لاک ڈاؤن کی نرمی کتنی خطرناک
وزیر اعظم نے اگلے روز ایک طرف ملک میں لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف انھوں نے اسی لاک ڈاؤن میں مختلف قسم کی نرمیاں کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ مختلف قسم کی صنعتیں اور دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سرکاری دفاتر بھی کسی حد تک کھل رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف کاروبار زندگی چلانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے کیا نتائج آئیں گے؟
وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کورونا کی صورتحال پر اپنی پہلی تقریر میں کورونا کی بجائے عوام کو لاک ڈاؤن کے منفی اثرات سے آگاہ کرنا مناسب سمجھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں لاک ڈاؤن ہوگیا۔ جس سے ایک تاثر بن گیا کہ عمران خان تو لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں ہیں۔
لیکن ان قوتوں نے جو عمران خان سے زیادہ مضبوط ہیں اور نظام حکومت پر عمران خان سے زیادہ کنٹرول رکھتی ہیں، لاک ڈاؤن کا اعلان کرا دیا۔ ایک تاثر یہ بھی بن گیا کہ سندھ نے پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کر کے وفاقی اور تحریک انصاف کی دیگر صوبائی حکومتوں کو بند گلی میں دھکیل دیا جس کے بعد ان کے پاس بھی لاک ڈاؤن میں جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اس لیے ملک بھر میں یہ تاثر بن گیا کہ وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں لیکن ان کی چل نہیں رہی۔ وہ مجبور ہو گئے ہیں۔
بہر حال اب لاک ڈاؤن کو ایک طرف قائم بھی رکھا گیا دوسری طرف اس میں مختلف قسم کی نرمیاں بھی کی گئی ہیں۔ درزی، اسٹیشنری، حجام سمیت متعدد کاروبار کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری کو کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کو کھولنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ آمد و رفت پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ ان کاروبار سے منسلک اور وہاں پر کام کرنے والے ملازمین کیسے آئیں اور جائیں گے؟ کپڑے کی دکانیں بند ہیں تو درزی کیا سیئے گا؟ مزدور کام پر کیسے آئیں گے؟ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کیسے چلے گا۔ بیوٹی پارلر کھل گئے ہیں لیکن کاسمیٹک کی دکانیں بند ہیں۔ نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں کی مصداق جب آمد ورفت پر پابندی قائم رہے گی تو باقی سب نرمیاں کیا نتائج دے سکتی ہیں۔
اس لیے حکومت کے اگلے روز کے فیصلوں کے نتیجے میں لاک ڈاؤن ختم ہو جائے گا۔ حکومت کی پالیسیوں میں اسی ابہام کی وجہ سے تاجر دکانیں کھولنے پر مصر ہو گئے ہیں۔ علما نے مساجد میں پابندیوں پر عملدرآمدکرنے سے انکا ر کر دیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ حکومت اپنے لاک ڈاؤن کے خلاف خود ہی بغاو ت کا ماحول بنا رہی ہے۔ اس طرح حکومت کی اپنی رٹ ہی ختم ہو تی نظر آرہی ہے۔ یا تو حکومت کو مکمل لاک ڈاؤن کرنا ہوگا یا ختم کرنا ہوگا۔ یہ پالیسی چلتی نظر نہیں آتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے متعدد کاروبار کھولنے کا تو اعلان کر دیا ہے لیکن ساتھ ہی مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بند رکھنے کے اعلان پر قائم ہیں۔ کیا یہ مضحکہ خیز نہیں۔ ہم اسٹیشنری کی دکانیں کھولنے کا اعلان تو کر رہے ہیں لیکن اسٹیشنری کی مارکیٹ کھولنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
اب خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ جب لاک ڈاؤن بتدریج ختم ہو گا۔ تو ملک میں کورونا پھیل جائے گا۔ اب تک خود وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں کورونا توقع سے کم پھیلا ہے۔ کیا ہم اب اس کامیابی کو ضائع کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں اس وقت گندم کی کٹائی جاری ہے۔
