کپتان
وزیر اعظم کی ٹیم میں ردوبدل دیکھ کر ان کا بطور کرکٹ کپتان وہ دورہ بھارت یاد آگیا جو 1987ء میں ہوا تھا۔ اس دورے کے پہلے دو ٹیسٹ ڈرا ہوئے تو انہوں نے ٹیم میں ردوبدل کے لئے اقبال قاسم، یونس احمد اور اعجاز فقیہ کو پاکستان سے طلب کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں کھلاڑی کرکٹ کی اصطلاح کے مطابق "بوڑھے" تھے۔ ان میں سے اقبال قاسم تھے تو اہم باؤلر مگر غیر علانیہ ریٹائرڈ تصور کئے جا رہے تھے۔ جبکہ باقی دونوں میں سے اعجاز فقیہ نے کل 4 ٹیسٹ میچ کھیل کر 80 کے لگ بھگ رنز بھی بنا رکھے تھے مگر تھے وہ باؤلر اور بھارت انہیں بطور باؤلر ہی طلب کیا گیا تھا۔ تب تک بطور باؤلر ان کی کارکردگی یہ تھی چار ٹیسٹ میچز میں 3 وکٹیں لے رکھی تھیں۔ سب سے حیران کن معاملہ یونس احمد کا تھا۔ یونس نے اس دورے سے 19 سال قبل 1969ء میں صرف 2 ٹیسٹ میچ کھیل رکھے تھے۔ یونس احمد جب تیسرے ٹیسٹ میں عمران خان کے حسن انتخاب کی حیثیت سے 14 رنز بنانے کے لئے پچ پر آئے تو ان کی عمر چالیس سال تھی۔ اس پیرانہ سالی میں 14 رنز ہی بہت تھے مگر عمران خان نے انہیں ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا جس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر انہوں چالیس سال کی عمر میں 36 رنز بھی بنا کر دکھا دئے۔ چونکہ یہ عمران خان کی ٹیم کے ایک رکن کی کارکردگی ہے لھذا قارئین پر لازم ہے کہ اسے "کارنامہ" سمجھا جائے اور دو ٹیسٹ میچز کا تجربہ رکھنے والے چالیس برس کے بوڑھے کو 18 سال بعد واپس لانا وزیر اعظم عمرانخان کا "وژن" بھی تصور کیا جائے۔ یونس احمد نے اوپنر رضوان الزاماں کی جگہ لی تھی مگر کھیلے مڈل آرڈر میں تھے۔ دوسرے ٹیسٹ میں سینچری بنانیوالے شعیب محمد تیسرے ٹیسٹ کی دونوں انگز میں ناکام ہوئے تو چوتھے ٹیسٹ میں ان کی جگہ ایک اور بڑے میاں اعجاز فقیہہ کو موقع دیا گیا۔ کمال یہ ہوا کہ بڑے میاں نے سینچری داغ دی مگر دھمال یہ ہوا کہ پانچویں ٹیسٹ میں خان نے انہیں ایک ایسی وکٹ پر ڈراپ کردیا جو بیٹسمینوں کا قبرستان ثابت ہوئی تھی اور وجہ یہ بنی تھی کہ اعجاز فقیہہ کو پاکستان سے بلوایا باؤلنگ کیلئے گیا تھا اور داغ انہوں نے سینچری دی تھی۔ اس تاریخی دورے میں پاکستان کی جانب سے بطور اوپنر شعیب محمد، رضوان الزامان، رمیز راجہ، سلیم یوسف اور جاوید میانداد کھیلے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اوپننگ کے معاملے میں کپتان اس دورے کے دوران کسقدر "وژنری" ثابت ہوئے تھے۔ چار ٹیسٹ ڈرا ہوئے تو آخری ٹیسٹ کیلئے بنگلور میں سپنر کو مدد دینے والی وکٹ بنائی گئی۔ پاکستان کی پوری ٹیم پہلی اننگز میں 116 پر ڈھیر ہوگئی۔ بھارت کی طرف سے ان کے آف سپنر مہندر سنگھ نے 7 وکٹیں لے کر تباہی مچائی تھی۔ بھارت بیٹنگ کرنے آیا تو اس کی ٹیم بھی صرف 145 رنز پر چلتی بنی۔ پاکستان کی جانب سے دونوں سپنرز توصیف احمد اور اقبال قاسم نے پانچ پانچ وکٹیں لے کر ان کی بیٹنگ لائن کو بکھیر دیا تھا۔ پاکستان دوسری اننگز کے لئے آیا تو قدرے بہتر 249 رنز بنائے جا سکے۔ اس بار بھارت کی جانب سے اس کے دو سپنرز مہندر سنگھ نے 3 جبکہ روی شاستری نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ بھارت آخری اننگز میں صرف 204 رنز بنا سکا اور اس اننگز میں توصیف و اقبال قاسم نے چار چار وکٹیں لیں۔ چار ٹیسٹ ڈرا ہوچکے تھے یوں یہ میچ جیت کر پاکستان سیریز بھی جیت گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس آخری میچ میں مقابلہ صرف چار کھلاڑیوں میں رہا تھا۔ یہ چار کھلاڑی بھارت کی جانب سے مہندر سنگھ اور روی شاستری جبکہ پاکستان کی جانب سے توصیف احمد اور اقبال قاسم تھے۔ میچ کی بیس میں سے 18 وکٹیں لینے والے توصیف احمد اور اقبال قاسم پاکستان کی طرف سے ہیرو تھے مگر خبر دار جو آپ نے اسے عمران خان کے بجائے ان دونوں کا کارنامہ سمجھا۔ ہمارے عظیم کپتان کے اس تاریخی دورہ بھارت کے ساتھ ساتھ 1992ء والے ورلڈکپ کے حوالے سے بھی ہم بخوبی جانتے ہیں یہ صرف اور صرف ہمارے عظیم کپتان کے کارنامے ہیں باقی ٹیم کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تب بھی ہر میچ میں ٹیم میں تبدیلیاں ہوتی تھیں اور سیاست کے میدان میں بھی ان کی ٹیم بڑے ردوبدل سے گزر رہی ہے۔ مگر کپتان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ کرکٹ کے میدان میں اگر ٹیم ہار جائے تو اس سے کسی غریب کا چولہا نہیں بجھتا، کرکٹ کی شکست سے روپے کی قیمت کم نہیں ہوتی، ٹیسٹ میچ ہارنے سے سٹاک مارکیٹ کی صحت پر فرق پڑتا ہے اور نہ ہی ونڈے کی شکست دیکھ کر انویسٹر بھاگتا ہے۔ ورلڈکپ کا فائنل ہارنے والے ملک کو آئی ایم ایف یا ورلڈبینک کے پاس بھی نہیں جانا پڑتا۔ اس کے برخلاف سیاست کے میدان میں آپ کے پاس خراب کارکردگی کا آپشن نہیں ہوتا۔ یہاں آپ کو ٹیم اور حکمت عملی سوچ سمجھ کر ترتیب دینی پڑتی ہے۔ کیونکہ یہاں روپے کی قدر سے لے کر غریب کی روٹی تک ہر چیز کا دارومدار آپ کی ٹیم اور فیصلوں پر ہوتاہے۔ آپ آٹھ سال تک یہ کہتے رہے کہ اسد عمر میرا وہ اوپننگ بیٹسمین ہے جس کی کارکردگی سے "میں " پاکستان کی تقدیر بدل دوں گا، لیکن جب عمل کا مرحلہ آیا تو وہ اسد عمر آپ کا سب سے بدترین انتخاب ثابت ہوا۔ المیہ ہی ہے کہ جس کے لئے آٹھ سال ڈھول پیٹا گیا وہ صرف آٹھ ماہ چل سکا۔ اسی اسد عمر کی کرائی گئی یقین دہانیوں کی بنیاد پر آپ نے کہا تھا " آئی ایم ایف کے پاس نہ جاؤں گا" لیکن جب عمل کا وقت آیا تو آپ تاریخ کے پہلے وزیراعظم ثابت ہوئے جو بنفس نفیس آئی ایم ایف کے پاس چل کر گئے۔ اسد عمر کا باب تو بند ہوگیا مگر اس باب کے بند ہوتے ہی یہ لطیفہ کھڑا ہوگیا ہے کہ آٹھ ماہ سے آپ مسلسل یہ بیانیہ پیش کرتے رہے کہ معیشت کا بیڑا پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے غرق کیا ہے۔ اور اب اسد عمر کی جگہ آپ نے اس حفیظ شیخ کو دیدی جو پیپلزپارٹی کے وزیر خزانہ رہے۔ یعنی جو آپ کی نظر میں معیشت کی تباہی کے ذمہ داروں میں سے ہے اسی عطار کے لونڈے سے نہیں بلکہ عین اسی عطار سے اب آپ علاج بھی کرانے چلے ہیں۔ اسد عمر کی جگہ پیپلزپارٹی کے حفیظ شیخ کو لانا ایسا ہی ہے کہ جیسے بھارت کے خلاف کھیلنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے نوجوت سنگھ سدھو سے اوپننگ کروائی جائے۔ آپ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے محتاج نظر آئیں۔ اس باب میں صرف حفیظ شیخ پر ہی کیا موقوف آپ کی تو پوری ٹیم مخالف ٹیموں کے کھلاڑیوں سے بھری نظر آرہی ہے۔ اب کلیدی وزارتوں کے لئے بھی آپ کے پاس کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جو آپ کی اپنی دریافت ہو۔ آپ کا وزیر داخلہ پرویزمشرف کی ٹیم کا ہے۔ آپ کے وزیر خارجہ و مشیر خزانہ پیپلز پارٹی کے ہیں اور آپ کی مشیر اطلاعات پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی دونوں کی مشترکہ باقیات ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بنانا آپ نے نیا پاکستان ہے مگر اس کام کے لئے آپ کے پاس قابل کابینہ نہیں ہے۔