Police Ka Qarz
پولیس کا قرض

انصاف کے اداروں کو جب سیاست اور شہرت کے نشے میں ڈال دیا جائے تو پھر ان اداروں کے اہلکار خود انصاف کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ لاہور پولیس میں کچھ ایسے افسران آگئے ہیں جن کا کام دن رات اپنی ذاتی تشہیر پر صرف ہوتا ہے اور یہ لوگ ہر کیس کی ویڈیو بناکر اس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
آج کل ایک آئی سرجن کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے اور اس ڈاکٹر کے بقول اسے ایک مریضہ کے علاج کرنے کے سلسلہ میں پولیس اور مریض کی جانب سے ہراساں کرنے کا معاملہ ہے جس میں مریضہ نے ڈاکٹر کے علاج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو شکایت درج کروائی تھی اور دلچسپی کی بات ہے کہ اس کیس میں سوشل میڈیا پر شہرت پانے والی اے ایس پی شہر بانو نے معاملہ کو سنتے ہوئے چودہ لاکھ روپے مریضہ کو دینے کے لئے ڈاکٹر پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا تھا اور پھر ایک اور خاتون اے ایس پی بریرہ کی طرف سے بھی پرچہ کے اندراج کی دھمکی دیتے ہوئے مریضہ کو رقم دینے کے لئے دباؤ ڈالنے کی کہانی سامنے آئی ہے اور یہ سارا واقعہ خود ڈاکٹر نے ایک پوسڈ کاسٹ میں بیان کیا ہے۔
بظاہر یہ معاملہ براہ راست پولیس کی دسترس میں نہیں آتا ہے بلکہ پولیس کے آنے سے پہلے اس معاملہ کی ہیلتھ کیئر کمیشن سے تحقیقات ہونا ضروری تھا لیکن بد قسمتی سے ہماری پولیس ہر اس معاملہ میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے جس میں کسی نہ کسی طرح سے پیسہ شامل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زین کا معاملہ تو اب منظر عام پر آگیا ہے اور یقیناً اس پر تحقیقات بھی ہوں گی لیکن اسی معاملہ سے ملتا جلتا ایک کیس یہاں تحریر کررہا ہوں جس میں میں خود چشم دید گواہ ہوں۔
ایک سال پہلے کی بات ہے کہ کوٹ لکھپت تھانہ میں ایک پرچہ درج کیا گیا جس میں ایک ڈسٹری بیوشن آفس کی طرف سے اپنے ہی کچھ ملازمین کے خلاف شکایت کی گئی تھی کہ انھوں نے دو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم خورد برد کی ہے اور پھر ایک ایک کرکے کئی سیلز مین اور ایک سپر وائزر کو اس مقدمہ میں پھنسایا گیا تھا جبکہ گودام مینیجر کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔ یہ سارے سیلز مین اپنے دفتر میں روزانہ آتے تھے لیکن دوسری طرف انہیں لوگوں کو پولیس نے اشتہاری بھی قرار دے رکھا تھا۔
مزے کی بات ہے کہ جن ملازمین ملزمان کے ساتھ تفتیشی آفیسر شام کے وقت ڈسٹریبیوشن آفس میں ملاقات کرکے ان پر دباؤ ڈالا کرتا تھا تو اگلے دن عدالت میں پیش کی گئی ضمنیوں میں کہانی بیان کی جاتی کہ مذکورہ ملزمان اپنے گھروں کو تالے لگا کر بچوں سمیت غائب ہیں اور مزے کی بات ہے کہ اپنی تفتیش میں غلط حقائق بیان کرکے ہی پولیس تمام غریب سیلز مینوں کو اشتہاری قرار دے چکی تھی۔ اس ڈسٹری بیوشن کے بارے میں شکایات ہیں کہ پہلے بھی متعدد بار اسی طرح کے پرچوں کا اندراج کرواکر کئی ملازمین سے پیسے بٹورے گئے تھے۔
