شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ہنستے بستے اور پررونق شہر جب اجڑے ہوئے دیار محسوس ہونے لگیں تو سمجھو کہ بستی کے مکینوں پر ایسا بہت کچھ بیت چکا ہے کہ وہ اب بہار میں خزاں کی اداسی اوڑھ لیتے ہیں اور سرسبز و شاداب شہر بھی انہیں ریت کے بگولے جیسے نظر آتے ہیں۔ ایسی ادا، دکھ اور کرب یوں تو پوری بستی کا المیہ ہوتا ہے لیکن شاعر اس کرب کی زبان بنتا ہے کہ بقولِ اقبال وہ دیدہ بینائے قوم ہوتا ہے۔ ایسے ہی کربناک ماحول کو ناصر کاظمی نے خوب پیش کیا ہے
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ساٹھ کی دہائی کے ہنستے بستے شہر اگر ناصر کاظمی کو سناٹوں کے امین لگتے تھے تو اگر وہ آج زندہ ہوتا تو وہ ایسی اداسی کی چادر اوڑھ لیتا جو شہر بھر کے زخموں سے تار تار ہو چکی ہوتی۔ جنگ، خونریزی، خوف، دھوکہ، فریب اور اجنبیت آج کے شہر کا المیہ ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی دربدر ہوتا ہے، وہاں سے کوچ کر چکا ہوتا ہے۔ اسی کیفیت پر آج سے پندرہ سال قبل "نوحہ ہجرت" کے عنوان سے یہ نظم کہی تھی
ہجرت بھی عجب اب کے مکینوں سے ہوئی ہے
جس شہر میں رہتے تھے وہی شہر ہے اب تک
جس گھر میں بسیرا تھا وہی اب ہے ٹھکانا
جس چھت کی دعا مانگتے رہتے تھے سبھی لوگ
اب تک ہے سروں پر اسی چھتنار کا سایہ
پھر بھی کوئی ہجرت ہے کہ چہروں پہ سجی ہے
ہر آنکھ میں گھر لوٹ کے جانے کی پڑی ہے
***
کل گھر جسے کہتے تھے پڑاؤ ہے کوئی اب
ایک چھت جو اماں دیتی تھی اب خوف نشاں
یاروں کا ٹھکانہ نہیں ملتا ہے کسی کو
باتیں سبھی اغیار کی یاروں کی زباں ہے
آنکھیں سبھی اپنوں کی مگر شعلہ فشاں ہیں
دل یوں تو دھڑکتے ہیں سنائی نہیں دیتے
اس شہر کو اب اشک دکھائی نہیں دیتے
***
ایک قافلہ در بدراں اپنے ہی گھر میں
ہجرت کا سماں چاروں طرف خوف نگر میں
بے گھر ہیں غریب الوطنی سب پہ پڑی ہے
بے سمت مسافر کی گھڑی آن کھڑی ہے
چہرے کہیں اپنوں کے دکھائی نہیں دیتے
دیوار و در اپنے تھے سجھائی نہیں دیتے
کیا لوگ ہیں اس دکھ کی دہائی نہیں دیتے
مدتوں اپنی اس نظم کی کیفیت مجھ پر مسلسل طاری رہی۔ اس لئے کہ دنیا کے شہروں کے ظلم ختم ہوتے تھے اور نہ ہی اس نظم کا دکھ۔ لیکن لگتا تھا کہ میری شاعری اس کرب کا صحیح اظہار نہیں کر پا رہی۔ شائد اسکے لئے اس المیے سے گزرنا ضروری تھا۔ شاید کراچی، کوئٹہ، سوات یا وزیرستان کا کوئی بے گھر لٹا پٹا شاعرواقعی اسکا حق ادا کر سکتاہے۔ لیکن گذشتہ ایک ماہ سے ایک فارسی نظم نے یوں ذہن کو اپنے سحر میں لیا ہے کہ بار بار سننے سے بھی تسلی نہیں ہوتی۔
جی چاہتا ہے اس نظم کی کیفیت میں دیر تک دنیا و مافیہا کو بھول کر پڑا رہوں یا پھر کسی اجڑے شہر کی خالی پگڈنڈیوں پر اسے گنگناتا ہوا گھومتا رہوں۔ یقیناً کوئی افغانستان میں بسنے والا ہی ایسے کرب سے آشنا ہو سکتا ہے جہاں گزشتہ چالیس سال سے خون اور بارود کی بو کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ کیا مقدر ہے ہرات شہر کا جسے خراسان کا ہیرا کہا جاتا تھا۔ 1221ء میں اسے چنگیز خان نے برباد کیا، ابھی دوبارہ آباد ہوا ہی تھا کہ 1381ء میں تیمور نے اسے کھوپڑیوں کے میناروں سے سجا دیا، 1506ء میں اس پر ازبک چڑھ دوڑے اور پھر شاہ اسماعیل صفوی نے اسے ایران میں شامل کرلیا۔
احمد شاہ ابدالی نے ایک سال اسکا محاصرہ کیے رکھا اور زبردست خونریزی کے بعد اس پر قبضہ کیا۔ یہ تو تاریخ تھی لیکن اور گزشتہ چالیس سال سے روس، امریکہ اور دنیا کے تقریباً ہر طاقتور ملک کے ظلم کا نشانہ یہ شہر ہے۔ جس شہر میں عاشق رسول اور فارسی نعت گوئی کے سردار عبدالرحمن جامی نے عمر گزاری ہو، جہاں مولانا روم کا بچپن اور جوانی بیتی ہو، اس شہر نے ایک ایسے شاعر کو جنم دیا جسکی اس نظم نے ایک ماہ سے مجھے اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔
امیر جان صبوری، شاعر تو ہے ہی لیکن اپنی غزلیں خود بلا کی خوبصورتی سے گاتا ہے اور انکی دھنیں بھی خود بناتا ہے۔ لیکن اسکی اس نظم کو اسی کی بنائی ہوئی دھن میں تاجکستان کی "نگورا خولوہ "نے جس درد سے گایا ہے وہ سینے میں زخم بن کر اترجا تا ہے۔ ایک شاعری اس بلا کی ہے کہ اسے کسی ساز کی حاجت نہیں، بس دل سے درد کے ساتھ گانے کی حاجت ہے جسکا حق اس نے ادا کر دیا۔
برادر بزرگ کے ہارون الرشید نے دو شعر کالم میں تحریر کئے تھے لیکن اس نظم کا یہ حق ہے کہ اسے پوری تفہیم کے ساتھ مکمل قارئین کو پیش کیا جائے تا کہ درد کی اس دنیا میں چند لمحے وہ بھی گزاریں
شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایان، عندلیبان
باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
(کیا عالم ہے کہ شہر، رستے، کوچے اور گھر سب خالی لگتے ہیں، جام میز صراحی و ساغر بھی خالی ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام دوست اور بلبلیں یہاں سے کوچ کر چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ باغیچے شاخیں اور گھونسلے سب کے سب خالی ہیں)
وائے از دنیا کہ یار از یار می ترسد
غنچہ ہای تشنہ از گلزار می ترسد
عاشق از آوازہ دیدار می ترسد
پنجہ خنیاگران از تار می ترسد
شہ سوار از جادہ ہموار می ترسد
این طبیب از دیدن بیمار می ترسد
(حیف ہے اس دنیا پر کہ جہاں دوست دوست سے ڈرتا ہے، کلیاں کھلنے سے پہلے ہی باغ سے ڈرتی ہیں، عاشق اپنے محبوب کی آواز سے ڈرتا ہے، موسیقار ساز کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں اور مسافر آسان راستے سے بھی خوف کھاتے ہیں اور
سازہا بشکست و دردِ شاعران از حد گذشت
سال ہائے انتظاری بر من و تو برگذشت
آشنا ناآشنا شد
تا بلی گفتم بلا شد
(سْروں کو بکھیرنے والے تار ٹوٹ چکے اور شاعروں کا درد حد سے گزر گیاہے۔
میں نے تیرے انتظار میں اتنے سال گزارے ہیں کہ سب آشنا اب ناآشنا ہو گئے ہیں)
گریہ کردم، نالہ کردم، حلقہ بر ہر در زدم
سنگ سنگِ کلبہ ویرانہ را بر سر زدم
آب از آبی نجنبید
خفتہ در خوابی نجنبید
(میں بہت رویا، گریہ و فریاد کی، ہر ایک دروازے پر دستک دی۔ اس ویرانے کے پتھروں کی ریت اپنے سر پر ڈالی۔ لیکن جیسے پانی کو نہیں معلوم کہ وہ کسقدر گہرا ہے ویسے ہی سوئے ہوئے شخص کو کیا پتہ کہ وہ کتنی گہری نیند سو رہا ہے)
چشمہ ہا خشکیدہ و دریا خستگی را دم گرفت
آسمان افسانہ ما را بہ دستِ کم گرفت
جام ہا جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد
بر من و بر نالہ ہایم، ہیچ کس گوشی ندارد
(سب چشمے خشک ہوگئے، دریا سست ہوگئے، آسمان نے بھی میری داستان کو کوئی وقعت نہ دی سب نشہ بے اثر ہوگیا ہے اور عشق کی آگ جو سینوں میں تھی بجھ چکی ہے)
بازآ تا کاروانِ رفتہ باز آید
بازآ تا دلبرانِ ناز ناز آید
بازآ تا مطرب و آہنگ و ساز
آیدکاکل افشانم نگارِ دل نواز آید
بازآ تا بر در حافظ اندازیم
گل بیفشانیم و می در ساغر اندازیم
(تم لوٹ آؤ تاکہ قافلہ پھر روانہ ہو جائے، لوٹ آئوکہ محبوبوں کے نازوانداز لوٹ آئیں۔ لوٹ آؤ گے مضطرب ساز کی دنیا آباد ہو۔ لوٹ آؤ اور حافظ کے انداز میں مہرجاناں کے استقبال میں پھول برسائیں اور رونقیں پھیلا دیں )
شہر کے لٹنے، تباہ ہونے، برباد ہونے اور اجڑنے کا دکھ اپنی جگہ ہے لیکن جیسے آج سمجھانے کیلئے فارسی شاعری کا مجھے ترجمہ لکھنا پڑ رہا ہے اور مجھے خوب اندازہ ہے کہ ترجمہ پڑھنے والا اس کیفیت سے ہرگز نہیں گزر سکتا جس سے گانے والی نگوراہ خلوا گزری ہے کہ یہ اسکی زبان ہے اسی لئے اس نے اسے امر کر دیا، ویسے ہی عین ممکن ہے ایک وقت ایسا بھی آجائے جب کسی کالم نگار کو ناصر کاظمی کے اس شعر کا بھی ترجمہ تحریر کرنا پڑ جائے۔ تہذیبیں اجڑتی ہیں تو دکھ، درد خوشی اور اداسی کے گیت بھی اجڑ جاتے ہیں۔