Mian Muhammad Baksh (19)
میاں محمد بخش (19)

نہ کوئی رو نہ ملاحضہ اُو تھے، ناں کوئی عذر بہانہ
جو کچھ کرسیں، سو یو ای ملسی، ڈاھڈا عدل شہانہ
Neither is any crime scene inspection there, nor any justification or excuse
What you do، so you will get, the Royal Justice is tough
عبدالرحمان، آؤ اب ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو سخت مگر جاگتے ہوئے مصرعوں پر غور کریں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو قیامت اور عدلِ الٰہی کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہیں:
یہاں شاعر انسان کو خبردار کرتا ہے کہ آخرت میں وہ عدالت نہیں جہاں دنیا کی طرح ثبوت چھپائے جا سکتے ہیں، گواہوں کو بدلا جا سکتا ہے، یا وکیل کے زورِ بیان سے گناہ چھپائے جا سکتے ہیں۔ وہاں نہ Crime Scene Investigation ہوگی، نہ جھوٹے بہانے چلیں گے۔ وہاں اعمال ہی بولیں گے اور بادشاہِ حقیقی (اللہ) کا عدل بہت سخت ہوگا۔
جانتے ہو کہ "وہاں کوئی تفتیش نہیں ہوگی"، اس کا کیا مطلب ہے؟
عبدالرحمان، دنیا کی عدالت میں جج کو حقیقت جاننے کے لیے Crime Scene دیکھنا پڑتا ہے، گواہ بلانے پڑتے ہیں، ثبوت تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن آخرت کی عدالت میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہاں اللہ خود جانتا ہے کہ کس نے کیا کیا۔
قرآن میں ہے: "يوم تبلى السرائر" (الطارق: 9)
"اس دن راز کھول دیے جائیں گے"۔
یعنی وہاں ہر چیز پہلے سے واضح ہوگی۔ کوئی پردہ، کوئی بہانہ، کوئی جھوٹ نہیں بچے گا۔
جانتے ہو کہ "کوئی عذر یا بہانہ نہیں چلے گا"، یہ کیوں؟
عبدالرحمان، دنیا میں انسان ہزار بہانے بناتا ہے۔ کہتا ہے: "یہ وقت کا دباؤ تھا، یہ حالات تھے، یہ میرے ساتھ ناانصافی تھی"۔ لیکن آخرت میں یہ سب بہانے ختم ہو جائیں گے۔ وہاں ہر شخص کے اپنے اعضاء گواہی دیں گے۔
قرآن کہتا ہے: "يوم تشهد عليهم ألسنتهم وأيديهم وأرجلهم بما كانوا يعملون" (النور: 24)
"اس دن ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے"۔
یعنی انسان خود اپنے خلاف گواہ بن جائے گا۔ پھر عذر کہاں بچے گا؟
جانتے ہو کہ "جو کرو گے، وہی پاؤ گے"، یہ اصول کیا ہے؟
عبدالرحمان، یہ اللہ کا عدل ہے۔ دنیا میں کئی بار نیکوں کو سزا ملتی ہے اور برے خوش رہتے ہیں۔ لیکن آخرت میں ایسا نہیں ہوگا۔ وہاں ہر نیکی کا بدلہ اور ہر برائی کی سزا عین انصاف کے ساتھ ملے گی۔
قرآن کہتا ہے: "فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره، ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره" (الزلزال: 7-8)
"جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ بھی دیکھ لے گا"۔
جانتے ہو کہ "عدلِ شاہی سخت ہے"، یہ کیسا عدل ہے؟
عبدالرحمان، دنیا کی عدالتیں کمزور ہیں۔ کبھی طاقتور مجرم بچ جاتے ہیں، کبھی کمزور بے گناہ سزا پا لیتے ہیں۔ لیکن اللہ کا عدل کامل اور سخت ہے۔ وہاں سفارش نہیں، رشوت نہیں، تعلق نہیں۔ وہاں صرف اعمال کا حساب ہے۔
اللہ فرماتا ہے: "ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا" (الأنبیاء: 47)
"ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو قائم کریں گے، کسی جان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا"۔
جانتے ہو کہ "آج کے انسان کے لیے اس شعر کا کیا پیغام ہے؟"
عبدالرحمان، آج لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی چالاکی سے قانون سے بچ جائیں گے۔ رشوت دے کر، تعلقات سے، یا جھوٹے ثبوتوں سے۔ لیکن ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ اللہ کی عدالت میں یہ سب کچھ نہیں چلے گا۔ وہاں نہ Crime Scene کی جانچ ہوگی، نہ وکیل، نہ جھوٹے گواہ۔ وہاں صرف اعمال سامنے آئیں گے۔
اس شعر کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کی عدالت کو دھوکہ دے بھی دو تو آخرت کی عدالت کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔
جانتے ہو کہ "عملی زندگی میں اس نصیحت پر کیسے عمل کریں؟"
عبدالرحمان، اس نصیحت پر عمل کرنے کے لیے تین باتیں یاد رکھو:
ہر عمل کو اللہ کی نظر میں دیکھو، یہ سوچو کہ اگر دنیا سے چھپ بھی جائے تو اللہ سے نہیں چھپے گا۔
توبہ کو معمول بناؤ، اگر کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً اللہ سے معافی مانگو، تاکہ آخرت کی عدالت میں وہ گناہ مٹا دیا جائے۔
انصاف کرو، دوسروں کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ اللہ کی عدالت میں ایک ذرہ بھی حساب سے رہ نہیں جائے گا۔
عبدالرحمان، حضرت علیؓ نے فرمایا: "دنیا کی عدالتوں سے بچ جانا آسان ہے، لیکن آخرت کی عدالت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ وہاں قاضی خود اللہ ہے، گواہ خود اعضا ہیں اور ریکارڈ خود اعمال کا ہے"۔
عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے قیامت اور عدلِ الٰہی کی یاد دہانی کرائی ہے۔ وہاں نہ Crime Scene Investigation ہوگی، نہ جھوٹے عذر چلیں گے۔ ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے کیا اور اللہ کا عدل سخت اور کامل ہوگا۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ دنیا کی چالاکیوں پر نہ بھروسہ کرو، اپنے اعمال کو درست کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ آخرت کی عدالت میں سب کچھ کھل جائے گا۔

