29 نومبر کی اہمیت
پاکستان کی جاری سیاسی تاریخ میں انتیس نومبر کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے، یہ اہمیت دوگنا ہرگز نہ ہوتی اگر صرف کمان کی تبدیلی ہوتی، جنرل سید عاصم منیر پاک فوج کے ستارہویں سربراہ کے طور پر عہدہ سنبھالتے مگر اس موقعے پر جنرل فیض حمید کا قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لینا ہماری گذشتہ گیارہ برس کی سیاسی تاریخ سے وابستہ بہت ساری کہانیوں کے ساتھ ساتھ مارچ، اپریل سے کئے جانے والے بہت سارے تجزیوں کی توثیق کر رہا ہے۔
میں کوئی انکشاف نہیں کر رہا کہ جنرل عاصم منیر سابق وزیراعظم عمران خان کی گڈ بکس میں تھے، عمران خان نے ہی انہیں ڈی جی آئی ایس آئی جیسے اہم عہدے پر تعینات کیا تھا اورا س کے پیچھے بطور ڈی جی ایم آئی ان کی شاندار کارکردگی تھی۔ یوں جنرل عاصم منیر پاک فوج کے وہ پہلے سربراہ ہیں جو حافظ قرآن بھی ہیں اورملک کی دونوں سٹارایجنسیوں کی سربراہی کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ جنرل سید عاصم منیرنے بطور ڈی جی آئی ایس آئی ملک کے بہترین مفاد میں وزیراعظم کو اس کرپشن سے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ آگاہ کیا جس میں بنی گالہ کی اہم شخصیت اور پنجاب کا ایوان وزیراعلیٰ ملوث تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ایک تعلق اور پل بھی تھا جس کا نام فرح گوگی بتایا جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ثاقب نثار کی عدالت سے صادق اور امین کا لقب پانے والے سیاستدان عمران خان بطور وزیراعظم اس کرپشن کا نوٹس لیتے کیونکہ ان کے فالورز اور چاہنے والوں کے مطابق انہیں پیسے کی کوئی ہوس نہیں ہے، وہ اتنے سادہ ہیں کہ کئی سو کنال کے گھر میں رہتے ہوئے بھی ان کی قمیض میں موریاں ہوتی ہیں مگر انہوں نے کرپشن کرنے والوں کو ہٹانے کی بجائے کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو ہی عہدے سے ہٹا دیا۔ سابق وزیراعظم کی چوائس واضح تھی، ا نہوں نے جس شخصیت کو ان کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی لگایا، بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ انہیں پاک فوج کا سربراہ لگانا چاہتے تھے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جنرل فیض حمید ایک ٹیلنٹڈ جرنیل تھے۔ میں ان کی مہم جوئیوں سے اختلاف کر سکتاہوں مگر ان کے ساتھیوں کے پاس اس کے بہت سارے دفاع موجود ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر فیض حمید، عمران خان والا راستہ اختیار نہ کرتے تو ان کے پاک فوج کے سربراہ بننے کے زیادہ امکانات ہوتے مگر انہوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس پر تحفظات ظاہر کئے گئے۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ آج استعفیٰ نہ دیتے تو میرے پاس اس کالم میں دینے کے لئے کوئی جواز، کوئی دلیل نہ ہوتی۔ ان کے ریٹائرمنٹ نما استعفے نے بہت کچھ ثابت کر دیا ہے۔ میں آج کہہ سکتا ہوں کہ جنرل سید عاصم منیر جیسے پروفیشنل فوجی کے سربراہ بننے کے بعدساٹھ، ستر برس کی ان غلطیوں کے ازالے کا وقت آ گیا ہے جس کے بارے گذشتہ برس فروری میں فیصلہ کیا گیا۔
پاک فوج کے سیکٹرکمانڈر لیول یعنی بریگیڈئیر لیول تک کے افسران نے ایک آئینی اور پروفیشنل فیصلہ کیا کہ پاک فوج ہر پاکستانی کی فوج ہے، یہ کسی ایک سیاسی جماعت کی جاگیر نہیں ہے، پاک فوج اب سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی بلکہ اپنے فرائض اور مینڈیٹ تک محدود رہے گی۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ پاک فوج کے اداروں کو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر حکومتی اور غیر حکومتی عمائدین کی کرپشن یا غداری وغیرہ کی نشاندہی کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
