مسعود اشعر کا صحافتی اثاثہ
مسعود اشعر صحافیوں کی اس قبیل سے تھے جو بیک وقت ادب و صحافت دونوں سے وابستگی نبھاتے ہیں۔ ان کے نزدیک صحافت شعر و ادب کو سمجھے بغیر ممکن نہیں اور اسی طرح شعر اور کہانی کی سمجھ بھی اس وقت نہیں آتی جب تک سماج اور سیاست کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے۔ صحافت وہ میدان ہے جو براہ راست ادب سماج اور سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ مسعود اشعر نے اپنی تمام عمر ادب، سماج اور سیاست کی اسی تکون میں بسر کی۔ یہ چیز آج کے نوجوان صحافیوں کے لیے سمجھنا از حد ضروری ہے جو اپنی صحافت کا آغاز ہی بولنے سے کرتے ہیں۔ لکھے ہوئے لفظ کی حرمت اور وقعت کیا ہوتی ہے یہ جاننے کے لیے مسعود اشعر جیسے استادوں کی شاگردی کرنا پڑتی ہے مگر اب تو مسعود اشعر بھی اپنی زندگی کی نوے بہاریں دیکھ کر خالق حقیقی کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ صحافت میں ایسے استاد اب اور کتنے ہیں۔ شاید گنتی کے جن سے چند منٹ کی گفتگو کرلیں تو ہم جیسے اپنے تلفظ کی گئی غلطیاں درست کرسکتے ہیں، اسی طرح ان کی نتھری ہوئی صاف ستھری نثر پڑھ کرلفظ برتنے کا سلیقہ سیکھ سکتے ہیں۔ مسعود اشعر بھی ایسے ہی علم دوست صحافتی تھے جن سے گفتگو اور ملاقات میں ہر بار کوئی نئی بات سیکھنے کو ملتی۔
پوری زندگی انہوں نے حرف و لفظ میں بسر کی۔ صحافت کا آغاز روزنامہ امروز سے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا اور جب امروز کو خیر باد کہا تو وہ امروز کے ایڈیٹر تھے۔ کل جب ان کی وفات کی خبر فیس بک پر دیکھی تو یوں لگا جیسے کوئی اچانک محفل سے اٹھ کر چلا گیا ہو جس کے جانے کا گمان نہیں تھا۔ حالانکہ ماشاء اللہ انہوں نے نوے برس کی طویل عمر پائی لیکن ان کو ہمہ وقت ادب و صحافت کے مختلف زاویوں میں مصروف دیکھ کر ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ آرام کرنے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔
آخر وقت تک وہ اخبار کے لیے کالم لکھتے رہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں سادہ اور نتھری ہوئی نثر میں لکھے گئے کالموں میں ادب، صحافت، سماج، مذہب، ثقافت کے مختلف رنگ جھلکتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ باقاعدہ افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوی مجوعے آنکھوں پر دونوں ہاتھ، اپنا گھر، سارے افسانے کے نام سے شائع ہوئے۔ افسانوں کی آخری کتاب سوال کہانی 2020ء میں شائع ہوئی۔ انہوں نے خود کو آخری عمر تک تخلیقی اظہار میں مصروف رکھا۔
گاہے حیرت ہوتی ہے کہ صحافت کی ہمہ جہت ذمہ داریوں کے ساتھ کس طرح وہ کہانیوں کے کردار تراشتے رہے اور افسانہ نگاری میں بھی اپنا حصہ اس خوبصورتی سے ڈالا کہ افسانوں کے چار مجموعے پڑھنے والوں کو دے گئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ صحافت کے لیے ایک خاص طرح کا طرز تحریر اور زاویہ نگاہ درکار ہوتا ہے جبکہ ادب تخلیق کرنا ایک اور طرح کی سرگرمی ہے۔ میرے لیے یہ کہنا جگ بیتی نہیں بلکہ خود پر بیتی ہوئی واردات ہے۔
صحافت میں رہ کر ادب تخلیق کرتے رہنا حرف ولفظ کے ساتھ بہت بڑی کمٹمنٹ ہے جو مسعود اشعر نے کمال نبھائی۔ صحافیوں کے جس قبیل سے مسعود اشعر کا تعلق تھا، وہ قبیل اب جدید طرز کی لائوڈ سپیکر صحافت میں ناپید ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بولتے تھے تو سننے والا اپنا تلفظ اور لب و لہجہ درست کرسکتا تھا۔ ان کی تحریریں پڑھ کر طالب علم اردو سیکھتے تھے۔
