بیوقوف ماریہ
ماریہ میگدالینا (Maria Magdalena) کا تعلق پولینڈ سے ہے۔ انتہائی زبردست کھلاڑی۔ جیولین تھرو (Javelin throw) میں ٹوکیو اولمپس میں سلور میڈل حاصل کرنے والی اس ایتھلیٹ نے ذاتی زندگی میں بہت تکلیف دیکھی ہے۔
ہڈیوں کے کینسر سے مسلسل جدوجہد کے بعد صحت یاب ہونا از حد مشکل کام ہے، اور اس سے بھی بڑی بات۔ موذی مرض سے ٹھیک ہونے کے بعد، کھیل کے میدان میں اولمپکس تک پہنچنا ایک خواب ہی کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ ایسا خواب جسے عام آدمی ہرگز ہرگز پورا نہیں کر سکتا۔ ٹوکیو اولمپکس میں ماریہ گولڈ میڈل حاصل نہیں کر پائی۔ اسے چاندی کا میڈل ملا۔ گولڈ میڈل حاصل کرنے والی کھلاڑی اس سے صرف دو سینٹی میٹر آگے تھی۔ ماریا جب پولینڈ واپس آئی تو پورے ملک نے اس کو خوش آمدید کہا۔ آج سے ٹھیک پانچ ماہ پہلے، ماریہ نے ایک ایسا زبردست کام کیا کہ پوری دنیا اس کی گرویدہ ہو گئی۔
اولمپکس میں حاصل ہونے والا تمغہ نیلام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نیلامی کے اعلان سے پوری دنیا میں کہرام مچ گیا۔ ماریہ کے فیس بک صفحہ پر ان گنت پیغامات آنے شروع ہو گئے، کہ اپنا میڈل کیوں فروخت کر رہی ہے۔ ماریہ کے ایک جملے نے تمام لوگوں کے سوالات کا ایسا خوبصورت جواب دیا کہ ان کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ میڈل کی نیلامی سے جو رقم وصول ہو گی اسے آٹھ ماہ کے انجان بچے مالوزک (Milozek) کے دل کے آپریشن کے لیے عطیہ کرونگی۔ نیلامی میں پوری دنیا سے لوگوں نے حصہ لیا۔ پولینڈ کے ایک سپر اسٹورجین زیبکا (zabka) نے یہ میڈل ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر میں خرید لیا۔
نیلامی ختم ہونے کے بعدسپر اسٹور جین کا مالک، ماریہ کے پاس گیا اور میڈل اسے واپس کر دیا۔ الفاظ تھے کہ یہ اعزاز پولینڈ کو ملا ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا اور جس جذبے کا مظاہرہ ایک اجنبی بچے کے آپریشن کے لیے ماریہ نے کیا ہے، وہ بذات خود انمول ہے۔ ماریہ نے تمام رقم مالوزک کے والدین کو امریکا بھجوا دی تاکہ اس غریب بچے کا کامیاب آپریشن ہو سکے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ پوری دنیا میں ماریہ ایک بیش بہا کھلاڑی نہیں، بلکہ اس سے بھی پروقار مقام پر پہنچ گئی۔ انساتیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے والی دہلیز پر، ایک ایسا رتبہ جہاں انسان حقیقت میں امر ہو جاتا ہے۔
انسان کا دوسرے انسان سے رشتہ اور تعلق وہ مضمون ہے جس پر ہر وقت بات اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا سے ہماری وابستگی تو بہت ذاتی سطح کی ہے۔ خدا تو رحیم ہے۔ ایک ثواب پر تمام گناہ معاف کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ مگر ہم، ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ یہ حد درجہ نازک مرحلہ ہے۔ اسے حقوق العباد کہہ سکتے ہیں۔
جس میں کسی قسم کی کوتاہی قابل معافی نہیں۔ اس میں لغزش تو خدا بھی معاف نہیں کرتا۔ حساسیت کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ مرنے والے کی تدفین سے پہلے اعلان ہوتا ہے کہ اگر متوفی کے ذمے کوئی قرض ہے تو وارث موجود ہیں قرض کی واپسی ان کے ذمے ہے۔ یہ انسان سے انسان کے رویہ اور رابطہ کی صرف ایک مثال ہے۔
