Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Mere Columnon Mein Naghe Ka Sabab

Mere Columnon Mein Naghe Ka Sabab

میرے کالموں میں ناغے کا سبب

غالبؔ کو کسی کا راہ گزر، یاد آیا تو موصوف کے لیے چین سے بیٹھنا ناممکن ہوگیا۔ قدرت نے مجھے کسی کے راہ گزر یا جدائی کے بارے میں پریشان ہوجانے کی صلاحیت سے محروم رکھا ہے۔ ماں اور باپ کی موت بھی قدرتی نظام کا کلیدی اصول مانتے ہوئے برداشت کرلی۔ گزرے پیر کے دن سے لیکن دل ودماغ مسلسل پریشان ہیں۔ کسی بھی موضوع پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اسی باعث جمعہ کی صبح یہ کالم بھی شائع نہ ہوسکا۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ جو پریشانی لاحق ہوئی ہے اس کا آغاز محض ایک مذاق، سے ہوا تھا۔

جو واقعہ ہوا اس کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ہمارے دوستوں کی اکثریت میری بیوی کو اس امر پر قائل کرنے میں مصروف رہی کہ اسے میرا بلڈپریشر روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنا چاہیے۔ اس کے بارے میں غفلت میری عمر میں خوفناک بیماری یا بیماریوں کی صورت اچانک نمودار ہوسکتی ہے۔ اپنی صحت کے بارے میں کالج جانے کے بعد سے ہمیشہ غفلت ہی برتی۔ آج سے تقریباً 15برس قبل آج ٹی وی کے لیے پروگرام کی تیاری کرتے ہوئے میرے دوست مشتاق منہاس نے میرا چہرہ دیکھتے ہوئے اصرار کرنا شروع کردیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ سرخ نظر آرہا ہے۔ اسے اندیشہ تھا کہ شاید مجھے دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔

مستقل ڈانٹ کے باوجود اس کی ضد کے آگے مجبور ہوگیا۔ فوری بنیادوں پر ایک سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں گیا اور ای سی جی ہوئی جو معمول کے مطابق تھی۔ ای سی جی میں کچھ دریافت نہ کرنے کے باوجود ڈاکٹر کو شک ہوا کہ مجھے بلڈپریشر کا مرض لاحق ہوچکا ہے۔ اپنے شک کو آزمانے کے لیے اس نے مجھے تین بار اپنے پاس بلوایا۔ بالآخر ایک دوا تجویز کی جو 15سال سے ناشتے کے بعد مستقل لے رہا ہوں۔ اس دوا کو عادت کی طرح اپنانے کے بعد مطمئن ہوگیا کہ مجھے کوئی اور بیماری لاحق نہیں۔ دوستوں کے مجبور کرنے پر بیگم صاحبہ مگر بلڈپریشر ماپنے کا آلہ خرید چکی تھیں۔ اسے آزمانے کے لیے مجھ جیسا لیبارٹری میں رکھا، بھی موجود تھا۔ ہنستے کھیلتے ہاتھ پر چمڑے کے بنے خول کوچڑھایا اور میرا بلڈپریشر 225/110نکلا۔

طبی معاملات کے حوالے سے دنیا کے دیگر کئی موضوعات پر عقل کل بنے اس شخص کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ یہ کالم لکھتے وقت بھی مجھے علم نہیں کہ نارمل، بلڈپریشر کے اعدادوشمار کیا ہیں۔ میرے سسر مرحوم مگر دل کے دیرینہ مریض تھے۔ ان کی دیکھ بھال کی بدولت بیگم صاحبہ کو انسانی صحت کی مبادیات کا ضرورت سے زیادہ علم ہے۔ وہ مصر رہی کہ جوریٹنگ آئی ہے وہ واضح عندیہ دے رہی ہے کہ مجھے کسی بھی وقت دل کا دورہ پڑسکتا ہے۔ وہ نہ ہوا تو خون کا فشار کسی عضو کو فالج سے مفلوج کرنے کا سبب ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر سے فوری رجوع کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے ٹالنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے ایک کزن ڈاکٹر سے جو ہر نوع کے طبی امور کے با رے میں ماہر گردانے جاتے ہیں رجوع کرنے کی ضد کی۔ میں اس کی ضد کے ہاتھوں ڈھیر ہوکر ان سے رابطے کو مجبور ہوگیا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور گئے ہوئے تھے۔ پہلی گھنٹی پر فون اٹھاکر میری داستان سنی اور حوصلہ دیتے اندازمیں تجویزدی کہ میں بلڈپریشر نارمل رکھنے کے لیے برسوں سے جو دوائی کھارہا ہوں اس کی ایک اور گولی لوں۔ رات سونے سے قبل انھوں نے ایک اور دوا تجویز کی جو بقول ان کے دل کی بے چینی یا اضطراب کو قابو میں رکھتی ہے۔ جمعرات کی صبح اٹھتے ہی لیکن مجھے نہار منہ پانچ مختلف ٹیسٹ کروانے کے لیے گھر کے قریب ایک لیبارٹری جانا پڑا۔ اسی وجہ سے جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم نہ لکھ پایا۔