مگر ادب و صحافت سے جڑے ہوئے ایسے بڑے نام آپ نے شاذ ہی کسی ٹی وی کے ٹاک شوز میں دیکھے ہوں گے کیونکہ ان کا ادب اور تہذیب میں رچا بسا گفتگو کا انداز پروگرام کے فارمیٹ میں فٹ نہیں ہوتا۔ کہاں ٹھہر ٹھہر کر دل نشین انداز میں گفتگو کرنے کا انداز، لہجے کا اتار چڑھائو، تہذیب میں رچا بسا۔ بات کرنا اور دوسرے کو بات کرنے دینے کی شائستگی اور کہاں ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں چیختے چلاتے ہوئے سوالات کے ہتھوڑے برساتے اینکر اور ایک دوسرے کو لفظوں کے گھونسے مارتے دھاڑتے ہوئے شرکائے گفتگو۔ جن کے لیے لفظ گفتگو اضافی اور غیر ضروری ہے کیونکہ لفظوں کے گھونسے مارتے مارتے باقاعدہ ایک دوسرے کے گریبان کھینچتے اور ایک دوجے سے گتھم گتھا ہوتے ہوئے ٹاک شوز کے مہمان جن کو دیکھ کر بدتہذیبی، چیخنا چلانا، بات کاٹنا اورباتوں کے تیر چلانا تو سیکھا جا سکتا ہے مگر وہ جسے گفتگو کہتے ہیں وہ سیکھی نہیں جا سکتی بلکہ ایسے ٹاک شوز دیکھنے سے تو اخلاق بگڑنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے شاید جون ایلیا نے ایسے ہی ٹاک شوز کے بارے میں کہا تھا۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک، بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی۔ مسعود اشعر جو صحافت کا ایک ممتاز ترین نام تھے ادب کے شناور بھی تھے۔ سیاست اور سماج پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے، آپ نے انہیں کبھی کسی پرائم ٹائم ٹاک شوز میں نہیں دیکھا ہوگا۔ محمود شام بھی صحافت کے اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو شعر و ادب سے بھی اپنی وابستگی نبھا رہے ہیں۔ پھر سیاست اور سماج کا گہرا مطالعہ ان کے تجزیے اور مشاہدے کو وزن دیتا ہے مگر محمود شام بھی الیکٹرانک میڈیا کچھ عرصہ جوائن کرنے کے باوجود وہاں مس فٹ رہے کیونکہ ٹاک شوز میں جس انداز میں اچھل اچھل کر گفتگو کی جاتی ہے اور بات سننے کی بجائے دوسرے کے منہ سے چھینی جاتی ہے ایسے ماحول میں کوئی ٹھہر ٹھہر کرگفتگو کرنے والا کیسے کامیاب ہو سکتا ہے اور دن بدن یہاں وہ زوال آ رہا ہے کہ والدین بچوں کے سامنے سیاسی ٹاک شوز سننے سے گریز کرنے لگے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پرانے بادہ نوش تو اٹھتے جاتے ہیں، ان کے بعد منظر نامے کو بھرنے والے جو لوگ ہوں گے ان کی تربیت بھی ہم نہیں کرسکے۔ آئی اے رحمان، مسعود اشعر، منو بھائی، شفیق مرزا، انور قدوائی یہ لوگ تو اپنے حصے کا شاندار کام کرکے اپنا اثاثہ لفظوں کی صورت میں چھوڑ کر عدم کوسدھار گئے۔ اس قبیل کے کچھ اور چراغ باقی ہیں جو ابھی اپنی روشنی پھیلا رہے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ نواردان صحافت بزرگان کے اس انمول اثاثے کو سنبھالنے کو تیار نہیں۔
الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا کا سونامی رہی سہی اخلاقی اور صحافتی قدروں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ پہلے تو ہم صرف غلط تلفظ بولنے پر شاکی رہتے تھے۔ کتابچہ کو کتا اور بچہ پڑھنے والے نیوز اینکرز پر پریشان ہوتے تھے مگر سوشل میڈیا کی بے نگام صحافت کو اگر اخلاقی اور صحافتی اقدار نہ سکھائی گئیں تو ہم اس معاشرے میں بہت کچھ کھودیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کو جو صحافتی اثاثہ مسعود اشعر جیسے استاد صحافی اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر گئے ہیں، وہ اثاثہ ان تک منتقل کیا جائے ورنہ اخلاقی اور صحافتی اقدار کا منظر نامہ بہت تیزی سے ویران ہورہا ہے۔