Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar
پابلو پکاسو، رنگوں کا وہ جادوگر

پابلو پکاسو، ایک نام، ایک کردار، ایک تاریخ، ایک انقلاب۔ دنیا کے آرٹ نے جتنے بھی بڑے موڑ لیے، جتنی بھی بڑی لہریں اٹھیں، جتنے بھی پرانے سانچے ٹوٹے، اُن سب کے بیچ ایک چہرا ہمیشہ نمایاں رہا، پکاسو۔ وہ صرف مصور نہیں تھا، وہ ایک پورا عہد تھا، ایک ذہنی بغاوت تھی، ایک ایسا تخلیقی طوفان جس نے پوری دنیا کی بصری حسّیات بدل کر رکھ دیں۔ آرٹ کی دنیا میں بہت سے لوگ آئے، بہت سے گزر گئے، مگر پکاسو نے جو نقش چھوڑا وہ ناقابلِ مٹاؤ ہے، کیونکہ اس نے محض تصویریں نہیں بنائیں، اس نے دیکھنے کا زاویہ بدل دیا۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دُنیا کی آنکھیں بدل دے تو وہ نسلوں کا اُستاد بن جاتا ہے اور پکاسو انہی لوگوں میں سے ایک ہے۔ اس نے فنِ مصوری کو قید سے آزاد کیا، روایتی خوبصورتی کو چیلنج کیا اور وہ شکلیں تراشیں جنہیں لوگ پہلے پہل سمجھ نہ سکے مگر پھر انہی شکلوں نے نئی جمالیات کی بنیاد رکھ دی۔
پکاسو کی کہانی محض ایک آرٹسٹ کی کہانی نہیں، ایک مسلسل جستجو، بے قراری اور تجربہ کرنے کی جرأت کی کہانی ہے۔ وہ 1881 میں اسپین کے شہر مالاگا میں پیدا ہوا اور اُس کے والد خود بھی مصور تھے۔ بچپن میں ہی اُس نے قلم تھام لیا اور جو کچھ اس کے ننھے ہاتھ بنا سکتے تھے وہ عمر کے بڑے بڑے فنکاروں کو بھی حیران کر دیتا تھا۔ بارہ سال کی عمر میں وہ اتنی مکمل اور زندہ تصویریں بنا لیتا تھا کہ استاد بھی سوچ میں پڑ جاتے تھے کہ ایک بچہ یہ سب کیسے کر رہا ہے۔ لیکن پکاسو کا اصل سفر اُس دن شروع ہوا جب اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ صرف اچھا مصور نہیں بنے گا، بلکہ وہ فن کی سرحدوں کو توڑ کر نئے جہان دریافت کرے گا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب روایت سے بغاوت نے جنم لیا۔ اس نے حقیقت نگاری کی پرانی راہوں سے ہٹ کر کچھ ایسا تخلیق کیا جسے دنیا بعد میں "کیوبزم" کے نام سے جانتی ہے، ایک ایسا اسلوب جس نے دنیا کو دراڑوں، خانوں، زاویوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دکھایا اور پھر انہی ٹکڑوں سے ایک نئی حقیقت تخلیق کی۔
کیوبزم کی آمد صرف ایک فنّی تجربہ نہیں تھی، یہ انسانی شعور میں ایک انقلاب تھا۔ پکاسو کہتا تھا کہ دنیا کو صرف ایک زاویے سے نہیں دیکھا جا سکتا، ہر چیز کو بیک وقت کئی رخوں سے سمجھا جا سکتا ہے اور یہی فلسفہ اس کی پینٹنگز میں جھلکتا ہے۔ اُس کی مشہور زمانہ پینٹنگ Les Demoiselles dAvignon نے جب پہلی بار دنیا کے سامنے قدم رکھا تو ناقدین نے اسے عجیب و غریب، بھدا اور ناقابلِ فہم کہہ کر ردّ کر دیا۔ مگر دنیا کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ تصویر آرٹ کے ایک نئے دور کا دروازہ کھول چکی ہے۔ وہ دروازہ جس سے گزر کر بعد میں ہزاروں فنکاروں نے نئی دنیا دریافت کی۔ پکاسو کی عظمت یہی ہے کہ اُس نے یہ سوچنے کی دعوت دی کہ خوبصورتی ہمیشہ روایتی نہیں ہوتی، اصل فن وہ ہے جو ذہن کو چیلنج کرے، نئی راہیں دکھائے اور پرانی دنیا کو ایک جھٹکا دے کر نئی دنیا بنانے پر مجبور کر دے۔
