Mitti Aur Rooh, Aik Mukalma
مٹی اور روح، ایک مکالمہ

مٹی اور روح کا رشتہ اَٹوٹ ہوتا ہے اور مٹی سے وابستہ احساسِ وابستگی انسان کو اس کی پہچان عطا کرتا ہے۔ انسان مٹی کو محض چھوتا نہیں، بلکہ سانس اور لمس کے ذریعے اسے اپنے وجود میں جذب کر لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مٹی سے جڑا ہوا رشتہ ایک زندہ تجربہ بن کر روح میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
پردیس میں جا کر زمین بدل جاتی ہے، موسم، فضا اور منظرنامہ نیا ہو جاتا ہے، مگر روح اپنی پہلی زمین کو بھلا نہیں پاتی۔ نئی مٹی پر قدم تو جم جاتے ہیں، مگر دل کی جڑیں پرانی زمین میں ہی پیوست رہتی ہیں۔ گھر، گلیاں، دیواریں، دروازے، موسموں کی گردش، مٹی کی خوشبو اور گھروں سے اٹھتی پکوانوں کی مہک یہ سب یادیں روح کے اندر محفوظ رہتی ہیں اور یہ یادیں محض ماضی کی تصویریں نہیں بلکہ شناخت کے وہ عناصر ہیں جو انسان کے شعور اور لاشعور دونوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ انسان جہاں بھی جاتا ہے، یہ تجربات اس کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اجنبی زمین پر بسنے کے باوجود انسان اپنے اندر ایک مانوس دنیا کو زندہ رکھتا ہے۔
یوں مٹی اور روح کے درمیان ایک خاموش مگر گہرا مکالمہ جاری رہتا ہے۔ ایک ایسا مکالمہ جو انسان کو اس کے ماضی، اس کی پہچان اور اس کے وجود سے جوڑے رکھتا ہے۔ یہ رشتہ نہ ٹوٹتا ہے، نہ مٹتا ہے، بس وقت کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔
اشتیاق سندھو ایک باصلاحیت فنکار ہیں جو میلبرن، آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے فنِ مصوری کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد ازاں وہ جامعہ پنجاب کے شعبۂ فائن آرٹس سے بطور استاد وابستہ رہے، جہاں انہوں نے تدریس کے ذریعے نئی نسل کے فنکاروں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
او شین (OCCEAN) آرٹ گیلری میں منعقدہ اپنی حالیہ نمائش میں اشتیاق سندھو نے مٹی اور روح کے تصور کو فکری اور جمالیاتی سطح پر پیش کیا۔ اس نمائش میں انسانی چہروں اور علامتی مناظر کے ذریعے انسان اور اس کی زمین سے جڑی ہوئی شناخت اور داخلی تنہائی جیسے موضوعات کو اجاگر کیا گیا۔ اُن کے کام میں فی تأثرات نہایت سادگی اور علامتی انداز میں نمایاں ہو تے ہیں۔ رنگوں کا استعمال، اظہاریت اور تجریدی کیفیت ان کے مصورانہ اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
انسان زمین پر صرف رہتا نہیں بلکہ اس کے ساتھ جُڑ کر جیتا ہے۔ گھر، گلی، راستے اور وطن اس کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ کون ہے۔ نفسیات کے مطابق بچپن، گھر، خوشبو اور مقامی رسومات انسان کے شعور اور لاشعور میں نقش ہو جاتے ہیں فنی تأثر کے اظہار کا سبب بنتے ہیں۔
نمائش کے اہم کاموں میں معلق خواتین کے چہرے ہیں، جن کے تاثرات خاموش، اداسی اور نرمی کے حامل ہیں۔ یہ چہرے معلق ہیں جو اپنی شناخت کے متلاشیِ ہیں اور موجودہ سماج میں نظرانداز یا مظلوم افراد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہر چہرہ ایک پرسکون مگر گہرا سوال اٹھاتا ہے: انسانی عزت اور پہچان کیا ہے؟ یہ صرف انفرادی جذبات نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی نظام کی بے حسی پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
نمائش میں (minimalist) لینڈ اسکیپ بھی ناظر کی توجہ کا مرکز رہے، جن میں فطرت بغیر جڑ کے یا ہوا میں تیرتی یا معلق دکھائی گئی ہے، جیسے انسان کی روح جو اجنبی زمین پر اپنا وجود تلاش کر رہی ہو۔ یہ لینڈ اسکیپ اور معلق چہرے ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انسانی شناخت اور جذبات صرف جسم یا جگہ سے نہیں جڑتے، بلکہ ثقافت، یادیں اور مٹی کے ذریعے قائم ہو تے ہیں۔
فنکار کی تخلیقات صرف دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ سوچنے، سوال کرنے اور سماجی رویوں پر غور کرنے کے لیے ہیں۔ اشتیاق سندھو نے اپنے فن کے ذریعے روح، مٹی کے تعلّق کو ایک سادہ مگر گہرے، پرسکون اور تنقیدی انداز میں پیش کیا ہے، جو دیکھنے والے کو اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ نمائش محض جمالیاتی اظہار کا بیاں نہیں ہے بلکہ فنکار کی وطن سے وابستہ فکر کو اجاگر کرتی ہے اور انسانی و سماجی حالات پر سوال اٹھاتی ہے۔