دنیا کے تمام ادیان میں انسانی رشتوں کے حوالے سے کافی حد تک یکسانیت ہے۔ مگر یہ میرا آج کا موضو ع نہیں ہے۔ باہمی مدد اور کمزور طبقے کی کفالت کے لحاظ سے جب اردگرد دیکھتا ہوں تو بہت زیادہ مایوسی ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ناگہانی قنوطیت میں مبتلا ہوجاتا ہوں جس سے احساس تنہائی مزید بڑھ جاتا ہے۔
ٹی وی اور میڈیا پر مختلف ادارے اور این جی اوز کی طرف سے اشتہار در اشتہار نظر آتے ہیں جو انسانیت کی فلاح کے لیے ہر وقت چندہ مانگتے نظر آتے ہیں۔ سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جناب آپ عام آدمی کی بھلائی کا دعویٰ کرتے ہیں پھرپیسے وصول کر کے میڈیا پر انھی کے پیسوں سے مزید بھلائی کے لیے رقم مانگنا، کیا حد درجہ ادنیٰ حرکت نہیں ہے۔ کیا واقعی ان لوگوں کو چندہ دینا جائز ہے جو اپنی پی آر اور دیدہ زیب اشتہاری مہم کے ذریعے صرف اور صرف آپ کی جیب پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے نرم خو لہجے کے پیچھے پیسے کمانے والا ایک ساہوکار بیٹھا نظر آتا ہے۔
جس کے سامنے ایک بہت بڑاآہنی گلہ ہے۔ ان فلاحی اداروں کے مالکان کی اکثریت بیش قیمت گاڑیوں میں سفر کرتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک سے صرف اور صرف این جی اوزکی بدولت لیکچرز اور کانفرنسوں کا انعقاد کرواتی ہے۔ اپنے لیے تعریفی کلمات کہلوائے جاتے ہیں۔ جے جے کار کروائی جاتی ہے۔
یہ وزراء اعلیٰ اور وزیراعظم سے نزدیکی تعلقات رکھنے میں برتری محسوس کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ٹیم اپنے سربراہان کو فرشتہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ اور میرے جیسے بے فہم لکھاری ان کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ آج تک ان کی منافقت کی موجودگی کو تسلیم نہیں کر پایا۔ شاید مجھ میں ہی کوئی خرابی ہے۔ ورنہ اکثر لوگ تو ان کی جھوٹی تعریف کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے ذریعے این جی اوز اور فلاحی اداروں کے سربراہان کی اکثریت صرف اور صرف اپنی شخصیت کو مافوق الفطرت بنانے میں مصروف ہے۔ ان سے گفتگو کریں، تو یہ اپنی ذات کے علاوہ کوئی بات نہیں کر سکتے۔
میں نے یہ کیا، میں یہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے فلاں فلاں فلاحی ادارے ہیں۔ اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے والے لوگ ہمارے سماجی نظام میں انسانیت کی خدمت کا غیر معقول دعویٰ کرتے ہیں۔ کئی افراد کا نام لے کر ذکر کر سکتا ہوں، مگر یہ قلم کی حرمت کے خلاف بات ہے۔
زندگی میں صرف ایک بار، عبدالستار ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ایسا نایاب انسان جس کے دم قدم سے ہمارے جیسے بدبودار نظام میں خوشبو کا دریا بہتا ہے۔ شدید گرمیوں کے دن تھے۔ ایدھی صاحب ایک کمرے میں اے سی بند کر کے پسینے سے شرابور بیٹھے ہوئے تھے۔ نیپا کی طرف سے ہم کوئی چالیس افسر تھے جو ان سے ملنے کے لیے سرکاری سطح پر موجود تھے۔ یقین فرمایئے۔ ایدھی صاحب نے پھٹے پرانے سیاہی مائل کپڑے پہن رکھے تھے۔ بتانے لگے کہ یہ کپڑے بھی ان کے نہیں ہیں بلکہ یہ کسی مردہ لاش کے تھے۔ لاش کو غسل دیتے ہوئے یہ کپڑے خود رکھ لیے اور مرتے دم تک یہی پہنتے رہے۔
