Muhammad Yaqoob Quraishi (3)
محمد یعقوب قریشی (3)

میں نے اپنے 9 سالہ دور میں بس تین چار طلبہ ہی کو بہتر پایا۔ وہ بھی مگر اوسط درجے ہی کے تھے۔ وہ طالبِ علم، جو آپ کی نفاست، طرزِ کلام، وقار، خودداری، علم اور حلم کے مجموعہ ہائے اوصاف کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتا، ایک بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طلبہ کے داخلے کے حوالے سے اہلِ مدارس کا بندوبست اس قدر پست ہے کہ علم، شعور کی دنیا سے جس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہر زید بکر آ دھمکتا ہے، یعنی داخلہ ہر ہماشما کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔
مدرسے میں مجھے ایسے عجب ذہنوں سے سابقہ پڑتا کہ حیرت ہوتی۔ مدرسہ نہ ہوا، باڑھ ہوگئی۔ داخلے کے نام پہ گویا ایک ریوڑ ہے، جسے بچے کے گھر والے حصولِ دین کے نام پہ اندر ہانک دیتے ہیں اور آٹھ سال بعد یہ مدرسے والے "فارغ" کرکے باہر ہانک دیتے ہیں۔ سماج پھر اس ریوڑ کا جو بوجھ اٹھاتا ہے، وہ بہت خوفناک ہے۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔
ارباب کا تو پوچھیے ہی مت۔ ان کی کسی ترجیح میں آپ کبھی تھے ہی نہیں۔ اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی ہو، جو مہینے میں ایک آدھ بار ہی سہی، آپ کے پاس آتا ہو۔ طلبہ بھی کم کم ہی جاتے تھے۔ جن دو تین طلبہ کو حصولِ علم کا ذوق تھا، وہ بھی بجائے آپ کے پاس آنے کے، لائبریری کا رخ کرتے۔ ایک زندہ کتاب کو چھوڑ کر لائبریری کی غیر زندہ کتب کو اپنی ترجیح بنانا، ذوقِ سلیم کی نشانی یا طالبِ علمانہ روایت ہر گز نہیں۔
پروفیسر نور محمد صاحب سے کئی بار سنا کہ علم کسی کے ہونٹوں سے لو۔ کیونکہ استاد کا دیا علم ہی مستحکم ہوتا ہے۔ ایک استاد ہی ذہنوں کے بند دریچے اور دماغوں پہ پڑے قفل کھولتا ہے۔ مزید یہ کہ طرزِ زندگی (life style) کیسا ہو! یہ بھی ایک استاد ہی سکھاتا ہے۔ تحلیلِ مسائل کی کلید ایک استاد ہی کے در سے ملتی ہے۔ دینی مسائل سے آگاہی ایک چیز ہے اور لفظوں اور خیالات کی تہذیب شیئے دیگر ہے۔ یہ تہذیب صرف استاد کے درِدولت سے ملتی ہے۔ کتاب میں ایسی سکت کہاں!
لکھنے والوں نے لکھا کہ اگر امام بخاری نہ ہوتے، تو امام مسلم بھی نہ ہوتے۔ اسی طرح عُمرَین (ابوبکر و عمر) اگر عمرین بنے، تو یہ پیغمبر ﷺ کی شخصیت کا فیضان تھا۔ محض قرآن انھیں اس رفعت سے ہمکنار نہیں کر سکتا تھا۔ اگر ایسا ممکن تھا، تو اللہ تعالیٰ صرف قرآن نازل کرتا۔ تمام الہامی کتب نصاب کا درجہ رکھتی ہیں، جن کے سکھانے کے لیے اساتذہ کے طور پر انبیا وارد ہوتے رہے۔ یہ بھی یاد رہے! ایک نبی کتاب کا بدل تو ہو سکتا ہے، مگر کتاب کسی نبی کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اکثر انبیا پہ کتب نازل نہیں ہوئیں۔ اسی طرح امام مسلم اپنے استاد امام بخاری کے بنا علمی مقام اور دوام نہیں پا سکتے تھے۔ اس باعث کے پیشِ نگاہ مطالعۂ کتب سے زیادہ ایک صاحبِ دانش کو اپنی ترجیح بنانا چاہیے۔
میں علیٰ وجہ البصیرت (سوچ سمجھ کر، شعور کی بنیاد پر) یہ بات لکھنے کی پوزیشن میں ہوں کہ اگر وہ طلبہ اس قاعدے کو بروئےکار لاتے، اس اصول پہ عمل کرتے اور لائبریری کو کم اور انھیں زیادہ وقت دیتے، تو آج ان کے رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتے۔ ان کی زندگیوں اور ان کے علم میں آپ کی دانش کا عکس نظر آتا۔ یاد آیا، ان کے ایک طالبِ علم نے میرے سامنے بطورِ تنقید کہا کہ استاد صاحب بہت زیادہ اعتدال کی راہ اپناتے ہیں۔ ذرا فکری سطح دیکھیں! خوبی کو خامی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں یہی وصف صاف لکھا ہے: "کنتم أمۃ وسطاً" کہ تم ایک معتدل امت ہو۔ سارا جھکاؤ لائبریری کی طرف کرنے کا نتیجہ ایک طالبِ علم کے حق میں اچھا نہیں نکلتا۔ جبھی تو استاد پہ تنقید کر ڈالی۔
