غزہ، عالمی جنگ کا بگل، یورپ میں آباد مسلمان (2)
یورپ میں مسلمانوں سے نفرت کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے۔ قدیم روم کی سلطنت کے زیر نگیں ایشیا اور افریقہ کے سرسبز علاقے شام، فلسطین، مصر، لیبیا، تیونس اور الجیریا بھی آتے تھے۔ رومن بادشاہ یہاں سے خوراک اور غلام برآمد کرتے اور ان محکوم علاقوں کی محنت سے روم کی سلطنت کے خواص و عوام خوشحال اور خوش و خرم زندگی گزارتے۔ ایشیا اور افریقہ کے یہ تمام علاقے صدیوں سے عیسائیت کا مرکز رہے۔ مسلمانوں کی ابتدائی جنگیں انہی علاقوں پر ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف چند سالوں میں یہ تمام علاقے جو دراصل مسیحی روم کے ہاتھوں استحصال سے کچلے ہوئے تھے، اسلام کی آزادی اور حریت کے تصور کے سحر سے مسلمان ہو گئے۔
روم سمٹ کر رہ گیااور لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ عیسائی چرچ جو دراصل رومی سلطنت کا اصل حکمران تھا، اپنی اس ذلت آمیز شکست کے بعد ایک بالکل نئے انداز سے اسلاماور مسلمانوں پر حملہ آور ہوا۔ اس نے اسلام، رسول اکرم ﷺ کی ذات مبارک اور قرآن حکیم کے بارے میں غلط تصورات پھیلانے کے لیے باقاعدہ علمی محاذپر کام شروع کیا تاکہ بچی کچھی رومی سلطنت کے باسیوں میں مسلمانوں کا ایک خوفناک، خونخوار اور ہیبت ناک تصور بنا کر پیش کیا جائے۔
اس کے برعکس مسلمانوں کی رواداری کا عالم یہ تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے پہلے اُموی دربار میں سینٹ جان آف دمشق ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ دربار میں اپنی اس حیثیت کے باوجود اس شخص نے خفیہ طور پر رسول اکرم ﷺ کی شخصیت کے بارے قلمی ہرزہ سرائی کا آغاز کیا۔ اسلام اور رسول اکرم ﷺ کے بارے میں وہ تمام تصورات جن کی بنیاد پر آج یورپ میں نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں، اسی شخص کی تحریروں سے لیے گئے ہیں۔ اس شخص کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مامون الرشید کا درباری ابو یوسف یعقوب بن اسحاق نے 870 عیسوی میں قلمی نام عبدالمسیح الکندی اختیار کیا اور "الرسالہ" کے نام سے ایک مسلمان اور عیسائی کے درمیان فرضی دلآزار قسم کا مکالمہ تحریر کیا۔
یہ دونوں کتب عیسائیت کے علمی ذخیرے میں مدتوں موجود رہیں اور انہیں پادری مسلسل اپنے شاگردوں میں مسلمانوں کے خلاف رائے بنانے کے لیے تقسیم بھی کرتے تھے۔ مسلمانوں کی عالی ظرفی اور تحمل کا عالم یہ تھا کہ سپین میں اسلامی حکومت کے عروج کے زمانے، یعنی بارہویں صدی عیسوی میں الکندی کے اس "الرسالہ" کا لاطینی ترجمہ، اسلامی ریاست کے شہر طیطیلہ (Toledo) میں کیا گیا، جو پیٹر آف ٹولیڈو اور اس کے ساتھیوں نے کیا تھا۔ اس ترجمے کی لاطینی ذرا بہتر نہ تھی تو اسے فرانس کے ادیب پیٹر آف پواٹزیر (Peter of Poitiers) نے اس کی نوک پلک درست کی اور اسے ایک ادبی انداز دیا۔ ان دونوں ادیبوں کو عیسائی مذہب کی ایک اہم شخصیت پیٹر آف وینی ربیل (Peter of Venerable) نے اس کام کے لیے اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا۔ یہی وہ شخصیت تھی جس نے قرآن پاک کا تحریف شدہ ترجمہ کروایا اور پھر اس کے لاتعداد نسخے تیار کروائے۔
الکندی کے اسی "الرسالہ" کا ایک اور ترجمہ سوئٹزرلینڈ میں پندرہویں صدی میں بھی کیا گیا اور جیسے ہی چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو پروٹسٹنٹ فرقے کے بانی مارٹن لوتھر نے اس کتاب کو عام عیسائیوں میں چھپوا کر تقسیم کروایا۔ جدید یورپ میں ولیم میور نے اس کا ترجمہ "Apology" یعنی معذرت کے نام سے 1882ء میں کیا اور موجودہ دَور تک یہ کتاب اسلام کے بارے میں لکھی جانے والی بیشتر کتابوں، مسلمانوں کے بارے میں شائع ہونے والے مضامین اور چرچ میں پادریوں کی تقریروں سے لے کر مسلمان دشمن گروہوں، سکالروں اور دیگر افراد کی گفتگو اور مباحث میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب ایک عیسائی اور مسلمان کا مکالمہ ہے جس میں رسول اکرم ﷺ کی ذات، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام پر اخلاقی الزامات لگائے گئے ہیں اوراسلام کو یہودیوں اور عیسائیوں سے نقل کردہ روایت سے وضع کردہ مذہب بتایا گیا ہے (نعوذ باللہ)۔