شاید کم لوگوں کو یاد ہو کہ ایدھی صاحب کی وصیت کے مطابق انھیں کفن نہیں پہنایا گیا۔ بلکہ انھی پرانے کپڑوں میں دفن کیا گیا، جو وہ عام زندگی میں پہنتے تھے۔ ایدھی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آج بھی آمدورفت کے لیے وہ ایک پرانا اسکوٹر استعمال کرتے ہیں۔ جس گھر میں ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی۔
اس کے دالان میں صدقے کے ان گنت جانور بندھے ہوئے تھے۔ بتانے لگے کہ لوگوں سے بار بار درخواست کرتے ہیں کہ اتنے جانوروں کو ذبح کر کے مستحقین تک نہیں پہنچا سکتے۔ مگر لوگ باز نہیں آتے۔ یقین فرمائیے۔ دالان میں جانوروں کی قطاریں ہی قطاریں تھیں۔ اور ایدھی صاحب لوگوں کو منع کر رہے تھے کہ صدقے کے جانور نہ لائیں۔ مگر ایدھی صاحب پر لوگوں کا اتنا اعتماد تھا کہ وہ پھر بھی انھیں عطیہ دینے سے نہیں ٹلتے تھے۔ ایدھی صاحب نے کلفٹن پر موجود اپنے دفتر کے متعلق بتایا کہ یہ دراصل ایک تاجر کا بہت عالیشان گھر تھا۔ ایک دن آیا اورایدھی صاحب کو پورا بنگلہ حوالے کر گیا۔ شرط صرف یہ تھی کہ کسی کو اس آدمی کا نام نہیں بتانا۔ یہی وہ بنیادی کردار کا ٹھوس پن ہے جو نیک آدمی کو واقعی فرشتہ سیرت بناتا ہے۔
اس تاجر نے تقریباً ایک ارب روپے کا بنگلہ ایدھی صاحب کے حوالے کر دیا اور اس کا نام تک کوئی نہیں جانتا۔ ایدھی صاحب نے اس گھر میں ایک یتیم خانہ بنا رکھا تھا۔ ایدھی ہوم کی روایت کے مطابق گھر کے ایک کمرے کو عبادت گاہ کا درجہ دیا گیا تھا۔ جس میں بلا تخصیص مذہب، بچے اور بچیاں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکتے تھے۔ ایدھی صاحب کی اہلیہ، بلقیس صاحبہ، یتیم خانے میں مصروف کار تھیں۔ انھوں نے بھی انتہائی سادہ سے کپڑے پہن رکھے تھے۔ ہمیں واقعی اس ظاہری اور باطنی سادگی کی اشد ضرورت ہے۔
ویسے میرا ایک جزوی سوال بھی ہے۔ اشتہاری مہم کے ذریعے فلاحی نیک نام ہونے والے لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اپنے ذاتی وسائل، جائیداد سے اپنے ادارے کو واقعی کتنا فیض پہنچایا ہے۔ یقین فرمائیے کہ متعدد ایسے سماجی ادا کاروں کو جانتا ہوں جو عالیشان گھروں میں رہتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، اور عام لوگوں سے سادگی اور خدمت کے نام پر چندہ مانگتے ہیں۔ ان میں سے متعدد کے عظیم الشان دفاتر بھی ہیں۔ جہاں یہ عمدہ کپڑے پہن کر انسانیت کی جعلی خدمت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ یہ لوگوں کو بے وقوف بنانے میں کافی کامیاب ہیں۔
ویسے ایک خوشی تو ہے، یہ ہمارے منافق معاشرے کے لیے بالکل درست لوگ ہیں۔ ہمیں ماریہ اور ایدھی جیسی عظیم ہستیاں نہیں چاہیں جو اپنا تن من دھن لٹا کر غریب لوگوں پر وار دیں۔ اس کے برعکس ہمارے فلاحی اداروں کی اکثریت تو اپنا خبث باطن چھپا کر سونے کی اینٹوں پر کھڑے ہو کر عظیم ہونے کا عوامی اعلان کر رہے ہیں، اور وہ شاید کامیاب بھی ہیں۔ ماریہ جیسی بے وقوف سماجی دیوی کو ہمارے ملک کے منافق فلاحی اداروں میں زیر تربیت رہنا چاہیے۔ شاید اسے تھوڑی سی عقل آ جائے؟