Halaat e Hazra Par Aik Tajzia
حالاتِ حاضرہ پر ایک تجزیہ

ہائبرڈ ریجیم جس کے روح رواں نے بہت پہلے ریاست کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کا اعلان کر دیا تھا، اس نے اپنے مشن کے اہداف مکمل کرنے کی خاطر آئینی ترامیم بھی کر لیں اور اس کے بعد ریاست مخالف قوتوں کو زچ کرنے یا فرسٹریٹ کرکے ان کو اس مقام تک پہنچانے کا سلسلہ ہم دیکھتے ہیں جہاں ان قوتوں کے خلاف فائنل کریک ڈاؤن یا آخری وار کرکے ان کو ٹی ایل پی جیسے انجام سے ہمکنار کر دیا جائے۔
یہ جو ریاست ہیں، جو خود کو ریاست ڈکلئیر کر چکے ہیں ان کی نظر سے ریاست مخالف قوتیں وہی ہیں جس کو وہ مخالف قرار دے دیں۔ عمران خان صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ مکمل بند کیا گیا اور ان کی جماعت کو اس نہج تک پہنچنے پر مجبور کر دیا گیا جہاں وہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ ان کو فرسٹریٹ کرنے کا یا تھکانے کا مرحلہ تھا۔ نتیجتہً جب ساری راہیں مسدود ہوگئیں تو اب پارٹی احتجاج یا سڑکوں پر آنے کی تیاری کر رہی ہے اور خان صاحب کی بہن بھارتی میڈیا چینلز پر ملک کی اندرونی صورتحال پر گفتگو فرما رہی ہیں۔
آپ، میں اور بہت لوگ اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کہ جو بھی ہو ان کو بھارتی میڈیا پر نہیں جانا چاہئیے تھا لیکن ایک دوسرا پوائنٹ آف ویو یا نقطہ نظر بھی ہے اور وہ زچ ہوئی جماعت کے کارکنان کی جانب سے ہے۔ جب تمام راہیں مسدود کر دی جائیں، جب قومی میڈیا پر خان کا نام لینے پر پابندی ہو، جب قومی میڈیا خان صاحب کی بہنوں کو کوریج دینے پر راضی نہ ہو تو پھر ان کو جو فورم دستیاب ہوگا وہ اپنے بھائی کے حق میں استعمال کریں گی۔ دوسری جانب منگل کے روز اڈیالہ کے باہر ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ اراکین کو احتجاج کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
نظام تین ہفتوں سے خان صاحب کی بہنوں سے ملاقات نہیں کرا رہا۔ یعنی قیدی کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں ایسا کرکے کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ صرف مزید نفرت پھیلے گی اور پھیل رہی ہے۔ کیا ہو جائے گا ملاقاتوں سے؟ کونسا ایسا آسمان گر پڑے گا جو اب تک نہیں گرا؟ آپ خان صاحب کو جو بھی مانیں لیکن قیدی کے بنیادی حق سے تو محروم نہ کریں۔ عجیب حکومت یا ان کے کرتے دھرتے ہیں جو اتنی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسی حرکتیں ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ ان سے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ ایک باشعور انسان یہی سوچے گا کیونکہ ملاقاتوں سے روکنے کی منطق سمجھ سے بالا محسوس ہوگی لیکن۔۔ لیکن شاید "وہ" یہی چاہتے ہیں۔ جیسا کہ کہا نظام زچ کر رہا ہے۔ ان کو فرسٹریٹ کرکے باہر نکالنا ہی شاید مشن ہے اور اس طرح ان کو ریاست مخالف سرگرمیوں کا لیبل دے کر کالعدم قرار دینا یا ان کو ہر سطح (اسمبلیوں، صوبائی حکومت، گراؤنڈ پریزینس) سے چلتا کرنا ہے اور پی ٹی آئی بھی "آ بیل مجھے مار" کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی اور ان کے قائد کا کہنا ہے کہ وہ نو مئی کو ٹریپ ہوئے۔ وہ اسے فالس فلیگ آپریشن قرار دیتے آئے ہیں۔ جو حالات بنتے نظر آ رہے ہیں اس میں ایک بار پھر یہ "ٹریپ" ہوتے لگ رہے ہیں۔ اس تازہ سلسلے کا آغاز خیبر پختونخوا میں سہیل آفریدی کے آنے کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے سخت زبان کا استعمال کرنا شروع کیا اور کارکنان نے احتجاج کی دُھن بجانا شروع کر دی۔ آفریدی صاحب کی جذباتی تقاریر اور زمینی حقائق کے منافی دھمکیانہ بیانات نے اس صورتحال کو جنم دینا شروع کیا جس کا سلسلہ ہمارے سامنے ہے۔
