Shumaila Aur Main
شمائلہ اور میں
عشرت کے دنوں میں مجھے شمائلہ کی ہم نشینی ملی یا یوں کہیں کہ شمائلہ کی آمد میری زندگی میں عشرت لائی۔ شمائلہ کا حلیہ اگر بتاؤں تو بتا نہ سکوں یعنی وہ ہر ملاقات میں بدلی ہوئی دکھی۔ اسکا ایک چہرہ میرے ذہن میں محفوظ ہی نہیں ہوسکا۔ کبھی لپ اسٹک اتار کر ملتی تو ہونٹ یاد رہ جاتے تو کبھی لپ اسٹک والے ہونٹ ہی اسی کے لگتے۔ شمائلہ کی مہک واحد شے تھی جو تغیر کا شکار نہیں تھی۔ نجانے اسکا باڈی آڈر تھا یا اسکا پرفیوم جو اسکے باڈی آڈر کا حصہ بن گیا تھا، جو بھی تھا مجھے اس سے مانوسیت ہوگئی تھی۔
شمائلہ کا قد لمبا تھا، لمبے قد کی لڑکیاں عموماً خوش مزاج ہوتی ہیں، شمائلہ بھی تھی۔ مگر شمائلہ چیخ بھی پڑتی تھی جب اس کے جوس سے دکاندار کا بال نکلتا یا کبھی اس سے گاڑی چھوٹ جاتی تو اسکی ڈکشنری میں چھپے ہزیان باہر آتے۔ شمائلہ پنجابی تھی، شو کمار کا نام پہلی بار اسی سے سنا مگر اردو اس ڈھب سے بولتی کہ نفاست، ملائمت اور بےحد اپنائیت کا احساس ہوتا۔
میں شروع میں بتانا بھول گئی، شمائلہ میری سینئر تھی اور میں اسے ہاسٹل کی چھت پر ملی تھی۔ ان دنوں میں نماز پڑھا کرتی تھی اور شمائلہ چھت پر سگریٹ پینے آیا کرتی تھی۔ اس نے لیٹر اور سگریٹ کے لیے ایک چھوٹا بیگ بڑے بیگ میں رکھا ہوتا۔ وہ جب بڑا بیگ کھولتی تو اس میں سے سگریٹ، لپ اسٹک، پرفیوم اور لیدر کی مہک اٹھتی۔
مجھے شمائلہ نے پہلی ملاقات میں یوں دیکھا جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ میں نے تمہیں پہلے بھی دیکھا ہے مگر دانستہ نظر انداز کیا تھا۔ میں نے شمائلہ کو بتایا کہ میں اسی کے ڈپارٹمنٹ سے ہوں تو اس نے کہا چائے پیو گی؟ مجھے اپنے کمرے میں چائے پینے لے گی۔
شمائلہ کا کمرہ بیک وقت بہت صاف بھی تھا اور نہایت غلیظ بھی۔ ایک کونے میں سلیقے سے کتابیں پڑی تھیں تو دوسرے کونے میں اسی کے اتارے کپڑے بکھرے ہوئے تھے۔ گیلے انڈر گارمنٹس ننھی ننھی چٹکیوں سے لٹکے ایک طرف سوکھ رہے تھے۔ میں گھبرا کر اپنی چال بھول گئی تھی۔ میں شمائلہ کو ہر حال میں متاثر کرنا چاہتی تھی، مگر کیوں کرنا چاہتی تھی نہیں معلوم۔
شمائلہ سے میری باضابطہ ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ سینئر والا لحاظ ختم ہوا تو وہ مجھے رات کو اپنے ساتھ شہر گھومانے لے جاتی۔ اسکے پاس پیسے ہوتے اور میرے پاس بہت سا فضول وقت۔ پہلی دفعہ مذہب کے بارے استغفار والی باتیں شمائلہ کے منھ سے سنیں، غصے سے زیادہ حیرانی تھی کہ مذہب کو ایسا بھی کہا جاسکتا ہے۔ شمائلہ کے پاس ہر سوال کا جواب نہ ہوتا مگر رد ضرور ہوتا۔ نجانے اس نے کب سے پڑھنا شروع کیا تھا۔ مجھے شمائلہ کبھی کبھی دھوکہ لگتی، اسکا مزاج اسکا ٹھہراؤ ڈھونگ لگتا مگر اس کا وجود اس قدر میری ذات پر چھا گیا تھا کہ میں نے اپنی جنسی رجحان پر سوال اٹھا دیا۔
میرے ذہن کے بالا خانوں میں شمائلہ اپنے کئے روپ لیے بکھر گئی۔ کبھی گرمیوں کی دوپہر میں لائبریری میں بیٹھی ناصر کاظمی کی غزلیں بے دلی سے پڑھتی، کبھی سردیوں کی شام اپنے کمرے میں ہیٹر چلائے سگریٹ منھ میں دبائے بیٹھی، کبھی ہوٹل کے مینیو کارڈ میں پیزے میں پڑے اجزاء ترکیبی بلا وجہ پڑھ کر سُناتے، کبھی اپنے چشمے کے اوپر سے میرے جگر تک جھانکتے ہوئے۔۔