اور پھر پکاسو کی زندگی کا وہ لمحہ آیا جس نے اسے ہمیشہ کے لیے تاریخ کے سینے میں کندہ کر دیا، Guernica. 1937 میں اسپین کی خانہ جنگی کے دوران ایک چھوٹے سے شہر "گرنیکا" پر بمباری کی گئی اور سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اس ظلم کی چیخیں پکاسو کے دل میں اُتریں اور اس نے ایک ایسی تصویر بنائی جو محض ایک فن پارہ نہیں بلکہ جنگ کے خلاف ہمیشہ زندہ رہنے والا احتجاج بن گئی۔ Guernica دیکھنے والا شخص صرف رنگ نہیں دیکھتا، وہ چیخیں سنتا ہے، دھواں دیکھتا ہے، بکھرے جسم، ٹوٹے چہرے، ڈری ہوئی آنکھیں اور انسانیت پر پڑنے والے زخم دیکھتا ہے۔ یہ تصویر آج بھی دنیا کے ضمیر پر دستک دیتی ہے کہ فن کا اصل کام صرف آرائش نہیں، بیداری بھی ہے۔ پکاسو نے دنیا کو دکھایا کہ ایک تصویر بھی جنگ روک سکتی ہے، ایک آرٹسٹ بھی پوری انسانیت کا وکیل بن سکتا ہے۔
زندگی کے آخری برسوں تک پکاسو کی تخلیقی بھوک کم نہیں ہوئی، بلکہ بڑھتی گئی۔ وہ روز کام کرتا، روز کچھ نیا بناتا، روز تجربہ کرتا۔ اس نے نہ صرف مصوری بلکہ مجسمہ سازی، سرامکس، پرنٹنگ اور کئی دیگر فنون میں اپنا لوہا منوایا۔ اس کی زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ تخلیق کار کبھی ریٹائر نہیں ہوتا، اس کا ذہن مسلسل حرکت میں رہتا ہے اور پکاسو کی زندگی اسی مسلسل سفر کا نام ہے۔ وہ کہتا تھا کہ "ہر بچہ ایک فنکار ہوتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ بڑے ہو کر بھی فنکار کیسے رہا جائے"۔ پکاسو نے نہ صرف یہ کہا بلکہ یہ کرکے دکھایا۔ آج اس کی ہزاروں پینٹنگز، مجسمے اور خاکے دنیا کے میوزیمز اور گیلریوں میں ایسے رکھے ہیں جیسے کوئی جیتی جاگتی تاریخ ہو اور لاکھوں لوگ انہیں دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، کچھ سوچتے ہیں، کچھ حیران رہ جاتے ہیں اور کچھ اپنی زندگی بدلنے کے فیصلے کر لیتے ہیں۔
پکاسو کی شخصیت کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ اس نے انسان کو نئے زاویوں سے دیکھنے کی تربیت دی۔ اس نے دکھایا کہ حقیقت ہمیشہ سیدھی لکیروں میں بند نہیں ہوتی، وہ ٹوٹی ہوئی بھی خوبصورت ہو سکتی ہے، بکھری ہوئی بھی مکمل ہو سکتی ہے اور بے ترتیب بھی معنی خیز ہو سکتی ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ فن وہ جرات ہے جس میں انسان خود کو توڑ کر نئی شکل میں جوڑتا ہے۔ پکاسو نے دنیا کو صرف آرٹ نہیں دیا، اُس نے جرأتِ تخلیق دی، نئی سوچ دی اور یہ احساس دیا کہ اگر انسان اپنے اندر کے خوف توڑ دے تو وہ نئی دنیا تخلیق کر سکتا ہے۔ اس کی زندگی ہر اُس شخص کے لیے پیغام ہے جو دنیا میں کوئی نئی روشنی جلانا چاہتا ہے۔ پکاسو نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور آج بھی اس کی تصویریں زندہ ہیں کیونکہ وہ انسان کے اندر کے سوالوں سے بنی ہیں اور سوال کبھی مرتے نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پکاسو کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اس لیے نہیں کہ اس نے شاہکار بنائے، بلکہ اس لیے کہ اس نے انسان کو نیا دیکھنا سکھایا۔ دنیا بدل جائے گی، زمانے گزر جائیں گے، آرٹ نئے راستے لے گا، مگر وہ شخص جس نے بنیادی طور پر دیکھنے کی حس کو بدل دیا وہ کبھی متروک نہیں ہو سکتا۔ پکاسو ایک فرد نہیں، ایک سفر ہے اور نئے سفر ہمیشہ چلتے رہتے ہیں۔