جمعہ کی صبح کالم کی عدم موجودگی نے میری توقع کے برعکس قارئین کی مؤثر تعداد کو پریشان کیا۔ وہ سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم کے ذریعے کالم نہ چھپنے کی وجوہات جاننے کو اصرار کرتے رہے تو مجھے ذاتی مسائل محض اپنے تک محدود رکھنے کا اصول بھلاتے ہوئے مختصر الفاظ میں حقیقت بیان کرنا پڑی۔

حقیقت بیان کردینے کے بعد ٹویٹر پر بے تحاشا لوگوں کی دعائیں نصیب ہوئیں۔ کئی ایسے دوستوں نے بھی جن کے ساتھ طویل عرصے سے رابطہ منقطع تھا فون کے ذریعے پریشان ہوئے حال احوال پوچھتے رہے۔ اپنے خیرخواہوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ جو پانچ بنیادی ٹیسٹ کروائے ہیں ان میں سے صرف ایک میں معمولی خرابی کی نشان دہی ہوئی ہے۔ یہ بھی دریافت ہوا کہ میں اب تک شوگر کے موذی مرض سے محفوظ ہوں۔ اس کی سرحد پر کھڑا مگر اس کے نزول کا انتظار کررہا ہوں۔ احتیاط وپرہیز مگر اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

بلڈپریشر اب نیچے تو آرہا ہے مگر نارمل نہیں ہورہا۔ صبح وشام تشخیص ہوئی دوا کی گولی کے ساتھ مگر مجھے ایک گولی اوربھی لینا ہوگی جو دل کی بے کلی، بے چینی اور پریشان کن خیالات سے بچانے کے علاوہ نیند کی آغوش میں پھینک دیتی ہے۔ بے چینی کے تدارک کے لیے صبح اٹھتے ہی اس دوا کی آدھی گولی مجھے بلڈپریشر کی گولی کے ساتھ لینا ہوگی۔ اس کی وجہ سے صبح اٹھتے ہی میرا ذہن اتنا چست نہیں رہے گا جس کی بدولت ہر ہفتے کے پانچ دن پہلا کام قلم اٹھاکر یہ کالم روانی میں لکھنا ہوا کرتا تھا۔

بلڈپریشر پر کامل کنٹرول کے لیے لہٰذا ہفتے کے پانچوں دن یہ کالم لکھنا فی الحال کچھ دنوں کے لیے نہایت دشوار ہوگا۔ آپ سے استدعا ہے کہ جو ناغے آئیں ان سے پریشان نہ ہوں۔ دعا مانگیں کہ میں جلد از جلد اپنے بلڈپریشر کو نارمل کرسکوں۔ ابھی تک اگرچہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اوپر اور نیچے کے کون سے اعداد بلڈپریشر کو نارمل، ٹھہراتے ہیں۔ بہرحال بیگم صاحبہ ہیں اور ان کا بلڈپریشر ماپنے والا آلہ۔ ان دونوں سے اچھی خبر، کی امید باندھے ہوئے ہوں۔

تین سے زیادہ ڈاکٹروں نے گزرے پیر سے ہفتے تک ہوئی نگرانی کے بعد متفقہ نتیجہ یہ نکالا ہے کہ میرے بلڈپریشر کا واحد سبب دل ودماغ پر چھائی پریشانی ہے۔ جو بے چینی لاحق ہے اس کی یقین مانیے مادی یا ذاتی وجوہات کے سبب نازل ہوئی کوئی پریشانی نہیں۔ ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعد بندوبستِ حکومت نے گزشتہ تین برسوں کی مدت میں بالآخر جو شکل اختیار کی ہے فقط اس سے Adjustہونے میں دقت پیش آرہی ہے۔ کاش میں انگریزی کے اس لفظ کا آسان اردو ترجمہ ڈھونڈسکتا۔ انکل گوگل بھی اس ضمن میں معاونت فراہم نہیں کرپارہا۔ مزید سوچا تو بلڈپریشر مشین دل گھبرادے گی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan