Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Dunya Ka Sab Se Pyara Bacha

Dunya Ka Sab Se Pyara Bacha

دنیا کا سب سے پیارا بچہ

موت زندگی کا وہ آخری دروازہ ہے جس سے ہر ذی روح نے گزرنا ہے۔ یہ جسم سے روح کی وہ ابدی جدائی ہے جس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ موت انسان کو اس کی حقیقت یاد دلاتی ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کی ہر چیز عارضی ہے۔ جب کوئی عزیز موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، تو زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے وقت بھی مشکل سے ہی بھر پاتا ہے۔ مذہبِ اسلام میں موت کو ایک نئے سفر کا آغاز اور خالقِ حقیقی سے ملنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جو سوگواروں کے لیے تسلی کا باعث بنتا ہے۔

ہر قریبی عزیز کی موت اک تکلیف دہ سانحہ ہوتی ہے لیکن بیٹے کی موت ایک ایسا جان لیوا صدمہ ہے جس کا مداوا لفظوں میں ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جو والدین کی کمر توڑ دیتا ہے اور ان کی زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والا خلا پیدا کر دیتا ہے۔ بیٹا فقط ایک نام یا رشتہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ والدین کے خوابوں کا امین، ان کے مستقبل کی امید اور ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے۔ اس کے بچپن کی شرارتوں سے لے کر جوانی کے ولولوں تک، ہر لمحہ ایک خوبصورت داستان کی طرح والدین کے دل پر کندہ ہوتا ہے۔ جب وہی بیٹا آنکھوں کے سامنے سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائے، تو ایسا لگتا ہے جیسے دنیا کی ساری روشنیاں گل ہوگئی ہوں۔

بیٹے کا جنازہ اٹھانا باپ کے لیے دنیا کا سب سے بھاری بوجھ ہے۔ وہ کندھے جو اسے دنیا کی سیر کرانے کے لیے تھے، اب اسے منوں مٹی تلے دبانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت ماں کی ممتا جس کرب سے گزرتی ہے، اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ تہی دامن ہیں۔ گھر کا وہ کمرہ جو اس کے قہقہوں سے گونجتا تھا، اب ایک بھیانک خاموشی کا مسکن بن جاتا ہے۔ اس کے کپڑے، اس کی کتابیں اور اس کی یادیں ہر پل یہ احساس دلاتی ہیں کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، اولاد کی موت ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیمؑ کی وفات پر آنسو بہائے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اولاد کا غم فطری ہے اور رونا بے صبری نہیں بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان والدین کے لیے جنت میں "بیت الحمد" (تعریف کا گھر) بنانے کا وعدہ کیا ہے جو اس عظیم صدمے پر صبر کرتے ہیں اور "انا للہِ وانا الیہِ راجعون" پڑھتے ہیں۔

بیٹے کی جدائی کا زخم کبھی نہیں بھرتا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ یادوں کی ایک ایسی میٹھی کسک بن جاتا ہے جو والدین کو آخرت میں دوبارہ ملنے کی امید دلائے رکھتی ہے۔ زندگی کے ان مشکل مراحل میں صبر و رضا کا دامن تھامے رکھنا ہی انسان کو ذہنی اور روحانی سکون فراہم کر سکتا ہے۔ وہ صبر جو کربلا والوں نے زمانے کو سکھایا، وہ رضا جو کریمِ کربلاؑ، نواسہِ رسول ﷺ امامِ عالی مقامؑ، فخرِ خلیلؑ، مولا حسینؑؑ نے اپنے فخرِ اسماعیلؑ یبٹے شاہزادہ علی اکبرؑ کی لاش پہ خالقِ اکبر کی بارگاہ میں سجدہِ شکر ادا کرکے ہمیں سکھائی، وہ صبر جو مولا علیؑ کے دل کے چین، سیدہ فاطمہ سلام اللہِ علیھا کے نورِ عین، مولا حسینؑ نے اپنے ذبحِ عظیم کے مصداق بیٹے شاہزادہ علی اصغرؑ کی ننھی لاش کو دفنانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے اک چھوٹی سی قبر کھود کر، بیٹے کو دفنا کر، تپتے صحرا کی گرم گرم ریت اصغر کے نازک رخساروں پہ ڈال کر ہمیں سکھایا۔ تبھی تو بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی ہمارے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں اور ڈوبتی سانسوں کو کربلا سہارا دے کر تھام لیتی ہے۔ بقولِ شاعر

اپنے غموں میں آیا جو شبیرؑ کا خیال
شکوہ تڑپ کے شکر میں تبدیل ہوگیا

ہر غم میں کربلا نے سہارا دیا ہمیں
ہر غم غمِ حسین میں تحلیل ہوگیا

یہ کالم اس بچے کے نام جو اس دنیائے رنگ و بو میں صرف چار سال کے لیے آیا تھا۔ (6 اگست 2021 تا 22 دسمبر 2025) جس کی قربت اک حسین اور مختصر سی جھلک تھی، جو اک پھول کی طرح کھلا اور جلد مرجھا گیا۔ بقولِ شاعر

