تربیت کا بھاری پتھر کون اٹھائے گا ؟
رسول رحمتﷺکی حدیث کا مفہوم ہے کہ والدین کا اپنی اولاد کے لئے بہترین تحفہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے تعلیم و تربیت کی جامع اور مکمل اصطلاح کو چھوڑ کر صرف تعلیم کا انتخاب کرلیا ہے، وہ بھی صرف ڈگری کے حصول کی بھا گ دوڑ سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ اس ڈگری کی بنیاد پر نوکری حاصل کی جا سکے۔ تربیت ڈگری کی طرح کاغذ کا ٹکڑا نہیں کہ سیلف فنانس پر حاصل کر لیا جائے۔ تربیت کوئی سوئچ بھی نہیں ہے کہ آن کردیا تو تربیت کاعمل شروع ہو گیا، تربیت ایک مسلسل ریاضت کا نام ہے، یہ ریاضت والدین کو خود کرنی پڑتی ہے۔
جب آپ بچوں کو کسی چیز سے روکتے ہیں تو اس سے پہلے آپ کو خود رکنا پڑتا ہے۔ آپ بچوں کو کتاب دوست بنانا چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ خود تو موبائل پر ویڈیو گیمز کھیلتے رہیں اور بچوں کو کتاب پڑھنے کی نصیحت کریں، آپ کو اپنا سیل فون بند کر کے کتاب اٹھانی پڑتی ہے۔ آپ کو ٹی وی کا سوئچ بند کرنا پڑتا ہے تاکہ کتاب دوست ماحول بنایا جا سکے۔
آپ چاہتے ہیں کہ بچے رات کو جلدی سوئیں اور صبح جلدی بیدار ہوں تو آپ کو اپنے لیٹ نائٹ ٹی وی پروگرام چھوڑنا پڑتے ہیں۔ آپ کو گھر کا پورا ماحول اس ایک روٹین میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے نماز پڑھیں تو آپ کو ان کے ساتھ نماز پڑھنی پڑتی ہے۔ آپ بچوں کو اخلاقی اقدار سکھانا چاہتے ہیں تو آپ کو خود اپنے کردار کی منڈیر ان روشن دیوں کو جلائے رکھنا پڑتا ہے۔ وہ روشنی آپ کے عمل سے منعکس ہو گی تو بچے خود بخود اس روشنی کو جذب کرنے لگیں گے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے تمیز اور شائستگی کے ساتھ بات کریں اور تو تڑاخ اور گالی گلوچ سے پرہیز کریں تو آپ کو اپنے زبان اور بیان میں تمیز اور شائستگی پیدا کرنی پڑتی ہے، برداشت اور رواداری کو اپنے عمل کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔ میاں اور بیوی کو آپس میں ایک دوسرے کی عزت کرنا پڑتی ہے۔ اگر والد صاحب ٹریفک کا اشارہ توڑیں گے تو بیٹا یہ دیکھتے ہوئے ٹریفک قوانین احترام نہیں سیکھ سکتا۔ قدرت نے آپ کو اولاد کے تحفے سے نوازا ہے تو پھر آپ کو اپنی ذاتی زندگی کی بہت سی دلچسپیوں کو چھوڑنا پڑتا ہے تاکہ آپ انہیں بہتر انسان بنانے کے لیے اس مسلسل ریاضت سے گزر سکیں جو تربیت کے سفر میں درکار ہے۔
تربیت ایک بھاری پتھر ہے اور آج کے والدین اس پتھر کو اٹھانے سے انکاری ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے بہت سی ضروری چیزیں ہمارے ہاں آؤٹ آف ڈیٹ ہو کر رہ گئیں ہیں۔ خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے لیے ہم نے امپورٹ کیے ہوئے نت نئے طریقے اپنا لیے ہیں، ایسے میں تربیت کا تصور گھر کے پرانے سامان کی طرح ناکارہ ہوچکا ہے۔
ہمارے یہاں والدین زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ بچوں کو اپنی بساط کے مطابق مہنگے سکول میں داخل کرا دیا۔ اسکول کے بعد قاری صاحب نے آکر بچوں کو سپارہ پڑھا دیا۔ پھر بچوں کو ٹیوشن سینٹر بھیج دیا، اسکول کا ہوم ورک کر لیا۔ رات ہوئی، بچے سو گئے اور صبح پھر اسکول گئے، اس کے بعد پھر وہی روٹین۔ اس تمام عرصے میں بچے تو پروان چڑھتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ والدین اور بچوں کے درمیان دوری کی ایک وسیع خلیج بھی پروان چڑھتی ہے جسے عرف عام میں کمیونیکیشن گیپ کہا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اخلاقی زوال کا سبب یہ ہے کہ تعلیم کے دائرے سے تربیت کو خاموشی سے نکال دیا گیاہے اور تعلیم کاحصول بھی زیادہ سے زیادہ نمبروں کی دوڑ بن کر رہ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طالب علم نشے کا شکار ہو رہے ہیں، گزشتہ برس کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر سال چالیس ہزار طالب علم نشے کا شکار ہورہے ہیں۔ اس میں سے سے 70 فیصد لڑکے اور 22 فیصد لڑکیاں ہیں۔ مہنگے تعلیمی اداروں میں نشے کارحجان عام تعلیمی اداروں کے برعکس زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں جو طالب علم آتے ہیں وہ دولت مند خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نشہ لگانے والا مافیا ان طالبعلموں کو ہی شکار کرتا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ نظر سے گزری جس میں 18 سے 28 سال کے وہ نوجوان جو اپنے تعلیمی اداروں میں کسی نہ کسی صورت میں نشے کا شکار ہوئے ان سے سوالات کیے گئے تاکہ ان کا گھر کاپس منظر سامنے آ سکے۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ بچے جن کا اپنے والدین کے ساتھ تعلق مضبوط نہیں تھا وہ نشے کی لت کا شکار ہوئے۔
انٹرویو کے دوران جو سوالات کئے گئے اس میں ان بچوں کے گھر کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی گئی جو چیز سامنے آئی وہ یہ تھی کہ نشے کا شکار ہونے والے بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ ایک کمیونیکیشن گیپ تھا۔ اولادکی تربیت صرف ماں کی ذمہ داری نہیں بلکہ باپ کا بھی فرض ہے۔ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا ان کے والد ان کی روزانہ کی روٹین جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وقت کیسے گزارا، کن دوستوں سے ملے؟ نشے کا شکار ہونے والے تمام نوجوانوں میں یہ بات مشترک تھی کہ ان کا اپنے والد سے خوفناک حد تک کمیونیکیشن گیپ تھا۔ والدین کی عدم توجہی کی بنا پر صرف لڑکے نہیں لڑکیاں بھی نشے میں پناہ ڈھونڈتی ہیں۔
تعلیم کے نام پر ایسے طالب علموں کے پاس مہنگے تعلیمی اداروں کی ڈگریاں تو موجود تھیں لیکن تربیت کے خلا نے ان کی زندگیوں کو اخلاقی بے راہ روی کی تاریکی سے دوچار کر دیا تھا۔ آئے روز ہونے والے سانحات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تربیت کرنے کا عمل رک چکا ہے۔ تعلیمی ادارے کاروبار کے اڈے ہیں جن کے نصاب میں تربیت کی گنجائش نہیں۔ اس کے بغیر معاشرے کی وہی حالت ہوتی ہے جو آج ہماری ہوچکی ہے۔