شکاریات کی ناقابل فراموش داستانیں
ڈاکٹر محمد علی سبزواری بمبئی سے مشرقی افریقہ کے شہر ممباسہ روانہ ہوئے، بائیس دن کا سفر تھا۔
عبد الرشید جو ان کے شریک سفر تھے ان کا تعلق پنجاب سے تھا لیکن دہلی میں ان کا بڑا کاروبار تھا۔ سبزواری صاحب کو شکارکا بہت شوق تھا۔ ایک تو یہ ذوق کہ وہاں افریقہ میں شکار خوب ملے گا، دوسرے ہاتھی دانت کی تجارت بھی مقصود تھی۔ ڈاکٹری کا سامان اور دوائیں بھی ساتھ تھیں۔ رشید صاحب تجارتی سامان کے ساتھ آئے تھے۔ ایک تیسرا شریک سفر بھی تھا۔ یہ معراج نام کا ایک پنجابی نوجوان، ڈاکٹر صاحب کا ملازم تھا۔
جہاز بحیرہ عرب سے ہوتا ہوا عدن سے گزر کر جب ممباسہ کی بندرگاہ پر پہنچا تو شام ہو رہی تھی۔ رات گزارنے کے لیے یہ تینوں شہرکی طرف چلے۔ کوئی ہوٹل، سرائے دکان انھیں نظر نہ آیا۔ مجبوراً ایک خالی دکان کے برآمدے میں بستر بچھا کر لیٹ گئے۔ باقی سامان بندرگاہ پر کسٹم والوں کے پاس چھوڑا تھا۔ دوسری صبح ملنا تھا۔
ڈاکٹر سبز واری کے ساتھی تو تھک تھکا کر سو گئے تھے، انھیں نیند نہیں آرہی تھی کہ اچانک ایک آہٹ سنائی دی۔ ایسا لگا جیسے نپی تلی چال سے کوئی برآمدے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ چیخ پکار کی صدا آئی اور کوئی آدمی یہ کہتا ہوا سنائی دیا " دوڑو مجھے بچاؤ۔۔۔۔ شیر! شیر! ہائے مجھے مار ڈالا۔" معلوم ہوتا تھا کہ شیر نے اس کو گلے سے پکڑ لیا ہے، اس کا چیخنا موقوف ہوگیا۔ دو ایک ٹوٹے پھوٹے بے معنی الفاظ اس کے منہ سے نکلے اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس شور سے ڈاکٹر صاحب کے دونوں ہمراہی بھی جاگ گئے۔
تینوں کی عجیب حالت تھی۔ یہ حادثہ ان کے قریب ہی ہو رہا تھا۔ ایک بیکس کی جان جا رہی تھی اور یہ اس کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ باہر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا تھا۔ ڈاکٹر سبزواری کی بندوق سامان کے ساتھ بندرگاہ پر پڑی تھی۔ بہرحال یہ باہر نکلے۔ اتنے میں قرب و جوار سے بھی کچھ لوگ لالٹینیں اور لاٹھیاں لے کر وہاں پہنچ گئے مگر افسوس مدد پہنچنے سے پہلے آدم خور چیتا اس بے کس کی لاش اٹھا کر لے جاچکا تھا۔
دوسرے دن تلاش اور جستجوکے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک مکان مل گیا۔ سامان بندرگاہ سے منگا لیا گیا اور ڈاکٹر صاحب اپنے ہم سفر رشید صاحب اور اپنے نوکر کے ساتھ وہاں قیام پذیر ہوگئے۔ کاروبار کے لیے جگہ بھی مل گئی۔
ڈاکٹر صاحب کا نوکر معراج الدین جسے انھوں نے بمبئی میں کھانا پکانے پر رکھ لیا تھا۔ دلچسپ شخص تھا۔ اسے پہلوانی کا بڑا شوق تھا۔ کچھ شکل و شباہت بھی پہلوانوں جیسی تھی۔ کھانا لذیذ پکاتا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ احمق بھی تھا۔ اپنی بہادری اور پہلوانی کے عجیب و غریب قصے سناتا تھا۔
جن دنوں ڈاکٹر صاحب یہاں پہنچے تھے یوگینڈا کے جنگل کاٹے جا رہے تھے کیونکہ وہاں شیروں اور دوسرے آدم خور درندوں سے ریل کی پڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کا بڑا نقصان ہو رہا تھا۔ ان کے واقعات موضوع گفتگو بنے رہتے تھے۔ ایک دن ایسا ہی کوئی واقعہ پیش آیا تھا اور شکار اور شکاریوں کے قصے بیان کیے جا رہے تھے۔ معراج بھی سن رہا تھا۔ اس سے نہ رہا گیا۔ جھٹ بول پڑا۔ کہنے لگا، افریقہ کے شیر کیا چیز ہیں، شیر تو کجلی بن کے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی شیر کے میں تھپڑ مار دوں تو خدا کی قسم اسے بخار آجائے۔ یہ سن کر لوگ ہنس پڑے۔ معراج اس پر خفیف ہونے کی بجائے اور شیر ہو گیا۔ کہنے لگا، لو سنو میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔
تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ میں شیر کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ کہنے لگا "میں لاہور میں رہتا تھا۔ بڑے اچھے دنوں کا زمانہ تھا۔ پولیس کا بڑا صاحب کچلی بن میں شکار کھیلنے جانے لگا۔ پولیس والوں سے میرا میل جول تھا۔ ایک نے صاحب سے میری بہت تعریف کی۔ صاحب کو مجھ سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔ گاڑی بھیج کر مجھے بلوایا اور مجھ سے کہنے لگا، "ویل معراج الدین ہم نے آپ کا بہت تعریف سنا ہے۔ تم جنگل میں شیر کو ڈنڈے سے مار کر ہلاک کرسکتے ہو۔"میں نے کہا، "میں تو کمزور آدمی ہوں۔ اگر کہیں جنگل میں شیر کا سامنا ہو جائے تو دکھاؤں۔" اس پر صاحب نے مجھے اپنے ساتھ کجلی بن چلنے کو کہا۔ میں تیار ہو گیا اور ان کے ساتھ چلا گیا۔ شکار گاہ میں کئی مچان اور بھینسے بندھوائے گئے۔
اگلے ہی دن صبح خبر آئی کہ رات شیر نے ایک بھینسے کو مار دیا۔ صاحب اس شام ایک مچان پر چڑھ گئے۔ کچھ اور شکاری بھی ان کے ساتھ تھے۔ میں ان سے آدھ میل دور جنگل کی ایک خطرناک گھاٹی میں ایک درخت کی جڑ میں بیٹھ گیا اور اپنا ڈنڈا درخت کے تنے کے ساتھ کھڑا کردیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں شیر گھاٹی سے نکل کر آتا تھا۔ سورج چھپنے کا وقت تھا۔ ہلکی روشنی باقی تھی۔ میں نے سگریٹ سلگا کر پینی شروع کردی اور شیر کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں بیس گز کے فاصلے پر لمبی گھاس میں ایک سرخ چیز ہلتی نظر آئی۔ میں بغل میں ڈنڈا دبا کر درخت کی آڑ میں ہو گیا اور اس پر نظریں جمائے رہا۔ دو منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک بڑا جسیم اور زبردست شیر نر میرے قریب آگیا۔ سچ کہتا ہوں اگر کوئی دوسرا میری جگہ ہوتا تو اس کی روح فنا ہو جاتی۔ اس کا رخ صاحب کی مچان کی طرف تھا۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ پھر جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچا، میں اپنی جگہ سے ایک دم کود کر اس کی کمر پر سوار ہوگیا۔
شیر اس ناگہانی آفت سے پریشان ہو گیا۔ ایک تو میرا کل بوجھ اس پر اور پھر میں نے اس کے دونوں کان اس زور سے پکڑ کر کھینچے کہ اس کا بھیجا کھولنے لگا اور وہ خوف سے تھر تھرانے لگا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے کو میری گرفت سے رہا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ آخر میں نے اس کو بالکل عاجز کردیا اور کچھ جلدی سے اپنی جیب سے ایک بالی نکال کر بائیں کان میں پہنا دی اور اپنی گفت ڈھیلی کردی۔ شیر چھٹتے ہی دم دبا کر بھاگا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا وہ سیدھا صاحب کے مچان کے پاس جا پہنچا۔ صاحب نے دیکھتے ہی دن دن دو فائر کردیے۔
شیر زخمی ہوا۔ میری مار پیٹ سے ادھ موا تو وہ ہو ہی رہا تھا، فوراً گر پڑا۔ اب مچان سے نیچے اترنے کا کسی کو حوصلہ نہیں ہوا۔ اتنے میں جب میں ٹہلتا ہوا اور سگریٹ پیتا ہوا وہاں جا پہنچا تو مجھے دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی۔ وہ سب نیچے اترے۔ شیر مر چکا تھا۔ صاحب نے قریب پہنچ کر مردہ شیر کے کان میں بالی جو دیکھی تو حیران رہ گئے اور میرا منہ تکنے لگے۔ میں ہنسا اور ان کو کل واقعہ بتایا اور کہا کہ اگر میں اس وقت شیر کو ایک منٹ بھی اور اپنی گرفت میں رکھتا اور ایک آدھ گھونسا یا ڈنڈا اس کے مار دیتا تو وہ فوراً جہنم میں پہنچ جاتا۔ مگر میں تو یہ چاہتا تھا کہ وہ آپ کے ہاتھ سے مارا جائے۔ اس لیے میں نے اس کو بالی پہنا کر آپ کے پاس روانہ کردیا۔ یہ سن کر صاحب بے انتہا خوش ہوئے اور فوراً جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیا اور کہا کہ آج سے تمہارا نام معراج الدین خان بہادر ہے۔"
معراج الدین کے شیر کے شکار کی اس کہانی کے راوی جس کا عنوان "افریقہ میں پہلی رات" ہے، ڈاکٹر محمد علی سبزواری ہیں۔ یہ اس کتاب میں شامل ہے جو راشد اشرف نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں "شکاریات کی ناقابل فراموش داستانیں " کے عنوان سے مرتب کی ہے۔ اس دور میں اب جب نہ شکار ہے اور نہ شکاری شکار کی یہی داستانیں رہ گئی ہیں اور اپنے لکھنے والوں کی پہچان۔ ناقابل فراموش۔