یہ درست ہے کہ گندم کی کٹائی کو روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ گندم کی اس کٹائی کے دوران دیہی علاقوں میں کوروناپھیلنے کے بہت خطرات ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں ویسے بھی بیماریوں کے خلاف شعور کی کمی ہے۔ ساتھ ساتھ وہاں صحت کی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔ وہاں قرنطینہ اور وینٹی لیٹر کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آجکل تو شہروں میں ڈاکٹر وں کی کمی ہو رہی ہے۔ ہم دیہات میں ڈاکٹر کہاں سے دیں گے۔ اس لیے اگر پاکستان کے دیہی علاقوں میں کورونا پھیل گیا تو کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔
اس لیے اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں جو نرمیاں کی جا رہی ہیں اس کے بعد ملک میں کورونا کا پھیلاؤ تیز ہو جائے گا۔ ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہم نیو یارک لندن اور اٹلی بننے کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسی صورتحال ہو گئی تو ہم کیا کریں گے۔ ہمارے پاس نہ تو ان ممالک جیسے وسائل ہیں اور نہ ہی صحت کی وہ سہولیات اس لیے اگر ہمارے ملک میں خدانخواستہ ویسی صورتحال پیدا ہو گئی تو یہاں وہاں سے زیادہ تباہی ہو گی۔
یہ درست ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ معاشی بحران کا شکار ہو گئے تھے۔ دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی تھی۔ نوکریاں ختم ہو رہی تھیں۔ بے روزگاری ہر لمحہ بڑھ رہی ہے۔ کاروبارہ تباہ ہو رہے ہیں۔ اس لیے ایک رائے بن رہی تھی کہ اگر یہ لاک ڈاؤن جاری رہا تو لوگ شاید کورونا سے تو بچ جائیں لیکن بھوک و افلاس سے مر جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان اس خدشہ کا بھی اظہار کر رہے تھے کہ بھوک بڑھ گئی تو ملک میں انارکی اور فسادا ت کا خطرہ ہے۔ اس لیے لوگوں کو بھوک سے نہیں مارا جا سکتا۔
لیکن ہم لوگوں کو بھوک سے تو نہیں مارنا چاہتے لیکن کورونا سے مرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیا حجام کی دکانوں سے کورونا نہیں پھیلے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت نے کیا سوچا ہے؟ کیا کسی نے اندازہ لگایا ہے کہ کورونا پھیلنے کے بعد ملک میں کیا ہوگا؟ کیا لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے لیے کورونا سے مرنے دینا ہوگا۔ ہمارے پا س تو شہروں میں کورونا کے ٹیسٹ کرنے کی مکمل صلاحیت نہیں ہے۔ دیہات میں کورونا ٹیسٹ کہاں سے ہوں گے۔
پاکستان میں تو عام آدمی پہلے ہی کورونا کو بیماری ماننے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ روز ایک پھل والے سے جب میں نے کہا، تم دستانے اور ماسک کیوں نہیں پہنتے تو اس نے کہا صاحب جی یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک عالمی سازش ہے۔ میں اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا تمہیں اپنے گھر والوں کی فکر نہیں۔ وہ کہنے لگا سب اﷲکی پناہ میں ہیں۔ کوئی فکر کی بات نہیں۔ ایسی صورتحال میں نرمیاں کیا نتائج دیں گے، ہمیں شاید اس کا احساس نہیں ہے۔
میری حکومت سے درخواست ہے کہ ان نرمیوں پر از سر نو غور کرے۔ دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جائے۔ ہمیں بھارت کی مثال کو سامنے رکھنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے مودی کی معافی کو تو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ لیکن دیکھیں بھارت نے ساری صورتحال کے باوجود لاک ڈاؤن میں تین ہفتہ کی توسیع کر دی ہے۔ ہم پاکستان میں بیانیہ بنا رہے ہیں کہ لوگوں کو بھوک سے نہیں مارا جا سکتا۔
وہاں بیانیہ ہے کہ زندگی قیمتی ہے، کورونا کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے میری حکومت سے درخواست ہے کہ اپنے فیصلوں پر دوبارہ غور کرے۔ مکمل لاک ڈاؤن میں ہی پاکستان کا بچاؤ ممکن ہے۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے حکومت کو نئے آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔ اب تک اس ضمن میں حکومت کی کاوشیں بہتر نہیں ہیں۔ نہ تو حکومت لوگوں کے روزگار کو تحفظ دے سکی ہے اور نہ ہی مڈل کلاس کو کوئی ریلیف دے سکی ہے۔ اس لیے حکو مت کا اپنی جان چھڑانے کے لیے عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنا جائز نہیں۔