مسلمانوں، رسول اکرم ﷺ اور اسلام کے بارے میں یہ تصور یورپ میں بسنے والے لوگوں میں اس قدر عام ہے کہ آج بھی اگر کوئی لکھاری کسی دہشت گردی کے واقعے پر مضمون تحریر کرنے لگتا ہے تو مسلمانوں کی نفسیات بتانے کے لیے وہ انہی دو قدیم کتابوں کے حوالے تحریر کرتا ہے۔ ان دونوں کتابوں کے بعد مغربی مستشرقین کی ایک طویل فہرست ہے جس میں جارج سیل، مارگو لیتھ، ولیم میور، منٹگمری واٹ، جرجی زیدان، اور ہملٹن گب جیسے لاتعداد مصنفین شامل ہیں جن کی تحریروں کا موضوع بظاہرتو اسلام اور مسلمان تھا، مگر انہوں نے انتہائی خوبصورت انداز میں غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی تاریخ اور تصور کو بُری طرح مسخ کیا۔ یورپ میں یہ بنیاد گہری تو پہلے سے ہی تھی، مگر اب یہ مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔
آج سے پندرہ سال پہلے بہت سے لکھنے والوں نے بار بار اس خوف کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں سے یورپ میں نفرت کی یہ لہر اس قدر شدید ہو سکتی ہے کہ ایک دن یورپ کے مسلمانوں کے ساتھ شاید وہی سلوک ہو جیسا کئی صدیاں پہلے سپین میں ہوا تھا یا پھر جو سلوک ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
غزہ پر حملے کے بعد ایک بڑی عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، ایسے یورپ میں رہنے والوں کی خدمت میں سید الانبیاء ﷺ کی دی ہوئی ایک وارننگ پیش خدمت ہے۔ آپﷺ نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا۔ وہاں کچھ مسلمان مشرکوں سے مل جل کررہ رہے تھے۔ انہوں نے سجدہ کرکے بچنا چاہا، پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی۔ نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے ان کی نصف دیت کا حکم دیا اور پھر فرمایا "میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا آخر کیوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دُوری پر سکونت اختیار کرنی چاہئے کہ دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں" (الترمذی، نسائی، ابوداؤد)۔
اس حدیث سے منہ موڑ کر جو لوگ آج یورپ میں آباد ہیں، ان کے انجام کے بارے میں دورِ فتن کے زمانے کی ایک ایسی خوفناک تصویر، احادیث میں ملتی ہے کہ دل خوف سے کانپ اُٹھتا ہے۔ یہ حدیث نعیم بن حماد کی "کتاب الفتن" کے اس باب میں ہے جہاں آخری بڑی جنگ کا تذکرہ ہے، جس میں اہل روم اسی جھنڈوں تلے نو لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی لے کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوں گے۔ یہ حدیث حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے اور بہت طویل ہے۔ اس بڑی عالمی جنگ کے دوران یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے خوفناک انجام کی طرف اشارہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا، "جو عرب باقی رہ جائیں گے، رومی ان پر ٹوٹ پڑیں گے، اور ان کو قتل کر دیں گے، یہاں تک کہ روم کی سرزمین میں موجود کوئی عرب مرد، عورت یا بچہ قتل ہوئے بغیر نہیں بچے گا" (کتاب الفتن۔ باب الاعماق و قسطنطنیہ)۔
دنیا جس عالمی جنگ کی جانب تیزیسے بڑھ رہی ہے اور دورِ فتن میں جس جنگ کی خبر دی گئی، اس میں سب سے خوفناک انجام انہی مسلمانوں کا ہی بتایا گیا ہے، جویورپ والوں پر بھروسا کرکے وہیں رہ جائیں گے۔ ان کے مرد، عورتیں اور بچے سب قتل کر دیئے جائیں گے۔
ختم شد۔