شمائلہ کو ڈگری کے اختتام تک ڈگری سے نفرت پوچکی تھی۔ اسکی پڑھائی سے بیزاری صاف دکھتی تھی۔ مجھے ایک رات سوتے ہوئے بولی کہ زندگی کا ہونا کس قدر سکون دہ ہوسکتا تھا اگر وہ پیدا ہی نہ ہوتی۔ میں ایسی یاسیت زدہ بات سن کر حیران تھی کہ شمائلہ جیسے کردار کو بھی زندگی تنگ کر سکتی ہے۔ بہت دیر بعد زندگی نے یہ بات مجھ پر کھولی کہ وہ صرف شمائلہ جیسے کردار کو ہی تنگ کرتی ہے۔
شمائلہ نے غیر محسوس طریقے سے میری تربیت کی۔ مجھے پڑھنا سکھایا، بولنا سکھایا، چپ رہنا سکھایا۔ شمائلہ جانے کو تیار کھڑی تھی یونیورسٹی اور میری زندگی سے۔۔ شمائلہ کا کوئی ٹریس سوشل میڈیا پر نہیں تھا۔ وہ بس حقیقی زندگی میں موجود تھی۔ اس کے والدین وکالت میں تھے امیر لوگ تھے مگر شمائلہ سے امیری نہیں جھلکتی تھی گو کہ وہ مہنگی لگتی تھی۔
شمائلہ محبت سے اندھی تھی یا مجھے ایسا لگتا تھا مگر اس نے کبھی کسی سے محبت کا دعوہ کیا نہ پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اسکی عمر مجھے ہر وقت شادی والی لگتی۔ میں نے اپنے ذہن میں اسکے شوہر کا ایک خاکہ بھی بنایا ہوا تھا۔ ایک ڈرا ہوا اس کے سگریٹ خرید کر لانے والا شوہر۔
شمائلہ یونیورسٹی ختم کرگئی۔ میری آخری ملاقات اس سے تب ہوئی جب وہ اپنی امی کے ساتھ ڈپارٹمنٹ سے نکل کر کار میں بیٹھ رہی تھی۔ اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا میں نے بغل گیر ہونا چاہا مگر شمائلہ بےنیاز تھی۔
شمائلہ ناسٹلجیا بن گئی۔ اسکی خوشبو بھول گئی اسکی باتیں بھی بھول گئی اسکا چہرہ یاداشت میں مدھم ہونے لگا۔ اسکا سحر دور جانے سے بے اثر ہوگیا تھا۔ مجھے شمائلہ جیسی کئی ملی بہت تو آدمیوں کے روپ میں ملی مگر لمبے قد والی شمائلہ نہیں ملی۔
آخری احوال تک وہ بیرون ملک جاچکی تھی اور مجھ پر زندگی اپنی بے معنویت والی گرہ کھول چکی تھی۔ مجھ پر خرابے اترے، کئی چہرے دل سے ہو کر نکلے، کئی دن بڑے وحشی نکلے کئی راتیں بڑی پرسکون ملتی رہیں شمائلہ کا ان سب میں کوئی نام کوئی یاد کسی ناسٹلجیا کا زرا سا جھونکا نہ آیا۔
آج ایک خواب نے میرے اندر آنکھیں کھولیں تو شمائلہ کا چہرہ سامنے تھا۔ خواب میں ملے چہروں کی عمر نہیں بڑھتی، شمائلہ کی عمر بھی نہیں بڑھی تھی۔ وہ اُسی سال کی تھی جس سال اسے گاڑی سے جاتا دیکھا تھا۔ صبح اٹھ کر خواب کریدنے پر بس یہی یاد آیا کہ شمائلہ آئی تھی اپنے لمبے سراپے کے ساتھ چشمے کے اوپر سے مجھے دیکھتی رہی شاید کچھ کہا بھی تھا کچھ پوچھا بھی ہوگا مگر سب دھندلا چکا۔
میری صبح بستر سے نیچی نہیں اتری، دماغ شمائلہ کی ساری گمشدہ یاداشتیں ڈھونڈ لایا۔ کہاں ہوگی؟ شادی کر لی ہوگی، اگر بچے کیے ہوں گے تو ان کے قد لمبے ہوں گے، شوہر کو وہ کیا جانتی ہوگی؟ سب سے ضروری یہ کہ مجھے یاد رکھا ہوگا!
دل نے چاہا کہ شمائلہ کو ڈھونڈا جائے کہیں یورپ میں ہی ہوگی، مگر دماغ بد دماغی پر اتر آیا کہ وہ بھی تو رابطہ کرسکتی تھی! مگر دل جانتا تھا کہ وہ شمائلہ ہے جو اب بھی بڑے پرس سے چھوٹا پرس نکال کر سگریٹ سلگاتی ہوگی کہاں میری یاد اسے پڑتی ہوگی، اس کے ہونٹ تغیر کا شکار ہوں گے اور اس کے سراپے پر وہی اک خوشبو ٹھہری ہوگی جسے اب جانے کون یاد رکھ رہا ہوگا کون اسے متاثر کرنے کی کوشش میں اپنی چال بھول رہا ہوگا اور کسی کے دن پر کیا رونق اتری ہوگی اگر شمائلہ نے اس سے پوچھ لیا ہوگا کہ چائے پیتی ہو! آؤ میرے کمرے میں۔۔

