بیوروکریسی ،ایک رخ یہ بھی
پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کس جماعت کی فتح اور کس کی شکست ہوئی اس کا فیصلہ تو ابھی باقی ہے مگر میری نظر میں یہاں بیوروکریسی ناکام ہو گئی بلکہ ایکسپوز ہو گئی۔ ریاستی امور اور معاملات چلانے کیلئے دنیا بھر میں بیوروکریسی ایک مضبوط ادارہ تصور کیا جاتا ہے، بیوروکریسی یا سرکاری مشینری کا بنیادی کام حکومتی امور کو ریاستی اور عوامی بہبود میں چلانا ہوتا ہے، امن و امان، نظم و نسق کا قیام، عوام کو انصاف اور ریلیف کی فراہمی، حکومت اور حکمرانوں کو آئین و قانون کے ضابطے میں رکھنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، قانون کی حکمرانی کا قیام اس کے بنیادی فرائض کا حصہ ہے۔ مگر ڈسکہ میں کیا ہوا، پولیس اور سول انتظامیہ، الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کر سکے نہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے انکی ترقی و کامرانی اور خوشحالی میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہے، کیونکہ ان ممالک میں بیوروکریسی ریاست کی ملازم ہوتی ہے حکومت وقت کی چاکر نہیں، ان ممالک میں بیوروکریسی کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک حکومت اور حکمران طبقہ کو آئین اور قانون کا تابع رکھنا بھی ہوتا ہے، بیوروکریسی کو ان ممالک میں ورکنگ گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، قانون سازی میں بھی ان کی شمولیت ہے، حکومت جب کوئی قانون بناتی ہے تو بیوروکریسی اس کا جائزہ لیکر بتاتی ہے کہ یہ آئین و دستور کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں پھر اس کوآئین کے تابع بنانے کیلئے مشورے بھی دیتی ہے۔
ان ممالک میں سرکاری ملازم خود کو ریاستی ملازم تصور کرتا اور آئین و قانون کو جواب دہ ہوتا ہے نہ کہ حکومت وقت کو، عوام کو ریلیف دینے، انصاف کی فراہمی، صنعت کے قیام، مصنوعات کی قیمتوں کا تعین، مقررہ قیمتوں پر اشیاءکی خرید و فروخت، مہنگائی کنٹرول کرنا، نظم و نسق کا قیام، امن و امان کی بحالی یہ سب بیوروکریسی کے کام ہیں اور کوئی حکمران ان کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا، زبانی احکامات کی گنجائش ہی نہیں، سفارش، اقرباءپروری، مالی، سیاسی رشوت کا ان معاشروں میں تصور نہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکی صدور کو بھی کٹہرے میں آنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی، رچرڈ نکسن، صدر تھے مگر واٹر گیٹ سکینڈل کی زد میں آکر کھر چلے گئے، کلنٹن کو اپنی سیکرٹری سے تعلقات بنانے کی کوشش میں بھگتنا پڑا، اب حال ہی میں امریکی صدر کو پہلے دور حکمرانی کے دوران مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور پھر عہدہ چھوڑنے کے بعد وہ دوسری بار منتخب ایوان کے کٹہرے میں پیش ہوئے، مگر ہمارے ہاں اس کا تصور ہی نہیں بیوروکریسی اکثر معاملات میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے کی جرات کرتا ہے نہ فائل پہ نو لکھتا ہے۔
سسٹم بنانا، عوامی ریلیف کیلئے قانون سازی اگرچہ منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے مگر اس پر عملدرآمد کرانا بیوروکریسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر ہماری بیوروکریسی نے خود کو ریاست کے بجائے حکومت کا ملازم سمجھ لیا ہے، من پسند تعیناتی، ترقی اور تبادلہ کیلئے حکومت کے ہر جائز ناجائز کام کی حمائت کی جاتی ہے، بیوروکریسی نے کبھی حکومت وقت کی قانون سازی میں معاونت کی نہ ان کو گائیڈلائن دی کہ جو قانون سازی کی گئی وہ آئین سے متصادم ہے، نہ کبھی عوامی ریلیف کیلئے کسی بیوروکریٹ نے حکومت کو تجاویز اور مشورے دئیے، بلکہ حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے زبانی احکامات پر قوانین و قواعد کی دھجیاں اڑاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ عام شہری آج تمام خرابیوں کی جڑ بیوروکریسی کو گردانتا ہے، اور کسی حد تک درست بھی ہے، اس لئے کہ بیوروکریسی آئین و قانون کے مطابق فرائض کی انجام دہی کے بجائے حکمرانوں کے اشاروں پر ناچتی ہے، ان کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی ہے کب کوئی زبانی اور قواعد کیخلاف آرڈر ہو اور وہ حکم بجا لائے، ان کو عوامی مسائل و مشکلات سے کوئی دلچسپی ہے نہ قواعد و ضوابط کی پرواہ اور نہ ہی اپنے حلف کا کوئی خیال ہے، ذاتی مفاد کیلئے یہ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی اور اس کو اپنے معنی دینے کو تیار رہتی ہے، ایسے میں حکمران طبقہ اور بااثر ملزموں کو کیونکر قانون کے دائرے میں لا کر قانون کی حکمرانی قائم کی جا سکتی ہے؟
بیوروکریسی آج مکمل طور پر تقسیم بھی ہے، آج پیپلز پارٹی، ن لیگ، نواز شریف، شہباز شریف، گروپ سرگرم ہیں، تحریک انصاف کا بھی گروپ قائم ہو رہا ہے، یہ ان کے اٹھائے گئے حلف کے منافی ہے، مگر حلف اور قسم کی آج ہمارے معاشرے میں کوئی حرمت ہی باقی نہیں ہے، تحریک انصاف حکومت کی حکومت سمجھتی ہے کہ بیوروکریسی میں ن لیگ کا مضبوط منظم گروپ ہے جو انکی حکومت کو آگے بڑھنے نہیں دیتا، ان کی پالیسیوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے، مسائل پر مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ دوسری طرف، صرف اشیاءصرف کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ کو ہی لے لیں تو انتظامیہ نام کی کوئی چیز کہیں دکھائی نہیں دیتی، پرائس کنٹرول پر توجہ ہے نہ مہنگائی، منافع خوری پر، جس کا جو چاہتا ہے ریٹ مقرر کر کے خرید و فروخت شروع کر دیتا ہے، جبکہ مہنگائی پر کنٹرول بیوروکریسی کے فرائض منصبی میں شامل ہے، امن و امان، نظم و نسق کا بھی یہی حال ہے، جرائم کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، پولیس کسی کے کنٹرول میں نہیں، اگر کوئی پولیس افسر کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ عدم تعاون بھی کیا جاتا ہے، ایسے میں عوام کو تحفظ کون دیگا جب محافظ ہی لٹیرے بن جائیں؟
ستم یہ بھی کہ بیوروکریسی میں مضبوط گروپ کسی کو چلنے ہی نہیں دیتے ان کے آپس میں بھی شدید اختلافات ہیں، یہ لوگ اپنے مخالف گروپ کے کسی افسر کو آگے نہیں آنے دیتے، ہر اہم عہدے پر اپنے گروپ کے افسروں کو آگے لانے کیلئے کھلے عام سازش کی جاتی ہے، جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں لاہور پولیس کے سربراہ کی تعیناتی کے وقت پولیس افسروں کی چھٹی کی درخواستیں اور عدم تعاون کی شکل میں قوم نے دیکھا، ایسے ہی ان مخالف افسر کو عہدہ ملنے پر یہ لوگ بے نامی جھوٹی شکایات حکام کو ارسال کرتے ہیں، احکامات کی بجا آوری میں تساہل سے کام لیتے ہیں، نتیجے میں آنے والا افسر بد دل اور حکام کا اعتماد متزلزل ہو جا تا ہے۔
ان حالات میں عوام کو کیسے ریلیف مل سکتا ہے، کوئی بھی حکومت کیسے کامیاب ہو سکتی ہے، ضروری ہے کہ بیوروکریسی اپنے حلف کی پاس داری کرے، حکومت اور حکمرانوں کی چاکری کے بجائے آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دے تاکہ ملک کے نظام کو درست نہج پر استوار کیا جا سکے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں کہ کوئی آمر بھی تا عمر حکمران نہیں رہتا مگر اس ملک نے ہمیشہ رہنا ہے ہمیں حکومت نہیں ملک کی بقاءکیلئے سوچنا اور کام کر نا ہے، ایسا نہ ہواتوآج ہم جن حالات سے دوچار ہیں ان سے بھی بد تر حالات کا سامنا کرنے کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