تری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں

اس فرشتہ صورت بچے کا نام اشعل عباس تھا۔ اشعل عباس کے نام کے ساتھ، تھا، لکھتے ہوئے دل پہ اک چوٹ سی لگی ہے۔ اشعل میرے ماموں زاد بھائی کا منجھلا بیٹا تھا۔ اشعل کا بڑا بھائی میر حسن اور چھوٹا بھائی مسیّب بھی بہت پیارے ہیں، لیکن اشعل سب سے انمول اور من موہنا بچہ تھا۔ گول مٹول چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، دونوں گالوں پر پڑے ہوئے گڑھے، سنہری اور گھنگھریالے بال، کتنا پیارا، معصوم، دل موہ لینے والا، دلکش، جاذب، شکیل اور نفیس و شائستہ تھا اشعل۔ بالکل اپنے بابا کاشف عباس کی طرح معصوم، نفاست پسند، شستہ اور خوب صورت۔

میں ادھر چشمہ بیراج تھا جب مجھے خبر ملی کہ اشعل اُس گرم اُبلتے شیرے میں گر کر جھلس گیا ہے، جو اگلے دن کی نیاز برائے دستر خوانِ امام حسنؑ کے لیے حلوہ بنانے کو تیار کیا گیا تھا۔ (اشعل کی دادی اور دادا نیازِ امام جعفر صادقؑ اور نیازِ دستر خوانِ امام حسنؑ کا اہتمام ہر سال بڑی عقیدت اور وسعت سے کرتے ہیں۔) یہ خبر سن کر دل کو دھچکا سا لگا کہ اشعل عباس کا جسم 40 فیصدی جل گیا ہے اور وہ نشتر ہاسپٹل میں زیرِ علاج ہے۔ تاہم یہ سن کر تسلی ہوئی کہ ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سانحے کے پانچویں دن جب میں ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو میری شریکِ حیات نے بتایا کہ اشعل عباس کو برن یونٹ شفٹ کر دیا گیا ہے اور اس کی حالت بہت نازک ہے۔

یہ خبر سن کر ہم نے فوری فیصلہ کیا کہ اشعل کو ملنے کے لیے ملتان چلیں۔ اگلے دن جب گورنمنٹ پاکستان اور اٹلی کے اشتراک سے قائم کردہ ملتان نشتر ہاسپٹل کے برن یونٹ میں اشعل عباس کو ملنے گئے اور برن یونٹ کا بہترین علاج اور صفائی کا بہترین انتظام دیکھا تو دل مطمئن ہوا کہ اشعل عباس جلد ٹھیک ہوجائے گا۔ جونہی ہم اشعل کو ملے اور اشعل سے پوچھا کہ بیٹا آپ کیسے ہیں تو اس نے اپنے مخصوص معصومانہ انداز میں کہا میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ ٹھیک ہیں؟ اشعل کا یہ جواب سن کر آنکھوں سے آنسو بہ نکلے پٹیوں میں لپٹے، جھلسے اور بمشکل سانس لیتے اشعل کا حوصلہ اور برداشت دیکھ کے دل بھر آیا اور لبوں سے بے ساختہ دعا نکلی کہ پروردگار رحم فرما اور سیدہِ عالمیانؑ، صدیقہِ دارین، تسکینِ دلِ سرورِ کَونین ﷺ بی بیؑ کے صدقے اس پھول سے بچے کو شفاءِ کاملہ عطا فرما۔

کچھ دیر اشعل کے پاس بیٹھے رہے، اشعل نے تکلیف کے باوجود ہمیں اپنی پیاری آواز میں اپنی میٹھی باتیں سنائیں، اشعل کی مما اور بابا کو دلاسا، تسلی اور اشعل کی شفا یابی کی دعا دینے کے بعد ہم واپس آگئے، پھر اگلے دن سنا کہ اشعل کو وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا ہے لیکن کوئی وینٹی لیٹر خالی نہیں، پھر بھاگ دوڑ اور سر توڑ کوششوں کے بعد اک وینٹی لیٹر دستیاب ہوا، لیکن اس وینٹی لیٹر سے مستفید ہونے سے پہلے ہی اشعل نے یہ دنیا چھوڑ دی۔۔ پروردگارِ کریم نے اسے شفاءِ کاملہ عطا فرما دی اور وہ دکھوں، مصیبتوں، آزمائشوں، سرابوں اور عذابوں سے بھری اس دنیائے دنی کو چھوڑ کر ملکِ عدم سدھار گیا، اپنے خالق کے پاس، اپنے امامؑ کے پاس، اپنے آقا مولا غازی عباسؑ کے پاس، جہاں کوئی درد، کوئی تکلیف، کوئی اذیت اس کے پھول سے وجود پہ خراش ڈال کر اس کے صبر کو نہیں آزمائے گی۔