اس مقدمہ میں مجھے ایک دو بار ڈسٹریبیوشن آفس جانے کا اتفاق بھی ہوا ہے جہاں پولیس کا تفتیشی افسر ڈسٹری بیوشن آفس میں موجود نظر آتا تھا اور پھر جب سی سی پی او کے پاس اس حوالے سے شکایت پہنچی تو ڈی ایس پی نے اس کیس کو سنا اور اس انکوائری میں لگتا یہی تھا کہ کسی طرح سے ان تمام ملازمین کو پھنسایا جائے اور مجبور کیا جائے کہ وہ ڈسٹری بیوشن آفس میں کام کرتے رہیں اور اگلے کئی سال تک اپنی تنخواہیں وصول کئے بغیر غلام بن کر زندگی گزاریں۔
یہی مقدمہ اس وقت ایس پی ماڈل ٹاؤن کے سامنے بھی آیا تھا اور اس مقدمہ میں بغیر یہ دیکھے کہ غریب سیلز مینوں کی بات سنی جاتی بلکہ ان تمام ملازمین کو مجبور کیا گیا کہ وہ دو کروڑ روپے کی رقم اکٹھی کرکے ڈسٹری بیوشن کے مالک کو دے اور اپنی جان چھڑالیں۔ اس مقدمہ میں ملزم ٹھہرائے جانے والے سیلز مینوں کا موقف ہے کہ انھیں گروپ انشورنس کی رجسٹریشن کے بہانے کچھ کاغذات پر ان کے دستخط اور انگوٹھے لئے گئے تھے لیکن اصل میں وہ چوری میں ملوث ہونے کا اعتراف نامہ تھا لیکن چونکہ وہ سیلزمین پڑھے لکھے نہیں تھے اس لئے اپنی معصومیت کی وجہ سے اس مقدمہ میں ملوث کئے گئے تھے اور پھر اسی اعتراف نامہ پر پولیس کیس بنایا گیا تھا جس میں صاف طور پر پولیس ملوث نظر آتی تھی اور پولیس کی ساری جدوجھد بغیر تفتیش کے رقم کی ادائیگی تھی جس میں غالباً پولیس کا حصہ بھی شامل تھا اور مجھے یاد ہے کہ اس معاملہ میں دو افراد کو بڑا جرمانہ ڈالا گیا تھا جن میں سے ایک سپروائزر نے ستر لاکھ روپے کی رقم ادا کی اور دوسرے گودام کے مینیجر نے بھی غالباً اتنی رقم دے کر جان چھڑائی تھی جبکہ باقی سیلزمین باندی بن کر اسی آفس میں کام کرتے رہے ہیں۔
اس مقدمہ میں ڈسٹری بیوشن مالک کی زیادہ کوشش پیسوں کی وصولی نہیں تھی بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے ملازمین اس کو چھوڑ کر نہ جائیں بلکہ اس کے پاس غلام بن کر ساری زندگی کام کرتے رہیں۔ یہ ایک معمولی سا کیس ہے لیکن اس طرح کے لین دین کے جانے کتنے مقدمات ہیں جن میں پولیس مداخلت کرکے نوازشات لیتی بھی ہے اور کرتی بھی ہے۔ میں تو ایک بات سمجھ سکا ہوں کہ پولیس کے پاس جانے والے خواہ مدعی ہو یا ملزم انھیں پولیس کا قرض چکانا ہی پڑتا ہے اور اکثر پولیس دونوں پارٹیوں سے رشوت وصول کرکے کیس کو طول دیتی ہے۔
اوپر بیان کئے گئے کیس میں بھی پولیس ایک طرف ڈسٹری بیوشن مینیجر سے رقم وصول کرکے ملزمان کے گھروں میں چھاپے مارتی تھی اور پھر ملزمان سے رقم وصول کرکے بغیر کاروائی کئے واپس چلی جاتی تھی۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں پولیس کمزور پر دباؤ ڈال کر غاصبوں کو طاقت فراہم کرتی ہے اور پھر اپنی تفتیش میں غلط حقائق بیان کرکے اور کبھی اہل خانہ کو بلیک میل کرکے معصوم لوگوں کو لوٹنے میں مدد کرتی ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ سی سی ڈی کی کاروائیوں کے بعد پولیس ایک عام آدمی کے لئے خوف کی علامت بن چکی ہے اور پنجاب میں تو ہر معاملہ میں پولیس کو ملوث کرکے خوف کا نشان بنادیا گیا ہے اور یہی وہ غلطی ہے جو حکمران کرتے ہیں اور بعد میں خود بھی اسی پولیس ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں۔

