سارے تیرا دتا کھاون
درد دل رکھنے والے ایک اچھے صحافی نجم ولی نے چند روز پہلے اپنے کالم شہر یاراں میں لکھا، کسان مر گیا۔ ہاں کسان مر گیا، لاہور میں ایک کسان کو پولیس نے مارا؟ اس کا جواب باقی ہے، مگر کسان تو روز ہی مرتا ہے، کسان تو اس روز ہی مر جاتا ہے جب حکومتی کارندے اسکی فصل اسکی مرضی کے بغیر حکومتی قیمت پر زبر دستی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور بعد میں وہی فصل اس سے دگنا قیمت پر اس کو خریدنا پڑتی ہے، کسان تو اس رات بھی مر جاتا ہے جب بے موسمی بارش اور زالہ باری اسکی پکی ہوئی فصل تباہ کر جاتی ہے اور حکومت سمیت کوئی ادارہ اسکی مدد کو نہیں آتا اور کسان تو اس وقت بھی مر جاتا ہے جب مہنگی بجلی کا بل نہ دینے کی وجہ سے اس کے ٹیوب و یل کا میٹر واپڈا والے اتار کر لے جاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کسان کب تک مرتا رہے گا؟ کسان حقوق کی تحریک حکومتیں کب تک روک سکیں گی؟ انسانی تاریخ کے ہر دور میں مزاحمتی تحریکیں ابھرتی رہیں، ان میں سے کچھ کامیاب ہوئیں اور کچھ ناکامی سے دوچار، شکست و ناکامی کے باوجود ان تحریکوں کا چلتے رہنا اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ میں ظلم، جبر، استبداد کیخلاف لڑنے کا جذبہ آج بھی موجود ہے۔
کسان تحریک تو ہر دور میں جاری رہی کہیں حکومتی جبر اور استحصالی ہتھکنڈوں کیخلاف اور کبھی جاگیر داروں کے ظلم اور اجارہ داری کیخلاف، ماضی میں غیر ملکی قابضین کیخلاف بھی کسی طبقہ نے احتجاجی آواز بلند کی تو وہ کسان ہی تھے، یہ حملہ آور ان کی پیداوار بھی چھین لیتے اور ان کو غلام بنانے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ حکومت اور جاگیر دار بھی کسان سے پیداوار اپنی مرضی کے نرخ پر خرید لیتے، ٹیکس بھی لیتے اور جرمانے بھی کرتے، جاگیر دار ہمیشہ چھوٹے کاشتکاروں کو اپنا کمی گردانتے، جب چاہتے فصل اور زمین پر قبضہ کر لیتے، ان منفی ہتھکنڈوں کیخلاف کسان ہر دور میں مقابلہ کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں، اب کسان اور اس کی فصل کے دو مزید دشمن پیدا ہو گئے ہیں جو کسان کی ساری محنت اونے پونے خرید کر تجوریاں بھر تے ہیں اور کسان بیچارا مسائل و مشکلات میں گھرا نئی فصل اگانے کیلئے بھی قرض لینے یا اپنی فصل تیاری سے پہلے ہی آڑھتی یا مڈل مین کو کم ترین نرخ پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
برصغیر میں کسان تحریک کا آغاز ٹیپو سلطا ن کے بعد شروع ہواءٹیپو سلطان ایک بہادر انسان کے ساتھ ساتھ ترقی پسند کاشتکار تھے، ان کی شہادت کے بعد ہندو جاگیر داروں نے انگریز سرکار کی سرپرستی میں مسلمانوں کی زمینوں پر باہر سے آکر قبضے کرنا شروع کر دئیے، 1800ءاور 1802ءمیں کسانوں نے دو بار بغاوت کی جو اگر چہ ناکام رہی مگر برصغیر کے کسانوں کو سیاسی شعور سے ہمکنار کر گئیں، یورپ میں مارٹر لوتھر کی پروٹسٹینٹ تحریک بھی دراصل کسان کو جبر اور استحصال سے نجات دلانے کیلئے تھی، جرمنی میں بھی انہی دنوں کسان تحریک کا آغاز ہوا، فرانس میں پرولتاری تحریک کے بانی بھی کسان تھے۔ پاکستان اور بھارت میں کسان کا استحصال قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور بعد میں صنعت کے فروغ کے ساتھ صنعتکاروں نے بھی شروع کر دیا۔
