Cher Na Deepak Rag Sakhi Ri
چھیڑ نہ دیپک راگ سکھی ری

اردو ادب میں گیت یا نغمے اور ترانے دو ایسی اصناف سخن ہیں جو نہ صرف زبان کی موسیقیت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ اجتماعی احساس، جذبات اور تہذیبی شعور کی ترجمان بھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ دونوں کا تعلق نغمگی سے ہے مگر مقصد اسلوب اور اثر کے اعتبار سےان میں نمائیاں فرق پایا جاتا ہے۔ بیاض سونی پتی کی گیت، نغمے اور ترانے کی شاعری پر خراج تحسین پیش کرتے ہوے یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے گمنامی میں رہ کر بھی اردو ادب میں نغمگی اور اجتماعیت، دونوں کو معتبر اور باوقار لہجہ عطا کیا۔
جہاں حمد ونعت، غزل، نظم اور دیگر اصناف سخن پر انہیں عبور حاصل تھا وہیں بیاض سونی پتی کا نام اردو ادب میں ایسے شاعر کے طور بھی روشن ہے جس نے گیت اور نغمے کو دل کی دھڑکن اور ترانے کو اجتماعی شعور بنا دیا۔ ان کے گیتوں میں جہاں لفظ نرم، سادہ اور احساس سے بھر پور ہیں وہیں ترانوں میں مقصد، وقار اورولولہ بھی نمائیاں ہے۔ بےشمار گیتوں اور نغموں میں سے ان کا ایک ایک گیت ان کی شاعری کو یوں اجاگر کرتا ہے۔
من میں بھڑکی آگ سکھی ری
چھیڑ نہ دیپک راگ سکھی ری
ایک کو پتھر ایک کو موتی
اپنا اپنا بھاگ سکھی ری
دور دیس ہے تجھ کو جانا
بھو بھئی اٹھ جاگ سکھی ری
اپنی اپنی شہنائی ہے!
اپنا اپنا راگ سکھی ری
بیاض سونی پتی کے گیت محض گائے جانے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کئے جانے کے لیے ہیں۔ ان کی شاعری میں دیسی خوشبو، تہذیبی رنگ اور انسانی جذبات کی سچائی جھلکتی ہے۔ وہ محبت، امید، رفاقت اور زندگی کے لطیف لمحوں کو اس سلیقے سے لفظوں میں ڈھالتے ہیں کہ قاری خود کو ان سطروں میں شامل محسوس کرتا ہے۔ ان کے بےشمار گیت ان کے کلام کا حصہ ہیں۔ جو اردو، ہندی شاعری کا حسن ہیں۔ ا ن کیے گیت "ساجن اب تو لوٹ بھی آ" نے نوجوانوں میں بڑی مقبولیت حاصل کی جس کے چند بول یہ ہیں۔
ساجن اب تو لوٹ بھی آ۔۔ دکھیا من کو مت تڑپا
پیت کی من میں جوت جگائی
پردیسی سے پیت لگائی
کیسے سہوں اب درد جدائی
ساجن اب تو لوٹ بھی آ۔۔ دکھیا من کو مت تڑپا
ہوگئے گہرے اور اندھیرے
بستی بستی ڈیرے ڈیرے
تجھ کو ڈھونڈھوں سانجھ سویرے
ساجن اب تو لوٹ بھی آ۔۔ دکھیا من کو مت تڑپا
ان کے کئی گیت کلاسیکل انداز "راگ پہاڑی"کےرنگ میں بے حد پسند کئے گئے۔ جن میں "مجھ سے ساجن روٹھ گیا ہے" اور "من میں بھڑکی آگ سکھی ری" اس کے بھی چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مشاعرئے کے دوران مشہور صوفی گلوکار پٹھانے خان مرحوم نے بھی یہ گیت گا کر سنایا تھا۔ گو اس زمانے میں ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ تھی مگر کوٹ ادو کے مشاعروں میں مرحوم پٹھانے خان اکثر ان کا کلام ضرور گنگناتے تھے۔
مجھ سے ساجن روٹھ گیا ہے۔۔ من کا موہن روٹھ گیا ہے۔۔ ساجن مجھ سے روٹھ گیا ہے
ساجن بن موہے چین نہ آئے
ساجن بن موہے کچھ نہ بھاے
برکھا من میں آگ لگائے۔۔ مجھ سے ساجن روٹھ گیا ہے۔۔ من کا موہن روٹھ گیا ہے
چین نہیں اب من کو اک پل
سانج سویرے ہوں میں بیکل
کیا ڈالوں نینوں میں کاجل۔۔ مجھ سے ساجن روٹھ گیا ہے۔۔ من کا موہن روٹھ گیا ہے
چھیڑ نہ دیپک راگ سکھی ری
بیاض سونی پتی ایک مجاہد اور سپاہی بھی تھے انہوں نے نے جہاد کشمیر میں حصہ لیا اور بے مثال بہادری پر انہیں فوجی اعزازات سے نوازا گیا وہ اٹھار آزاد کشمیر رجمنٹ سے بطور حولدار میجر ریٹائر ڈ تھے اسی لیے ان کی قومی نغموں میں ان کی جذبات جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب ان کے قومی وملی ترانے اجتماعیت کی علامت ہیں۔ یہاں شاعر فرد سے نکل کر قوم، سماج اور نظریے کی بات کرتا ہے۔ زبان سادہ مگر پراثر، اسلوب باوقار مگر پرجوش اور پیغام ایسا کہ سننے والا خود کو کسی بڑے مقصد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔
یہی ترانے کسی تقریب، اجتماع یا تحریک کو محض آواز نہیں بلکہ شناخت عطا کرتے ہیں۔ یوں تو ان کے بےشمار ترانے زبان خاص وعام پر ہیں مگر، نذر چمن، پاسبان حرم، رہبر قوم، غازی ملت، عزم تعمیر نو، صدائے انقلاب، پیام انقلاب، آزادی کے دیپ، دیار پاک، نگہ دار امن، ایک ہیں ہم، ہم جاگ رہے ہیں، اے وطن ارض وطن، نئی کرن، پیام قائد، غازی کشمیر اور قائد اعظم کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
شام احساس پر مثل خورشید نو۔۔ بام احساس پر مثل تجدید نو
زندگی کے افق میں تو لہرا گیا۔۔ رنگ حسن شفق میں تو لہرا گیا
کوہساروں کی ہیبت تھی آواز میں۔۔ شاہبازوں کی رفعت تھی پرواز میں
نظر میں عزائم کی گہرائیاں۔۔ تھیں جگر میں ارادوں کی پنہائیاں
ملک و ملت کی کشتی کا تو ناخدا۔۔ قوم کے کارواں کا توہی رہنما
تونے توڑا غلامی کی زنجیر کو۔۔ تو نے موڑا غلامی کی تقدیر کو
وہ جلائے ہیں ذوق نمو کے دیے۔۔۔ جگمگانے لگے آرزو کے دیے
تو نے بخشا ہے پرچم ہلالی ہمیں۔۔ تو نے بخشا ہے عزم جلالی ہمیں
قوم کرتی ہے دل سے تیرا احترام۔۔ اسلام اسلام۔ اسلام اسلام
بیاض سونی پتی کو حضرت علامہ اقبال سے بھی بڑی محبت وعقیدت تھی۔ انہوں نے "مرد قلندر" اور دانائے راز کے نام سے مشہور ترانے بھی لکھ ہیں۔ جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
گل خیال کو بخشی شفتگی تو نے۔۔ کھلائی باغ ادب کی کلی کلی تو نے
روش روش یہ صبا گنگناتی پھرتی ہے۔۔ کہ اس کو بخش دیا ذوق شاعری تونے
بیاض کرتا ہے ہردم تیرے کلام کا ورد۔۔ بیاں کئے ہیں نکات قلندری تو نے
بیاض سونی پتی کی سب سے بڑی ادبی خوبی یہ ہے کہ وہ نغمگی کو مقصد سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ ان کے ہاں سر بھی ہے اور سمت بھی اور جذبہ بھی ہے اور شعور بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہی توازن انہیں محض شاعر نہیں بلکہ عہد کی آواز بناتا ہے۔ بیاض سونی پتی نے اردو ادب میں گیتوں کی مٹھاس اور ترانوں کے ولولوں کو لفظوں میں زندہ کیا۔ مشہور گیت وادی کشمیر، میرے وطن ااور سونی پت میں ان کی شاعری دلوں کو چھو کر سننے والوں میں جذبہ اور احسا س پیدا کردیتی ہے۔
کشور رنگیں۔ دیار پاک۔ اے ارض حسیں۔۔ ہم مجاہد ہیں تری ناموس وعظمت کے امیں
اپنے خون گرم سے چمکائیں گے تیری جبیں۔۔ ہم نے ایک ٹھوکر سے ہر قوت کے ٹکڑے کردیے
کشور رنگیں دیار پاک اے ارض حسیں
ہر طرف پھیلے ہوےہیں اپنی سطوت کے نشاں۔۔ نقش ہیں دشت ودمن پر اپنی ہیبت کے نشاں
اپنی ہیبت سے ہیں لرزاں آج بھی دشت ودمن۔۔ کشور نگیں دیار پاک اے ارض وطن
ہم اٹھے صحرائے بطحا سے بنام انقلاب۔۔ ہم سے سیکھا ہے جہاں نے احترام انقلاب
ہے ہماری برق رفتاری خرام انقلاب۔۔ زیر دستوں کو دیا ہم نے پیام انقلاب
بیاض سونی پتی کے گیت اور ترانے کی شاعری اردو ادب کے اس روشن باب کا حصہ ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے اور آواز وں کو معنی دیتاہے۔ اردو زبان ان کی نغمگی کی مقروض ہے اور ادب ان کے نام کو احترام سے یاد کرتا ہے۔ بیاض سونی پتی نے اردو ادب میں گیت اور ترانے کے ذریعے دلوں کو نغمگی اور جذبات سے نوازا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف محبت اور احساس کی ترجمانی کرتے ہیں بلکہ روح کو بھی چھو جاتے ہیں۔ ان کے ترانے اجتماعی شعور اور ولولہ کی علامت ہیں جو سننے والے کے دل میں جوش اور مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔
بیاض سونی پتی کی شاعری لفظ وسر کا حسین امتزاج ہے جو اردو ادب کو ایک خوشگوار، بامعنی اور زندہ نغمگی عطا کرتی ہے۔ بیاض سونی پتی کی شاعری تو مشہور ہوئی مگر ان کا نام شہرت نہ پاسکا اور نہ ہی ان کا مکمل کلام ہی سامنے آسکا ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ ان کے گیت، نغمے اور ترانے کتابی شکل میں سامنے لائے جائیں۔ کوٹ ادو کی ایک اردو ادب کی طالبہ لیلیٰ عاشق صاحبہ بیاض سونی پتی پر خصوصی مقالہ تحریر کر رہی ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ ان کے ترانوں، گیتوں اور نغموں کو بھی اپنی تحقیق کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ بیاض سونی پتی ہر صنف سخن کو تحریر میں لانے اور پڑھنے کی بڑی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کے ادبی مقام کا تعین ان کی ادبی وفکری خدمات سے کیا جاسکے۔