خیر، اربابِ جامعہ آپ سے ڈرے ڈرے، سہمے سہمے رہے۔ اس کی وجوہ میں ایک تو آپ کا علمی وقار تھا۔ دوسرے، سب آپ کی ذہانت سے خائف تھے اور خوددار قسم کی طبیعت پائی تھی۔ تیسرے، کسی کے پاس طلب ہی نہیں تھی علم اور دانش کی، تو جاتا کیسے ان کے پاس۔ ان اسباب نے آپ اور دیگر کے درمیان ایک فاصلہ حائل کیے رکھا۔ یوں وہ اپنی دنیا میں مگن رہے اور آپ اپنی دنیا میں اور تو اور اہلحدیث جماعت کے کسی چھوٹے بڑے عالم یا کسی چھوٹے بڑے قائد کو بھی نہیں دیکھا کہ وہ بطورِ خاص ان سے ملنے آیا ہو۔ جو آتا مدنی مرحوم سے ملتا اور چلتا بنتا۔
خیال موصوف کو بھی کبھی نہیں گزرا کہ میں اس جامعہ کے شیخ الحدیث کو بھی کسی سے ملواؤں۔ تاکہ انھیں بھی احساس ہو کہ میرے دل میں ان کی قدر ہے۔ غیر ملکی وفود یا عرب شیوخ سے بھی انھیں ہمیشہ غیر متعلق ہی رکھا گیا۔ حتیٰ کہ پورے سال میں ان کے لیے جامع مسجد میں یا مدرسے کی سطح پہ کسی درسِ قرآن یا درسِ حدیث کا اہتمام تک نہ ہوتا۔ انھیں تو مدرسے کی مسجد میں جمعہ تک نہ پڑھانے دیتے۔ مبادا! فکر و نظر کی دنیا سے واسطہ پڑ جائے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ لوگ علم کی دنیا کے تھے ہی نہیں۔ یوں آپ جب تک جامعہ میں رہے، تنہا ہی رہے۔
خیال رہے! اس آخری عشرے، یعنی اس مدرسے میں آنے سے پہلے آپ کی زندگی سماجی حوالے سے بھرپور تھی۔ وگرنہ گوشہ نشیں مزاج ایسی نفاست و فطانت آمیز زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔ بہرحال، ان اصحاب نے برائے نام تنخواہ دے کر، اہم تقریبات میں آپ کو نہ بلا کر، کسی امر میں آپ سے مشاورت نہ لے کر، آپ کی سفارش کو درخورِ اعتنا نہ جان کر، اچھا کھانا نہ دے کر اپنے تئیں آپ کو بے حیثیت جانا۔ قدم قدم پہ آپ کو احساس دلایا کہ ہمارے ہاں آپ کی کوئی وَقعت نہیں۔ دراصل خود عامی تھے۔ خاص ہوتے تو انھیں درجۂ خصوصیت پہ رکھتے۔
بے وقعتی کے احساس کا اندازہ ایک واقعے سے بھی ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ آپ کی کلاس کے دو تین طلبہ رات گئے جب باہر سے آئے اور گیٹ بند پایا، تو جنگلہ پھلانگ کر اندر کود آئے۔ مدنی صاحب کو خبر ہوئی، تو انھیں مدرسے سے فوراً نکال باہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان طلبہ نے آپ سے کہا: استاد جی! آپ ہمیں معافی دلوا دیں۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ آپ نے جب مدنی صاحب سے معافی کی سفارش کی، تو انھوں نے رد کر دی۔ اپنی بے توقیری کے اسی واقعے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بار انھوں نے کلاس میں ہمیں کہا کہ اگر انھوں نے تم میں سے کسی کو خارج کرنے کا اقدام کیا، تو کوئی تمھاری امداد نہیں کر سکے گا۔ کوئی کے لفظ میں اشارہ اپنی ذات کی طرف تھا۔
اسی طرح ایک دفعہ ان کی زیرِ تدریس دو کتب بنا ان سے پوچھے کسی اور استاد کو دے دی گئیں۔ دونوں کتب ذرا مشکل تھیں۔ وہ استاد اتنا قابل نہیں تھا کہ کماحَقُّہ، پورے اطمینان اور انصاف سے انھیں پڑھا سکتا۔ کسی نے اس کھلی "واردات" کے بارے میں پوچھا، تو بس اتنا کہا: انھیں مجھ سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔ یہ لفظ ظاہراً عام سے لگتے ہیں، مگر یہ جس گہرے احساس، انکسار اور اخلاق کا پتہ دیتے ہیں، وہ اپنی جگہ پہ بہت خاصے کی چیز ہے۔ ان سے ہزار درجے اچھا تو یورپ کا وہ غیر مسلم جج تھا جس نے کٹہرے میں کھڑے فیض احمد فیض سے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں۔ تو انھوں نے کہا استاد ہوں۔ یہ سننا تھا کہ وہ آپ کے لیے احتراماً اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
اندازہ لگائیں! غیر دینی ماحول کا پروردہ جانتا ہے کہ مقامِ استاد کیا ہے۔ نہیں جانتے، تو یہ دینی ماحول کے پروردہ نہیں جانتے۔ انھوں نے تو کھل کے کیا! ظاہر داری برتتے ہوئے بھی کبھی آپ کو داد نہیں دی۔ آپ کی خدمات کا کبھی صلہ نہیں دیا گیا۔ پروا بھی نہیں تھی۔ غالب مرحوم کی طرح آپ بھی اس اصول "وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں" پہ کاربند رہے۔
جاری ہے۔۔