ایوب خان پہلے حکمران تھے جنہوں نے جاگیرداروں کے مظالم ختم کرنے کیلئے زرعی اصلاحات کیں مگر بعد میں یہ اصلاحات اصلاح کے بجائے بلیک میلنگ کا ذریعہ بن گئیں، بھٹو کی زرعی اصلاحات بھی ڈرامہ ہی ثابت ہوااورآخر کار جاگیر دار ہی ان کی پارٹی کا لازمی حصہ بن کر اقتدار میں حصہ دار بن گئے، نواز شریف صنعتکار تھے امید تھی کہ جاگیر داروں کی اجارہ داری ختم کر کے کسان کو آزادی دلائیں گے اور صنعت کو فروغ دیں گے مگر وہ بھی جاگیر داروں کا آلہ کار بن گئے۔ اس سے قبل سندھ میں کسانوں نے 1930ءمیں حقوق کیلئے ہاری کمیٹی قائم کی، 1950ءمیں ہاری کا آدھا حصہ کا نعرہ مقبول ہوا، ادر مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی نے کسانوں کے حق میں زوردار آواز بلند کی۔
پاکستان کا کل رقبہ 197.7 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 54، 6فیصد رقبہ قابل کاشت ہے، آبادی کا 60فیصدی دیہات کا مکین اورزراعت سے وابستہ ہے، زرعی شعبہ نہ صرف ملکی خوراک کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ صنعتوں کو خام مال بھی فراہم کرتا ہے، ڈیری اور پولٹری کا کاروبا بھی زیادہ تر دیہات میں ہوتا ہے مگر کسان آج بھی بد حال ہے، پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے والے خود نان شبینہ سے محروم اور قرض حاصل کرنے پر مجبور ہیں، کپاس کی کاشت کر کے ٹیکسٹائیل انڈسٹری کو آکسیجن دینے والا کسان خود تن ڈھانپنے کیلئے دو گز کپڑے کو ترستا ہے، یہ ظلم آج بھی جاری ہے اورکوئی حکومت کسان اور ہاری کو جبر ظلم استحصال سے نجات نہیں دلا سکی، یوں لگتا ہے کسان کا استحصال کرنے والا مافیا حکومتوں سے زیادہ زورآور ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور میں کسانوں کی طرف سے مظاہرہ بھی پولیس تشدد کی نذر ہو گیا جس میں ایک مزدور رہنماءکی ہلاکت بھی ہوئی، حکومت کا دعویٰ ہے ہلاکت دل کے دورے سے ہوئی جبکہ کسانوں کا الزام ہے پولیس تشدد نے ان کی جان لی، اس کی تفتیش کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے مگر یہ بھی ضروری تھا کہ حکومت سنجیدگی سے کسانوں کے مسائل معلوم کر کے ان کے مستقل حل کیلئے کوئی اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دیتی اور صدیوں سے استحصال کا شکار کسانوں کو ریلیف دیا جاتا، پانی، بیج، کھاد، زرعی ادویات، فصل کی فروخت مناسب نرخ پر، فروخت کیلئے منڈیوں کا قیام، مڈل مین اور آڑھتی کے مظالم سے نجات کا کوئی راستہ نکالنے کی کوئی کوشش نہ کرنے کا واحد مطلب ہے کہ حکومت مافیاز کے سامنے بے بس ہے، اور کسان کو مشکلات مصائب استحصال سے نکالنا اس کی ترجیح نہیں لیکن ایسا تا دیر نہیں چل سکتا، وزیر اعظم عمران خان کو تو شائد کسانوں کے مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ادراک ہی نہیں مگر وزیر اعلیٰ بزدار تو سب کچھ سمجھتے ہیں، انہیں تو اپنی اسمبلی کی اس قرارداد کا پاس رکھنا چاہئے جس میں گندم کی سپورٹ پرائز دو ہزار روپے کرنے کا کہا گیا ہے، ورنہ کسان کو مارتے رہیں مگر یہ اب خاموش نہیں ہو گا۔ فیض احمد فیض نے کسانوں سے پنجابی میں کہا تھا۔
جرنل، کرنل، صوبیدار
ڈپٹی، ڈی سی، تھانیدار
سارے تیرا دتا کھاون
توں جے نہ بیجیں،
توں جے نہ گاہویں
بھکھے، بھانے سبھ مر جاون
ایہہ چاکر، توں سرکار
مردا کیوں جاویں
اٹھ اتاں نہ نوں جٹا
مردا کیوں جاویں