ان کے غیر جانبدار ہونے کا اصل مطلب ہی یہی ہے کہ اب جو بھی کرپشن کرے گا یا غداری کرے گا وہ جس بھی صف میں ہوگا اس کی نشاندہی ہوگی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق کارروائی بھی۔ اب کسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی کر کے مال یا حکومت بنانے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔
مجھ سے ایک ٹی وی پروگرام میں پوچھا گیا کہ اگر فوج غیر جانبدار ہے تو پھر اعظم سواتی پر کیس کیوں۔ یہ پروپیگنڈہ بہت منظم انداز میں کیا جا رہا ہے اور اس سوال کا جواب عام آدمی تک پہنچانا بہت ضروری ہے کہ فوج کے غیر جانبدار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی فوج کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے جب چاہیں برا بھلا کہیں، گالی دیں۔
غیر جانبدار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بے حس ہو گئے ہیں۔ مجھے شہباز گل اور اعظم سواتی قسم کے لوگوں سے کہنا ہے کہ وہ سیاست کریں۔ وہ اگر فٹ بال کے گراونڈ میں فٹ بال کے کھلاڑی کے طور پر ہیں تو فٹ بال کے کھلاڑیوں کے ساتھ فٹ بال ہی کھیلیں۔ وہ گراونڈ سے باہر ہاکی کے کھلاڑیوں کو اگر اپنا فٹ بال ماریں گے تو جواب میں ہاکی کے پلئیر بھی ان کو ہاکی سے ماریں گے، یہ سو فیصد منطقی بھی ہے اور جائز بھی۔ یہاں ایک اور سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا فوج سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے اپنے اس اعلان پر قائم رہے گی تو بہت سارے لوگوں کو تحفظات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی فوج نے دو مارشل لا لگا دئیے تو اب کون سی شے انہیں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت سے روک سکتی ہے۔
میرے خیال میں اب ایک نیا اور منفرد نتائج والا تجربہ اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ عمران خان والا تجربہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف والے تجربات سے کہیں زیادہ ناکام بلکہ تلخ رہا ہے۔ میں اس وقت سب سے زیادہ کامیاب ہونے والے، فہم و فراست سے اپنے لئے، اپنے خاندان کے لئے اور اپنی پارٹی کے لئے راستہ بنانے والے سیاستدان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر کوئی ساٹھ، ستر برس سے مسلسل گوشت کھا رہا ہو اور اسے اچانک کہا جائے کہ سبزی کھانا شروع کر دو تو وہ کبھی نہیں کھا سکے گا۔
مجھے کہنے دیجئے کہ اگر کوئی زندگی بھر سگریٹ پیتا یا نسوار کھاتا رہا ہواور وہ کینسر سمیت دیگر بیماریوں کو حملہ آور ہوتے دیکھ کے ارادہ ظاہر کرے کہ وہ سگریٹ چھوڑ رہا ہے تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ اسے بتانا چاہئے کہ اس کے نتیجے میں اس کی صحت بہتر ہوگی، اس کی آنکھیں زیادہ چمکیں گی، اس کے گال سرخ ہوجائیں گے، اس کی سانسوں سے بدبو نہیں آئے گی اوراس کے حسن، طاقت اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔
میری نظر میں اس انتیس نومبر کی اہمیت دوچندہوگئی ہے۔ جنرل فیض حمید کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ برقعہ پوش مارشل لا جو پچھلے گیارہ، بارہ برسوں سے لگا ہوا تھا اب اپنے انجام کو پہنچ گیاہے۔ تبدیلی والا تجربہ مکمل ناکام ہوگیا ہے۔
میرے پی ٹی آئی کے دوست انتیس نومبر یوم نجات کا ٹاپ ٹرینڈ چلا رہے ہیں مگر وہ آنے والوں دنوں کو اسی طرح دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھ رہے جس طرح عمران خان کی جاتی ہوئی حکومت کو دیکھ، سوچ اور سمجھ نہیں پا رہے تھے اوریہ کہ تبدیلی سرکار دس برس تک قائم نہیں رہے گی، انہیں اب کبھی دوتہائی اکثریت نہیں ملے گی، وہ صدارتی نظام نافذ نہیں ہوگا جس نے وسائل ا ور اختیارات کی مرکزیت اور قبضہ پیدا کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کر دیا تھا۔
شکریہ انتیس نومبر، ہم ایک برے اور بھیانک انجام سے بچ گئے ہیں۔