پچھلے دنوں اچانک نواز شریف صاحب فعال ہوئے ہیں۔ انہوں نے وہ گفتگو کرنا شروع کی جو غیر متعلقہ تھی۔ مطلب ان کے مخالف عمران خان نے کیا کیا اور اسے کون لایا وغیرہ وغیرہ آج کے حالات میں دہرانا سراسر غیر ضروری تھا۔ حکومت ان کی ہے۔ بھائی ان کا وزیراعظم ہے۔ بیٹی ان کی پنجاب میں براجمان ہے۔ نظام کے یہ بڑے حصہ دار ہیں اور اب تو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ احتساب کا مطالبہ یہ کس سے کر رہے تھے۔ کر لیں جنرل باجوہ، ثاقب نثار، بندیال، اعجاز الاحسن، کا احتساب کس نے روکا ہے؟ بنا لیں ریفرنسز اور عدالت جائیں۔ جے آئی ٹی بنائیں اور احتساب شروع کر دیں۔ مطالبہ کس سے ہے؟ اس بیچارگی سے محسوس ہوتا ہے کہ دراصل ان کے بس میں کچھ نہیں اور طاقت کا مرکز کہیں اور ہے۔ یہ بات تو اس ملک کے بچے بچے کو معلوم ہے۔ جب یہ سب واضح ہے تو نوازشریف صاحب کو ایسی بین بجانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا انہوں نے مشرف کا احتساب کر لیا تھا؟
ہائبرڈ نظام کے اندر بھی سب اچھا نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے اپنے مسائل ہیں۔ ان کو اٹھائیسویں ترمیم کے لیے "راضی" کیا جا رہا ہے جو ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ این ایف سی، بلدیاتی نظام، نہری یا آبی وسائل جیسے اختیارات کی تقسیم پیپلزپارٹی کو سوٹ نہیں کرتی۔ نوازشریف صاحب نے بھی اس نظام کا جو بوجھ ڈھویا ہے وہ اس کا انعام مانگتے ہیں۔ تو مسائل نظام کے اندر موجود ہیں۔ لیکن سادہ یا موٹی بات یہ ہے کہ یہی نظام ان دونوں جماعتوں کی انشورنس پالیسی ہے۔ اس لیے چوں چاں کے ساتھ یہ اسی کا حصہ رہیں گے زیادہ ہچڑ مچڑ افورڈ نہیں کر سکتے۔
لوگ کہتے ہیں پاکستان نارتھ کوریا ماڈل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ نارتھ کوریا بنے یا مثالی جمہوری نظام کی جانب بڑھے۔ عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اصل میں یہ فیصلہ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد کیا جاچکا تھا کہ یہاں کے عوام کو ہمیشہ اس اذیت میں مبتلا رکھنا ہے کہ ان کو ایک نوالے کی فراہمی بھی من و سلویٰ لگے۔ اتنے زخمی ہوں کہ طبیعت پوچھنے پر بھی ساری زندگی شکرگزاری میں تعریف کی تسبیح پڑھتے رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم سب اس بدحالی کا شکار ہوتے جس نے ہماری کمزور ترین امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے؟
خیر، آخر میں یہ بھی کہتا چلوں کہ عمران خان صاحب کی صحت بابت ان کے چاہنے والے مطمئن رہیں۔ وہ صحیح سلامت ہیں۔ یہ نظام ایسا کچھ افورڈ ہی نہیں کر سکتا جس طرح کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔ خان صاحب کو اتحادی حکومتی جماعتوں کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے۔ صاحب لوگ کبھی بھی کسی کا مکمل خاتمہ نہیں کرتے۔ وہ متبادل گھوڑا ہر دم تیار رکھتے ہیں نجانے کب اس پر کاٹھی ڈالنا پڑ جائے۔ زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب کبھی سسٹم کے لیے ناقابل قبول تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام کیسز اڑ گئے۔ تاحیات نااہلیاں ختم ہوگئیں۔
سسٹم کی یہی کامیابی ہے اس نے کب کس پرزے سے کام لینا ہے سسٹم جانتا ہے۔ اس سسٹم کے جو کسٹوڈین ہیں وہ سب کے محافظ ہیں۔ اثاثے مکمل تلف نہیں کرتے۔ نرسری میں اگائے پودوں کو درخت بناتے ہیں۔ پھر درخت کی کاٹ چھانٹ کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ اسے جڑ سے نہیں اُکھاڑتے۔ یہ سسٹم موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن یا ڈنڈا پروگرام کی صورت اس کی مزید کاٹ چھانٹ کر سکتا ہے لیکن جماعت کی جڑ کو محفوظ رکھے گا۔ پی ٹی آئی کسی سیاسی جماعت یا سیاسی گروہ کا نہیں، عمران خان کا نام ہے۔