اس کی من موہنی صورت میں اک عجیب طرح کی سی جاذبیت چھپی تھی، جس کی طرف وہ اپنی نرگسی آنکھیں اٹھا کر دیکھتا تھا اس کا دل موہ لیتا تھا اور اسکی دلکش صورت سے بڑ ھ کر اس کی پیاری پیاری باتیں تھیں۔ جب اس کی زبان نے نطق و بیان سے شناسائیوں کی کائنات میں قدم رکھا اور لفظوں کی انگلی پکڑ کر جب اس نے گفتگو کرنا شروع کیا اور جب وہ توتلی آواز میں پیاری پیاری اور میٹھی باتیں کرتا تو جی چاہتا تھا کہ اس کا منہ چوم لیا جائے۔۔ اس کی باتوں میں معصومیت بھی ہوتی تھی اور دل موہ لینے والی شوخی بھی، وہ اپنی عمر اپنے قد سے بڑی باتیں کرتا، شاید اُس کی باتوں سے ہی اسے کسی بد نظرے کی نظر لگ گئی اور اس کی جان کا ننھا سا دیا بجھ گیا اور اپنی مما، اپنے بابا، اپنے دادا ابو، اپنی دادی امی، اپنے چچاؤں اپنے ماموں اور سب عزیزوں کے لیے ہمیشہ کی سوگواری اور اداسیاں چھوڑ گیا۔۔ بھرے گھر کو ویران کر گیا۔۔ یہ سطریں لکھتے ہوئے میرے آنکھوں سے اشک بہ رہے ہیں۔۔ دل افسردہ ہے۔۔ اک بے چینی سی ہے کہ دل و دماغ پہ چھا سی گئی ہے۔۔ بار بار آنکھ ڈبڈبا جاتی ہے۔

اشعل کے بات کرنے کا انداز اور کانفیڈنس ایسا تھا کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا۔ اس کی باتوں میں عجیب طرح کی تمکنت، وقار اور مٹھاس تھی کہ سب اسے پیار کرتے تھے۔ جب وہ اپنی توتلی آواز میں باتیں کرتا تو مما بابا اس پر جی جان سے نثار ہو ہو جاتے۔ دادا اور دادی کی تو جان تھی اس میں۔۔ کتنے اعتماد سے اور روانی سے وہ بات کرتا کہ جب بھی اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کیسے ہیں؟ تو وہ فوراً کہتا کہ میں ٹھیک ہوں، آپ ٹھیک ہیں۔ وہ اکثر اپنی مما، بابا کو کہتا کہ مما، بابا میں دنیا کا سب سے پیارا بچہ ہوں ناں؟

اس کی مما مسکرا کر اس کے شہابی گال چوم کر کہتی ہاں میرا اشعل بشلُو! میرا چاند تو دنیا کا سب سے پیارا بیٹا ہے!

مجھے جب بھی ملتا تو میں اس کی شیریں آواز سننے کے لیے پوچھتا تھا، اشعل بیٹا! آپ کیسے ہیں؟ اور وہ فوراً کہتا تھا میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ آپ ٹھیک ہیں!

کتنے شوق سے اس نے اسکول جانا شروع کیا تھا، کتنی دلچسپی اور محبت تھی اسے پڑھنے اور اسکول جانے سے۔۔ بڑے چاؤ سے بڑے شوق اور اہتمام سے تیار ہو کر روزانہ اسکول جاتا۔ ایک بار اسکول میں اس کی ٹیچر نے کسی بات پر اسے ڈانٹا تو ٹیچر سے کہنے لگا: ٹیچر پلیز مجھے ڈانٹیے گا مت۔۔ ٹیچر نے کہا کیوں! آپ کو کیوں نہ ڈانٹوں؟ تو اشعل نے کہا: "مجھے مت ڈانٹیے کیوں کہ میں دنیا کا سب سے پیارا بچہ ہوں!" تو ٹیچر نے منہ چوم کر کہا کہ اوکے سوری! اب میں دنیا کے سب سے پیارے بچے کو کبھی نہیں ڈانٹوں گی۔

اشعل بیٹا۔۔ کسے پتا تھا کہ دنیا کا سب سے پیارا بچہ اتنی جلدی یہ دنیا چھوڑ جائے گا اور اپنے ماں باپ کو، اپنے سب چاہنے والوں کو عمر بھر کا روگ اور سوگواری دے جائے گا۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

اسلم کولسری نے ایک غزل اپنے بیٹے کی وفات پر لکھی۔ یہ اشعار لکھتے ہوئے ان کا دل کتنی زور سے کانپا ہوگا۔ ہاتھ کتنی بار رکا ہوگا، آنکھ کتنی بار نم ہوئی ہوگی۔ اس کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

سورج سرِ مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

تو جانبِ صحرائے عدم چل دیا تنہا
بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر!
بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے

پروردگارِ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اے مالک! شہیدانِ کربلا، بالخصوص شاہزادہ علی اصغرؑ، و شاہزادگانِ عونؑ و ﷺ محمدؑ کے صدقے میں ہمارے چاند اشعل عباس کے بابا، مما، دادا جان اور دادی جان کو صبرِ جمیل عطا فرما کر انہیں اشعل عباس کا بہترین نعم البدل عطا فرما! اے بے چین دلوں کو سکون عطا کرنے والے، اے بہترین نعم البدل عطا کرنے والے پیارے اللہ! آمین بحقِ سیدالمرسلینﷺ۔

Check Also

Phupho Aur Khala

By Amer Abbas