں نے کلاسیک اسٹائل زبانی کہانیوں پر بڑا کام کیا ہے اور یہ کہانی گھڑ کے کسی کے کان میں "تحریر" کرنے میں کمال رکھتے ہیں اور پھر اپنے اسلوب کے شیشے میں اتار لیتے ہیں اسی کے باعث وزارت تعلیم کا قلمدان بھی ان کے پاس رہا اور اسی اثرو رسوخ کی وجہ سے اپنی کئی کہانیاں سلیبس میں شامل کروا چکے ہیں۔ اب بھی ان کے پاس پہلے سے بھی بہتر چند لفظی اثرو رسوخ والی کہانیاں ہیں جن کا عنوان ہے "اثر و منسوخ" کیونکہ اہل ادب نے ان کا لائٹریری گلا گھونٹ دیا ہے۔۔
اتنی گرمی میں مفلر؟ پوچھنے پر بتایا کہ اور کیا میں اس رنگ کی حویلی پہن کر نکلا کروں؟ دریں اثنا اب ہر "لال چی" ایسا ہی کرارا جواب وصول پاتا ہے۔ دھوک رتہ میں ان کی "پیدائش" کا تو حوالہ نہیں ملتا لیکن وہاں کی گلیوں کے چکر کاٹنے اور تام جھام کی "پاداش" میں ایک رتہ (لال) دوپٹہ پیش کیا گیا تھا جو وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے مفلر کا روپ دھار چکا ہے بالکل ایسے ہی جیسے وقت کے ساتھ قصبوں کے نام بدلا کرتے ہیں۔
اپنی بات چیت میں نالہ لئی کا ذکر کرتے ہیں اور اس سے جڑا ہوا ایک واقعہ ہر جگہ ضرور سناتے ہیں۔ جس نے پہلے سن رکھا ہو وہ بھی اس واقعہ سے مقرر تفریح لیتا ہے۔ ان میں زیادہ تر ان کے گارڈز ہی ہوتے ہیں۔ وہ ایسے ہے کہ ایک شخص نے نالہ لئی کے عین درمیان میں دیکھا کہ ایک کمبل بہا جا رہا ہے۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا اس سردی میں کمبل؟ بس ایک منٹ یہیں رکو میں ابھی کمبل نکال کے لایا اور پھر نالے میں چھلانگ لگا دی۔ باہر کھڑے دوست نے اچانک گھبرا کر دیکھا کہ کمبل نے الٹا اس کے دوست کو ہی "اوڑھنی اتارتے ہوئے" اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے جبکہ کمبل کے بھیس میں ریچھ نے اسے اپنی Reach میں لے کر دبوچ لیا تھا۔
اس نے آواز لگائی "ارے اوہ چنبل۔۔ کرو مت دنگل۔۔ چھوڑ دے کمبل۔۔ وہ جواباً چلایا! میں نے کمبل چھوڑ دیا ہے۔۔ پر کمبل نے مجھے اوڑھ لیا ہے۔۔ پھر۔ اس نے منہ کو موڑ لیا ہے۔۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد مسکرا کر کہتے ہیں اب آپ کو اس مفلر کی مستقل تعیناتی کی سمجھ میں آ گئی ہوگی۔ نالہ لئی میں بھلے جتنی بھی معاشی طغیانی آ جائے حالات کا پانی کبھی ان کے سر سے نہیں گزرا کیونکہ ان کی وِگ کے ائیر بیگ پانی لگتے ہی خود کار نظام سے کھل جاتے ہیں "وِگرنہ" وِگ کس کام کی؟
جبکہ سیانا بندہ قیمتی وِگ پہن کر"ٹینڈے" خریدتا ویسے بھی اچھا نہیں لگتا۔۔ اپنے دوست سلیم سولنگی کے بارے کہتے ہیں کہ سولنگی نے آئے روز کے مسائل اور خشکی سکری سے تنگ آکر اپنے سر پر چائنہ سے پکی "سولنگ" کروا لی ہے۔ ویسے سولنگی کے سولنگ بہت سجی ہے۔ میرا بھی پروگرام بن رہا ہے کہ آئے روز کے دل سوز معاملات سے جان چھوٹے۔۔ انہوں نے کچھ ایسی ہی جدید ڈیوائس اپنی چپل میں لگوا رکھی ہے۔ اس چپل کا ابھی نام نہیں رکھا کیونکہ یہ ابھی تجرباتی مراحل میں ہے۔ ذرا cheap چپل ہے اس لئے کاپی رائٹ بھی نہیں کروائی۔
بچپن میں خسرہ نکل آیا جس نے کافی پریشان کیا۔ چنانچہ اپنے کمرے کے باہر لکھوا لیا "خسرہ 440 وولٹ"۔
میٹرک میں "امتیازی" نمبروں سے یوں کامیابی حاصل کی کہ ہیڈ ایگزامینر کا نام امتیاز تھا اور وہ محلہ دار بھی تھا۔ انہی کی زبانی یہ پتا چلا کہ بی اے بھی اعزازی نمبروں سے کیا ہوا ہے۔ اب اعزازالدین کو کہاں سے ڈھونڈا جائے۔
گریجوایشن کے دوران ان کے کلاس فیلو یعنی دس سال پرانے دوست بھی ان کی ہر طرح سے مدد کرتے رہے۔ ان میں ایک امداد بھائی اور دوسرے فضل بھائی تھے۔ پھر یہ بلآخر فضل کی امدادِ باہمی سے گریجویٹ ہوگئے۔ ایم اے کرنے کے لئے ممتحن اور سپرنٹنڈنٹ اخلاق بھائی سے اندر کھاتے با ت کی کوشش میں امداد اور فضل بھائی پھر میدان کارزار میں تھے لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ بھائی بداخلاق ہیں اور خلوص سے خالی اتنے ہیں کہ چھوٹا سا کام کرنے صلاحیت نہیں ہے۔ لہذا ایم کا ارادہ یہ کہہ کر ترک کر دیا کہ "میں نے کونسا ماسٹر کرنا تھا؟"
اب یہ اپنے شہر کے اعزازی آوارہ گرد ہیں اور اس کے چپے چپے سے واقف ہیں یہاں انہیں کوئی ماتھا نہیں لگاتا بلکہ انہیں مجبوراً سر ماتھے پر بٹھایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ ان کے استاد نے پوچھا کہ سکول کے زمانے میں آپ کو کس کی آواز پسند تھی۔ جواب آیا۔ چھٹی کی "ٹلی" کی آواز۔۔ پھر پوچھا گیا سب سے بری آواز کون سی لگتی ہے کہنے لگے سکول لگنے کی ٹلی۔۔

